تنہائی اِک محشرِ خیال۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

انسان اپنی تنہائی کاخود عارف ہوتا ہے۔اگر انسان اپنی تنہائی کا تجزیہ کرتا رہے تو اس کے تزکیہ کا اِمکان اور سامان پیدا ہو سکتا ہے۔ تنہائی جس قدر پاک اور پوتر ہوگی ٗ نفسِ انسانی تزکیے کے اُسی قدر قریب ہوگا۔ تقویٰ سے پہلے تزکیہ ہے۔ تقویٰ ٗتزکیۂ نفس ایسے شجر کا ثمر معلوم ہوتا ہے ۔

میں خواہشات کا غلام ہوں ٗ یا کہ اِک مردِ آزاد ہوں ٗ میری تنہائی اِس کا میزان ہے۔ اگر میں مجمعے میں ترکِ دنیا کا درس دیتا ہوں اور تنہائی میں اپنے اثاثوں کی فکر میں غرق ہوں‘ تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ میں ایک دنیا دار آدمی ہوں۔ اگر میں مسندِ جلوت پر زہد کی نمائندگی کرتاہوں لیکن خلوت میں شہوات ولذات میں منہمک ہوں‘ تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ درسِ زہد میری ایک معاشرتی مجبوری ہے—- بس صوفیوں کی محفل میری شناخت بن چکی ہے‘ اس لیے اس شناخت کا خراج وصول کرنے کے لیے زبانی کلامی دروسِ زہد میری مجبوری بن چکی ہیں۔ اگر میں کوئے ملامت میں قدم رکھنے سے گریزاں ہوں ٗ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری نظر خوگرِ پیکرِ محسوس ہے۔ اگر مجمعے میں میری زبان پر شہرت سے بیزاری کا اعلان ہے ٗ لیکن تنہائی میں ذہن میں شہرت کی تدبیر ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں عزت کے بجائے شہرت کا طلب گار ہوں۔ عزت‘ صرف عزت داروں میں ہوتی ہے۔ لازم نہیں کہ مال دار اور منصب دار ٗ عزت دار بھی ہو۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اگر تم عزت چاہتے ہو ٗتو جان لو کہ ساری کی ساری عزت اللہ اور اُس کے رسولؐ کے پاس ہے۔ یعنی سب سے زیادہ عزت والی ذات اللہ سبحانہ تعالی کی ہے، پھر اللہ کے محبوبؐ کی— اور پھر اُن کی جنہیں وہؐ محبوب رکھیں۔ سورۃ ’’الحجرات ‘‘ کی ایک آیت نے فکر و نظر کو چونکا دیا، اگرچہ بچپن سے پچپن تک بہت مرتبہنظر سے گزری لیکن یوں لگا ٗ جیسے ہم اِس پر سرسری گزرے۔ اِس عالمِ پیری میں جب یہ آیت دل پر گزری تو معلوم ہوا کہ یہ آیت درحقیقت انذار سے تعلق رکھتی ہے، یہ خبردار کرنے والی آیت ہے۔ زبردست کی طرف سے ایک زبردست وارننگ والی آیت ہے۔” اِنّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم”— “بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے ‘جو تقویٰ والا ہے” — یعنی لازم نہیں کہ معاشرے میں عزت و اکرام پانے والا‘اللہ کے نزدیک بھی تکریم پائے ، اور یہاں ملامت کا بوجھ اٹھانے والا وہاں بھی کوئی بوجھ اٹھائے۔ گویا ٗاطن ظاہر کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ ایک جگہ اس مفہوم کی حدیث پاک نظر سے گذری کہ عین ممکن ہے ٗ ایک شخص چیتھڑوں میں ملبوس ہو، لوگ اِسے حقیر سمجھیں اور وہ کسی محفل میں جائے تو لوگ اس کے لیے جگہ تک خالی نہ کریں‘ لیکن وہ ایسا مقبولِ بارگاہ ہو کہ اُس کی دعا سے بارش برسے۔ یعنی معمولی نظر آنے والا ‘اتنا غیر معمولی ہو سکتا ہے کہ ِاس کی سفارش پر اللہ اپنے بندوں پر مہربانی کرتا ہے۔ یہاں سفارش چلتی ہے ٗوہاں شفاعت چلتی نظر آئے گی۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں اپنے ولی کی سفارش اور اپنے نبیؐ کی شفاعت کا حقدار بنا دے!!

تنہائی کی طرف واپس چلتے ہیں—کہ ہم یہاں آئے بھی تنہائی کی کوکھ سے ہیں۔ زندگی سے پہلے بھی تنہائی تھی اور زندگی کے بعد بھی تنہائی ہوگی۔ قبر ایک گوشۂ تنہائی ہی تو ہے۔خلوت میں ہم آزاد ہوتے ہیں اور جلوت میں قید و بند کا شکار ہوتے ہیں۔ ستم یہ کہ ہم اپنی آزادی کو قید تصور کرتے ہیں ،اور قیدِ بامشقت کو آزادی کی پری سمجھے بیٹھے ہیں۔ انسان خلوت میں اِس طرح آزاد ہےکہ یہاں اپنا ارادہ ، خیال اور نیت باندھنے میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ نیت اور ارادے کی آزادی ہی اُس کا امتحان ہے—- عملی زندگی کمرۂ امتحان ہے!! ہمیں ’’الستُ بربکم‘‘ کی تکمیل اور تصدیق کے لیے یہاں بھیجا گیا ہے۔ یوم ِاَلست ٗ کس نے ’’’بلیٰ‘‘ طوعا ًکہا اور کس نے کرھاً —اِس کی تصدیق اِسی دنیا میں ہو جاتی ہے۔
لذت شناس کر کے شرابِ الست سے
کیوں آج قطرہ قطرہ کو ترسا رہے ہیں آپ

تنہائی مثلِ آئینہ ہے—- اور اِسی آئینے میں ہمارا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ اگر میں مجمعے میں معافی کی اہمیت کا درس دیتا ہوں ٗاور تنہائی میں اپنے حاسدوں کے خلاف انتقام کی تدبیر کرتا ہوں تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اہلِ محبت کی محفل میری ایک معاشرتی ضرورت ہے—- میں محفل میں نظر تو آتا ہوں لیکن محفل کا حصہ نہیں بنتا۔ تنہائی میں عیاں ہونے والا چہرہ اگر خوبصورت نہیں‘ تو مجھے توبہ کا حکم ہے۔ اگر میری مجلس خوشبودار ہو ٗ اور میری تنہائی خوشبو سے دُور ہوں ‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں منافقت کے قریب ہوں۔ آج جن لوگوں کی تربت خوشبودار ہے ٗ اور بعد اَز مرگ بھی جن کی قربت خوشبودار ہے ٗزندگی میں اُن کی تنہائی خوشبودار تھی۔ موت اور قیامت ہمارے باطن کو ظاہر کرنے کے اسباب ہیں۔ حدیث ِ مبارکہ میں آتا ہے کہ جس پر موت وارد ہوگئی ‘اُس کی قیامت قائم ہوگئی۔

تنہائی ہمارے باطن کا چہرہ ہے۔ خوشبودار باطن ٗ خوشبودار تنہائی لے کر آتا ہے۔ خوشبودار شخصیت وہی ہے ٗ جس کا باطن خوشبودار ہے —- باطن ہی ظاہر کو خوشبودار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معاشرے سے نفرت، بغض، حسد، کینہ اور غصے ایسی بدبو کو باطن میں موجزن محبت کی خوشبو ہی دُور کر سکتی ہیں۔ نفرت کا جواب اگر نفرت سے دیا جائے تو مزید نفرت اُگتی ہے۔ نفرت کا جھاڑ جھنکار صاف کرنے کے لیے محبت کا سہاگہ پھیرنا ہوتا ہے۔ کثافت لطافت سے ختم ہوتی ہے۔ برائی کا جواب برائی نہیں ٗبلکہ نیکی ہے۔ برائی کو شفایاب کرنے کا نسخہ صرف نیکی کے پاس ہے۔ برائی — بے بصیرت ہوتی ہے، اور اکثر بصارت میں بھی ناقص ہوتی ہے کیونکہ دنیا کی چکاچوند اُسے اندھا کر چکی ہوتی ہے۔ اندھا کسی اندھے کا سہارا نہیں بن سکتا۔ کوئی نور والا ‘ کوئی دانا وبینا ٗمردِ آزاد ہی اندھیرے میں محبوس کسی اندھے کی راہ نمائی کرتا ہے۔

جلوت میں ہم صفات سے متعارف ہوتے ہیں، خلوت ہمیں ذات سے آشنا کرتی ہے۔ ذات کی ذات سے سرگوشی تنہائی میں میسر آتی ہے۔ وہ —- ہر دو میں تیسرا ہے۔ وہ — ہر ایک کے قریب ہے۔ کوئی اُس سے دُور ہوتو ہو ٗ وہ کسی سے دُور نہیں— تنہائی میں وہ مزید قریب ہو جاتا ہے‘ بلکہ اقرب ہو جاتا ہے— نفس میں پلنے والے وسوسوں سے وہ سب باخبر ہیں۔

ایک میرا صفاتی پیکر ہے ‘ اور ایک ذاتی پیکر ہے ۔ صفاتی پیکر کے ذریعے میں عالم کثرت سے مخاطب ہوتا ہوں اور ذاتی پیکر ذات سے ہم کلام ہوتا ہے۔ تنہائی میں ذاتی پیکر اپنے صفاتی پیکر سے بھی ہم کلام ہوتا ہے— نفس ِ لوّامہ کی صورت میں اِسے آئینہ دکھاتا ہے— اور یوں ذات کے رُوبرو کرتا ہے۔ اگر تنہائی میں ٗ میں اپنے رُوبرو نہیں ہوتا ٗ بلکہ دائرۂ صفات ہی میں سرگرداں رہتا ہوں ٗ تو یہ ایک بابِ غفلت ہے ۔

میری ذات میں دو پیکر نہاں ہیں— اور وہ ہر دو میں تیسرا ہے۔ اگر میں عالمِ شہود میں کسی معتبر ذات کو اپنی ذات کا گواہ بنا لوں‘ تو وہ تیسرے میں چوتھا بن جاتا ہے۔ تنہائی کے باب میں ٗ درِ علم ؑ سےمنسوب ایک معروف قول ہے” مومن وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو ٗ بلکہ مومن وہ ہے ‘ جس کی تنہائی پاک ہو”

Advertisements
julia rana solicitors

تنہائی بجائے خود اک محشرِ خیال ہے۔ تنہائی میں تنہا ہونے سے ڈرنا چاہیے، تنہا آدمی اپنے حق میں ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی تنہائی مطلق تنہائی نہیں ہوتی‘ ہر تنہائی کا ایک گواہ ہوتا ہے۔ آج کا گواہ‘ اگر کل منصف کی صورت میں جلوہ گر نظر آئے ‘تو حشر برپا ہو جائے—- واقعی زبان گنگ ہو جائے—- زبان کے علاوہ سب اعضا گواہی دینے لگیں ۔ جب منصف خود عینی شاہد بھی ہو ٗتو فیصلے کے دن فیصلہ ہونے میں قطعی کوئی دقت نہ ہوگی۔ فیصلے کا دن‘ تو فیصلے سنانے کا دن ہےٗ وگرنہ اکثر فیصلے تنہائی کے محشرِ خیال میں ہو جاتے ہیں ۔ حشر— باطن کے نشر ہونے کا دن ہے۔
ہماری تنہائی محفوظ ہو سکتی ہے‘ اگر ہم اِس بات پر یقین قائم کر لیں کہ تنہائی میں ہم اکیلے اور تنہا نہیں ٗ بلکہ ہمہ حال ہماری تنہائی کا گواہ موجود ہے۔ یہ ہماری ترجیح پر موقوف ہے کہ تنہائی میں محبوب ٗمحجوب ہوگا یا مکشوف!! اگر ترجیحات کے باب میں جسم اور جسمانیات اوّل ہیں‘ تو اِنسان اپنے محبوب سے محجوب ہوگا— اگر ترجیح روح اور روحانی سنگت اور لطافت ہے ٗ تو محجوب مکشوف ہو سکتا ہے!!
اگر ہم اپنی تنہائی کی حفاظت میں مصروف ہو جائیں‘ تو ہماری محفل بھی خوشبودار ہو جائے گی۔ لطافت کثافت کا بوجھ اُٹھا لیتی ہے۔ کثافت کسی کا بوجھ نہیں اٹھا پاتی—- یہ زمین کی طرف مائل ہونے کے سبب خود بوجھل ہوتی ہے۔ جلوت اور خلوت کی تطبیق اخلاص ہے، اور تفریق منافقت!! منافقت محجوب ہوتی ہے، اور اِخلاص مکشوف!!
واصفؔ جہان ِ فکر کی تنہائیاں نہ پوچھ
اہلِ قلم کے واسطے خلوت بھی انجمن

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply