• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یکساں اذان و صلوۃ بل اور وزارت مذہبی امور ۔۔۔آصف محمود

یکساں اذان و صلوۃ بل اور وزارت مذہبی امور ۔۔۔آصف محمود

وزارتِ مذہبی امور کے جناب سردار یوسف اپنی جملہ فکری صلاحیتوں کے ساتھ ایک بار پھر میدان عمل میں ہیں ۔ آپ ان کی سادگی دیکھیے ، وہ یہ سمجھتے ہیں اذان اور نماز ایک وقت پر ہونے لگیں تو ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ آ پ ان کا اعتماد دیکھیے وہ سمجھتے ہیں قانون سازی کے نام پر برادران اسلام کے ساتھ جو عین غین کر لیا جائے اسے قبول کر لیا جائے گا ۔ اور آپ ان کی استقامت دیکھیے ، جب سے وزیر بنے ہیں ، اپنی فکری وجاہت کی سند کے طور پر ہر چھ ماہ بعد وہ وطن عزیز سے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے یہی ایک حکیمانہ نسخہ لے کر سامنے آ جاتے ہیں ۔ مذہبی امور نہ ہوئے بچوں کا کھیل ہو گیا۔ نواز شریف پر اب ترس آنے لگا ہے ۔ جو شخص تین دفعہ وزیر اعظم کے منصب پر رہنے کے باجود یہ بات بھی نہ جان سکے کہ مذہبی امور کی وزارت کے لیے کون شخص موزوں ہے اور کون غیر موزوں ، اسے پھر عوام سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ مجھے کیوں نکالا۔

تین سال ہو گئے ، تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وزارت مذہبی امور سے یہ خبر آتی ہے کہ اے اہل اسلام بس چند دنوں کی بات ہے ہمارے وزیر محترم اپنا قانون تیار کر لیں پھر دیکھنا ملک میں انتہا پسندی اسی طرح غائب ہو جائے گی جیسے مذہبی امور کی وزارت سے سنجیدگی رخصت ہو چکی ۔ اب پھر وہی مژدہ جانفزا سنایا گیا ہے کہ لیجیے صاحب یکساں اذان و صلوۃ بل تیار ہو گیا ۔ آئندہ تمام مساجد میں ایک ہی وقت پر اذان ہو گی ور ایک ہی وقت پر نماز کھڑی ہو گی۔جس مسجد کے امام اور موذن نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اسے چھ ماہ کے لیے قید کر دیا جائے گا۔

اب جب کہ اس قانون کا مسودہ تیار ہو چکا ہے اور یہ بلائے ناگہانی کی صورت کسی بھی وقت ہمارے سر پر مسلط کی جا سکتی ہے ، چند سوالات ہیں جو وزارت مذہبی امور کے ان روشن دماغوں کی خدمت میں رکھنا مقصود ہیں تاکہ یہ مجتہدین عصر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

1 ۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس فیصلے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ اس کا جواب اگر یہ ہے کہ مذہبی ہم آہنگی کا فروغ اور انتہا پسندانہ رویوں کا خاتمہ مقصود تھا تو کیا اس سطحی ، غیر ضروری اور بچگانہ قانون سازی سے یہ مقصد پورا ہو جائے گا ؟ ہر گز نہیں۔ اس کے لیے چند اور اقدامات ناگزیر تھے۔ مثال کے طور پر اس وقت متعدد مدارس بورڈ کام کر رہے ہیں۔ ہر مکتب فکر کا اپنا مدرسہ بورڈ ہے جو امتحان لیتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک مکتب فکر کے مدرسے میں پڑھنے والا دوسرے مکتب فکر کے بورڈ کا امتحان نہیں دے سکتا۔ وزارت مذہبی امور نے فرقہ وارانہ خطوط پر قائم یہ سارے بورڈ ختم کرکے ایک بورڈ قائم کرنے کی کوئی کوشش کی ہوتی ، یہ ممکن نہ ہوتا تو ان سب کا نصاب ایک جیسا بنانے کی کوئی شعوری کوشش کی گئی ہوتی۔ یہ طے کیا ہوتا کہ فقہی لٹریچر میں سے کون کون سا لٹریچر انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے ۔ اس طرح کے بہت سے سنجیدہ کام کیے جا سکتے تھے لیکن ایک بھی نہیں کیا گیا۔ آپ فیصلہ سازوں کی شعوری سطح کا اندازہ لگائیے انہوں نے طے کر لیا کہ بس ایک وقت میں اذان ہو جائے اور ایک وقت میں نماز تو ملک میں انتہا پسندی ختم ہو جائے گی اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی۔ یعنی بھلے کوئی ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھے اور بھلے اللہ کی مساجد کی شناخت بھی تفرقے کی بنیاد پر کرتے ہوئے دیگر فرقوں پر اپنی مساجدکے دروازے تک بند کر دیے جائیں لیکن اگر اذان ایک وقت پر ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے۔آپ ہی بتائیے کیا یہ ایک سنجیدہ رویہ ہے؟

2 ۔ نماز کے اوقات کی شریعت میں یوں رہنمائی کی گئی ہے کہ یہ اول وقت ہے اور یہ آخر وقت۔ یعنی نماز اپنے اول وقت میں بھی ادا ہو سکتی ہے اور آخر وقت میں بھی۔ جس چیز کی شریعت میں گنجائش موجود ہے اس پر سردار یوسف اور ان کی وزارت کا سیکرٹری کیسے پابندی لگا سکتے ہیں؟ وزیر محترم اور سیکرٹری صاحب مل کر غور فرمائیں اور ہم طالب علموں کو بتائیں کہ جس چیز کی اجازت اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے دی ہو اس کام کے کرنے پر آپ کسی کو چھ ماہ قید میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ تہتر کے آئین کے تناظر میں کیا آپ کو حق بھی حاصل ہو چکا ہے کہ آپ حلال اور جائز چیزوں پر پابندیاں لگا کر لوگوں کو زندان میں ڈال دیں؟

3 ۔ وزیر محترم اور سیکرٹری صاحب کا مبلغ دینی علم کتنا ہے؟ کیا وہ اس باب میں دینی احکامات سے آگاہ ہیں؟ سردار یوسف صاحب بی اے کی ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے تھے ۔ سیکرٹری صاحب کے اسلامی علوم میں فہم و تدبر کا ہمیں معلوم نہیں اور اس مقصد کے لیے وزارت مذہبی امور کی بنائی کمیٹی کے تیسرے رکن یعنی میئر اسلام آباد کی وجہ شہرت میں بھی کم از کم علم کی کوئی تہمت موجود نہیں ۔ ہر شعبے میں فیصلہ اس کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تینوں شخصیات کے فہم دین کا معیارکیا ہے اور یہ سنجیدہ معاملات کو دیکھنے کا اگر ذوق نہیں رکھتے تو انہیں بازیچہ اطفال کیوں بنا رہے ہیں؟

4 ۔ وزارت مذہبی امور کے نابغوں کا خیال ہے کہ اذان اور نماز کے مختلف اوقات مذہبی ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انتہا پسندی کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ غالب حد تک یہ ایک انتظامی بندوبست ہے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی مکتب فکر کی مساجد میں بھی ازان اور نماز کے اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ اس میں ایک حکمت اور آسانی ہے کہ اگر ایک جگہ جماعت کے ساتھ آپ نماز نہ پڑھ سکیں تو دوسری جگہ پڑھ لیں ۔ کہیں جماعت دس منٹ پہلے ہو جائے یا کہیں دس منٹ بعد ، اس سے نہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے نہ نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ صرف آسانی پیدا ہوتی ہے۔ جنہوں نے برسوں کبھی مسجد کا منہ نہیں دیکھا ان دانشوروں کا معاملہ الگ ہے لیکن جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جن کا مسئلہ ہے کبھی ان سے جا کر پوچھیے کہ نماز کے اوقات میں یہ فرق ان کے لیے کتنی آسانی پیدا کرتا ہے۔ یہ تنوع اور گنجائش کا وہ خوبصورت پہلو تھا جو اسلام نے عطا کیا لیکن وزارت مذہبی امور جس کے درپے ہو گئی؟ کیا ہم جان سکتے ہیں وزارت مذہبی امور آج کل کس این جی او سے مشاورت کر کے اور کس ملک کے فنڈز سے پاکستان میں’’ ہم آہنگی‘‘ پھیلانا چاہتی ہے؟

5 ۔ اس قانون کا ایک اور مضحکہ خیز پہلو دیکھیے ، جو آدمی اللہ کے بتائے وقت پر سرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا اسے تو کچھ نہیں کہا جائے گا اور جو سردار یوسف کے بتائے وقت سے دو منٹ بعد جماعت کھڑی کر دے اسے چھ ماہ قید ہو جائے گی۔پہلے آدمی کے بارے میں کہا جائے گا یہ اس کاذاتی مسئلہ ہے لیکن دوسرے آدمی کو سزا سنا دی جائے گی۔

سردار یوسف صاحب مسلم لیگ ن میں تھے ، پھر ق میں چلے گئے۔مشرف کا اقتدار ختم ہوا تو آپ ایک بار پھر مسلم لیگ ن میں آ گئے۔ اس اقتدار سے وہ بے شک لطف اٹھائیں، دو ماہ باقی رہ گئے ہیں سرکاری خرچے پر بے شک تین چار عمرے بھی کر لیں اور سابقہ گناہ بخشوا آئیں لیکن ان سے درخواست ہے کہ ایسی قانون سازی میں وقت ضائع نہ کریں جس پر عمل ہی نہیں ہو سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم اگر انہیں زعم ہے کہ وہ ایسا قانون بنا سکتے ہیں تو شوق پورا کر لیں۔تیسرے ہی روز مانسہرہ کے لوگ اس قانون کے مسودے میں لپیٹ کر پکوڑے بیچ رہے ہوں گے۔ ناران جاتے ہوئے کسی سہہ پہرمیں مانسہرہ سے یہ پکوڑے خرید کر سردار صاحب کے ہاں حاضر ہوں گا اور کہوں گا یہ آپ کا قانون اور یہ میرے پکوڑے، اب جلدی سے چائے بنوائیے، مجھے شام سے پہلے ناران پہنچنا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply