مذہبی جنونیت /رابعہ الرباء

ڈر لگتا ہے۔۔۔
مجھے ہمیشہ مذہبی لوگوں،
مذہبی شہروں،
مذہبی ملکوں سے
ڈر لگتا رہا۔۔
ان کے اندر کا خدا
پوجا مانگتا ہے
بندگی چاہتا ہے
جھکے رہنے کا طلب گار ہوتا ہے۔
اس کے غرور کی چادر آسمان کی بجلی جیسی ہوتی ہے
اسے چاند بنے رہنا ہوتا ہے
یا
مثل آفتاب!

مجھے مذہبی لوگوں سےڈر لگتا ہے
ہاں
مجھے تم سب سے ڈر لگتا ہے
تم سب خدا بن کر کسی نرم کمزور دھرتی پہ
حکومت کرنا چاہتے ہو
بپھرنا ،ابھرنا چاہتے ہو!
یہ صفات طوفان کی ہیں
مجھے ڈر لگتا ہے!

یہ لفظ مادے میں نہ ہوں تو وجود بھی نہیں رکھتے۔۔
خدا تھا یا نہیں تھا, لفظ نہیں تھا!
وہ صفات و فطرت سے پہچانا جاتا تھا،
مجھے کردار سے ڈر لگتا ہے
ان اطوار سے ڈر لگتا ہے
جن کو سدھائے جانور کی طرح کسی ڈھول کی تھاپ پہ جھوم جانا ہے!

تم سے ڈر لگتا تھا
تم سے ڈر لگتا ہے
تم سے ڈر لگتارہے گا

یہ الفاظ سہنے کافی مشکل ہیں کیونکہ ہم نئے نئے الباکستان احساسات سے جنت میں گھوم رہے ہیں لیکن ہم سب بہن بھائیوں نے ابتدائی تعلیم ایک مسیحی سکول سے حاصل کی اور غیر مسلم ہمیں اسلامیات اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے تھے۔
اب سوچتے ہیں یہ ان کا جگر تھا کہ کیسے پڑھاتے تھے۔

اب جب بھی ایسے شدت کے واقعات ہوتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ ان استادوں سے آنکھ کیسے ملانی ہے؟ جن سے پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں جن کے ساتھ غمی خوشی میں شرکت کی ہے ۔ جن کے ساتھ عید ، ایسٹر ، محرم ، کرسمس ،عید میلاد النبی ، منائی ہے۔
سیالکوٹ والے واقعہ پہ اگر آئین سازی کر لی جاتی تو کراچی ، لاہور اور فیصل آباد تک یہ بات کبھی نہ پہنچتی ۔ مذہب ہم نے ان ہاتھوں میں دے دیا ہے جن کو دین اور مذہب کے فرق کا بھی معلوم نہیں ہے۔جو مذہب سے عشق کرتے ہیں اور عشق سے اسلام نے منع کیا ہے کیونکہ عشق انتہا ہے،شدت ہے ۔ اسلام محبت کا درس دیتا ہے۔محبت اعتدال ہے۔

اگر مسجد سے کوئی پکار ہی لے تو جہاد سمجھ کر نکل پڑنا کونسی دانش مندی ہے؟ یہ وہ مقام ہے جب خیال آتا ہے کہ سپیکر کو کیوں حرام کہا تھا علما نے۔
کیونکہ شاید ان کوعلم تھا اس کا سب سے زیادہ غلط استعمال وہ خود ہی انجانے میں کر بیٹھیں گے۔ پارے والی باجی سے لے کر مسجد کے مولوی تک اور مولوی سے لے کے رانی پور کے پیر تک سب مذہب میں “گوڈے گٹوں “سمیت ڈوبے ہوئے ہیں۔ سب کے کار ہائے نمایاں ہمارے سامنے ہیں۔

ایک کوئی فلسفہ سا ہے کہ جب معافی کا در نظر آتا ہو تو گناہ کا مزا چھک لینے میں حرج ہی کیاہے
معافی نامہ بھی آ گیا ہے۔
آواز بلند کرنے والا بھی معافی مانگ لے گا
پیر صاحب وقتی طور پہ گرفتار ہو گیا ہے۔ وہ بھی معافی مانگ کے رہا ہو جائے گا۔
مگر یہ جو مالی ، ذہنی اور سماجی نقصان ہو گیا ہے اس نے ان بچوں کے اندر مذہب کا ڈر پیدا کر دیا ہے ان کے لئے کوئی بھی مذہب اب کوئی خوف ناک سی شے ہے۔ ان بچوں کے ذہنوں سے یہ ڈر کبھی نہیں جائے گا جیسے تقسیم ہند کے فسادات کی بنیاد مذہب تھی اور جو بچے ان فسادات کے بعد زندہ رہے وہ مرتے دم تک انسانوں اور مذہب سے ڈرتے رہے۔

ایسا ڈر اسے ضرور لگتا ہے جو جذباتی نہ ہو ، جسے علم ہو مکافات عمل ہوا تو ان خوف زدہ بچوں میں سے کوئی ایک دن دہشت گرد بن کر کسی مسجد میں خود کو بم لگا کر اڑا دے گا۔

تب ہم مسلک کی بات کریں گے کیونکہ ہم نے ان خوف زدہ بچوں کے پاس مسلک کا رستہ خود چھوڑا ہے ۔ ویسے بھی کبھی ٹھنڈے دل سے ، ٹھنڈی جگہ بیٹھ کر سو چیے گا
یہ اتنے اسلامی ملک ہیں ہم نے کبھی نہیں چاہا ہمارے بچے وہاں جا کر بسیں، کیوں؟
کیونکہ وہ محفوظ نہیں ہیں۔

غیر اسلامی ممالک کے تباہ و برباد ہونے کی دعا پہ ہم آمین کہتے ہیں، ساتھ ہی پاسپورٹ کے دفتر جاتے ہوئے انہی  غیر اسلامی ممالک کا سہانا خواب ہمیں تسکین دے رہا ہوتا ہے کہ ہم نہ سہی ہماری اگلی نسلوں کو سکون ملے گا۔

ایک بار پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے ٹھنڈی جگہ بیٹھ کر جائزہ زیست لیجیے گا
آپ کے اپنے گرد و نواح  میں،آپ کی دل آزاری کرنے والوں میں کن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے آپ کو دھوکہ دینے والوں میں کن لوگوں کی تعداد زیادہ تھی؟
شاید آپ کو بھی ہماری طرح قرار آ جائے
کیونکہ یہ معمہ جذباتی نہیں رہا اب فکر فردا والا سبق پڑھنا پڑے گا
سیالکوٹ والے بچوں کے والدین یا اے پی ایس میں چلے جانے والےبچوں کے والدین یہ بات زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں کہ زندگی جب گھر کی دہلیز پار کرتی ہے تو کیسا ڈر لگتا ہے!

جاپان تو ابھی کرونا کے بچوں پہ ہونے والے اثرات سے نمٹ رہا ہے کہ ماسک کے بعد ان کو دوبارہ ہنسناکیسے سیکھانا ہے۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں سوچنا ہے ہم الباکستان ہیں یا پاکستان ہی ٹھیک تھا ؟
ایک بار پھر ٹھنڈے دل و دماغ سے ٹھنڈی جگہ بیٹھ کر اقلیت بن کر سوچئے گا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply