ایک کھلا خط، اہل وطن کے نام ۔۔اعظم معراج

کراچی 8 جون 2018
اہل وطن سلام
عام پاکستانیوں اور وطن عزیز کی دانشور، ، سیاسی اشرفیہ اور انکے مسیحی حواریوں اور قومی سطح کے صحافیوں سے مودبانہ گزارش ہے،
کہ 2017کی افراد شماری کے اعداد و شمار بہت عرصے بعد باہر آئے ہیں ۔یہ اعدادوشمار تقریبا گیارہ لاکھ مسحیی پاکستانی شہریوں کے محکمہ شماریات کے کاغذات سے یک لخت غائب ہو جانے کا پتہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔
جس کا ثبوت محکمہ شماریات کے ماضی کے اعداد و شمار۔۔ دے رہے ہیں۔ 1951 سے لے 1998کی افراد شماری کے اعداد وشمار میں مسیحو کی ابادی بتدریج بڑھ رہی تھی ۔۔1951میں مسیحی آبادی مجموعی پاکستان کی آبادی کا 1.39فیصد،….1961میں 1.42فیصد، 1972میی 1.45فیصد،۔۔۔ 1981میں 1.55فیصد۔۔۔ 1998میں 1.59فیصد …اس حساب سے محتاط اندازے کے مطابق 2017کی افراد شماری میں یہ تعداد مجموعی آبادی کا 1.82فیصد ہونی چایئے تھی۔۔ ۔جبکہ 2017کی افراد شماری کے اعداد و شمار یہ انکشاف کر رہےہیں کہ۔ مسیحو کی ابادی بڑھنے کی بجائے گھٹ کر پاکستان کی مجموعی آبادی کا 1.27 فیصد ہوگئی ہے۔۔اس جمع تفریق سے یہ ثابت ہوتا ہے۔۔کہ کسی بھی وجہ سے مسیحو کی آبادی تقریباً گیارہ لاکھ کم ہوگئی یا کردی گئی ہے۔جب کہ اس دوران نہ تو اجتماعی ہجرت، اجتماعی نسل کشی یا تبدیلی مذہب کا کوئی اتنا بڑا واقعہ رونماء ہؤا ہے۔۔ اسی طرح شیڈول کاسٹ1951میں مجموعی آبادی کا 1.19 فیصد ..1961میں 1.018 فیصد…, 1972میں 0.95 فیصد… جبکہ 1981کی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ خالی تھا ۔ 1998 میں 0.25 فیصد… اور 2017 میں یہ 0.41 فیصد ہیں۔۔۔۔ اسی طرح ہندؤ جاتی 1951 میں مجموعی پاکستانی آبادی کا 0.51فیصد۔۔۔۔۔،
1961میں 0.49 فیصد۔۔۔۔، 1972 میں 0.47فیصد۔ 1981 میں 1.51 فیصد ۔۔۔۔،،1998میں 1.60 فیصد ۔،
اور 2017 میں یہ تعداد 1.73 فیصد ہوگئی ہے۔۔ ۔۔
تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے کتب کی تیاری کے سلسلے میں کی گئی تحقیق کے دوران یہ اعداد وشمار سامنے آنے کے بعد ہم نے پاکستان کی ہر بڑی سیاسی جماعت کے مالکان کے حواریوں اور ان جماعتوں سے وابستہ مسیحی سیاسی ورکروں، دانشور اشرفیہ ، صحافی برادری، این جی اوز اور سیاسی رحجانات رکھنے والے مسیحی مذہبی راہنماؤں کو بھی اس عددی غلطی یا واردات سے آگاہ کیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اقلیتی حقوق کے لئے قائم شعیب سڈل کمیشن نے اس بے ضابطگی کو متعلقہ حکومتی و ریاستی اداروں کے سامنے اٹھایا یے ۔۔ امید ہے اس کے کچھ مثبت نتائج بھی برآمد ہونگے۔۔ ان میں سے کچھ اعداد و شمار بھی اسی کمشن کی بدولت اب پبلک ہوئے ہیں۔ جب کہ 1951سے 1998 تک کا ادراہ شماریات کے اقلیتوں کے اعداد و شمار صحافی اسحاق بخش کے زریعے ہم تک پہنچنے ہیں ۔۔۔ اب اس کھلے خط کے ذریعے پاکستان کے ہر خاص و عام شہری سے گزارش ہے۔۔۔ کہ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پر آواز اٹھائیں۔۔۔
کیونکہ شفافیت
شہری اور ریاست کے رشتے کو مظبوط کرتی ہے ۔۔ اور یہ مظبوطی ہی ریاست کے استحکام کی ضمانت ہوتی ہے ۔۔
خصوصاً ہر خاص و عام مسیحی کو اپنی اجتماعی بقاء وترقی کے لئے صحیح اعداد وشمار کے حصول کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے ۔۔
کیونکہ صحیح اعداد وشمار کی بنیاد پر کیا گیا، اجتماعی و انفرادی کمزرویوں، طاقتوں درپیش مسائلِ دستیاب موقعوں کا تجزیہ طکمنخ ہی انسان کو ریاستی و حکومتی طاقت کے مراکز سے اپنے حقوق لینے میں مدد کرتا اور صحیح راہ دکھاتا ہے ۔
۔لہذا آپ کے پاس موقع ہے ۔کہ اپنی عددی طاقت کی چوری کرنے کی ورادت کے سنگین مسئلے کو پنجاب کے ضمنی انتخاب میں آنے والے امیدواروں کے سامنے ضرور رکھیں۔۔۔
وہ چاہے حکومتی اتحاد کے امیدوار ہوں، یا موجودہ اپوزیشن کے۔۔، ۔۔حکومتی اتحاد سے زیادہ گلہ یوں بنتا ہے ۔،2017 میں حکومت اس حکومتی اتحاد کی بڑی سیاسی جماعت کی ہی تھی۔۔۔۔ اور المیہ یہ ہے۔۔۔ کہ وزیر شماریات اسی جماعت کے مسیحی تھے ۔۔اور اسی جماعت کے ایک ہندؤ اقلیتی رکن اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات کے چیئرمین تھے۔۔ ان سے یہ ضرور گلہ کریں،اور سوال پوچھے کہ وہ کیا حالات تھے جس میں
بقول شاعر
آحمد سلمان

‏کبھی تو بیعت فروخت کر دی ، کبھی فصیلیں فروخت کر دیں
مِرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کردیں

وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے، مرے چراغوں کو بیچ ڈالا
فرات اپنے بچا کے رکھے، مری سبیلیں فروخت کر دیں

اور پھر کل کی حکومت اور آج کی اپوزیشن سے بھی یہ سوال بنتا ہے۔۔خصوصا اس جماعت کے مسیحیوں سے کہ آپ پھچلے چار سال حکومت میں تھے۔۔
آپ نے ہماری اس گیارہ لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کی جان بوجھ کر یا غلطی سے ہوئی سرکاری کاغذات میں چوری کا ازالہ کیوں نہیں کیا ؟..
اور مسیحی این جی اوز سیاسی جماعتوں کے راہبروں سے بھی ضرور پوچھیں۔ جب یہ گیارہ لاکھ کا قافلہء لٹ رہا تھآ تو آپ کیا کر رہے تھے ۔؟؟؟
پنجاب کی بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات بہت اچھا موقع ہے۔۔ کیونکہ کہ مسیحیوں کی عددی طاقت کا مرکز ہی پنجاب ہے ۔۔اور الیکشن کمیشن کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق مسیحیوں کے پاکستان بھر میں مجموعی 1708288ووٹوں میں سے تقریباً چودہ لاکھ ووٹرز پنجاب میں ہی ہیں ۔۔۔۔
ہم اس کھلے خط کے ذریعے ہر خاص و عام سے گزارش کر رہےہیں ۔۔ کہ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پر آواز اٹھائیں۔
آخر میں ایک بار پھر سینٹ قومی وصوبائی اسمبلیوں اور مینارٹی کمشن میں بیٹھے مسیحیوں اور مسیحیوں کے نام پر مسیحیوں کے حقوق کے حصول کے لئے بنی سیاسی جماعتوں،
این جی اوز اور سیاسی رحجانات رکھنے والے مذہبی ورکروں دست بدست گزارش ہے۔۔
خدارا اس حقیقت کا ادارک کریں کے سیاست اور عددی طاقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اپکی پہلی ترجیح صحیح اعداد وشمار کا حصول ان میں شفافیت لانا ،انھیں اپنی کمیونٹی تک پہنچانا اور ریاستی و حکومتی اداروں میں اعداد وشمار پر پہرا دینا ہونی چایئے ۔
اور ان اعدادوشمار کے بارے کمیونٹی میں پھیلے ابہام وشکوک پیدا کرنے کی بجائے انھیں دور کرنا ہونی چاہیے۔
آئیں مسیحیوں کے لئے انکے آباء کی سرزمین پر انکی فکری ،شعوری،تعلیمی ،معاشی ، سماجی ،معاشرتی ،علمی ،
مذہبی ،تہزبیی اور سیاسی ترقی کے حصول کے لئے انھیں شکوک وشبہات کے سرابوں سے نکال کر شفافیت اور سچ کی بنیاد پر درست اعداد و شمار کے تخمینے کے بعد تجزیہ طکمنخ کی اہمیت کو سمجھ کر اسکے کے لئے جدو جہد کریں۔۔
کیونکہ طاقت کے مراکز سے حقوق کے حصول کے لئے درکار عناصر فزیکل،ریاستی،نظریاتی عددی،مالی ،راویات کے درست تخمینے کے بغیرِ چند انفرادی مفادات تو حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔۔
لیکن اجتماعی حقوق حاصل نہیں کئے جاسکتے ۔۔ اس ضمن میں تحریک شناخت کے رضآ کار آپکی ہر طرح کی راہنمائی و معاونت کے لئے حاضر ہیں۔
واسلام
اعظم معراج
رضاکار تحریک شناخت

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply