ابنِ مریم نے محمدﷺ سے شکایت کی ہے/شائستہ مبین

“جڑانوالہ شہر ” جس کی کل جڑیں ہلا دی گئیں، اپنی جڑوں کی وجہ سے اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ کل جو کچھ ہوا وہ توہین مذہب کا کوئی  پہلا سانحہ نہیں تھا، ان واقعات و سانحات کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے توسط سے یہ سانحات بہت جلد وائرل ہو جاتے ہیں وگرنہ تو ہر روز کہیں نہ کہیں توہین مذہب کی وجہ سے ہم خدا بن کر لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں۔

 

 

 

ابھی تین دن پہلے ہی ہم پاکستان کی آزادی کے 76  سال جوش و خروش سے منا رہے تھے ،سبز و سفید پرچم کی پاسبانی کے دعوے کر رہے تھے اور یہ یکسر  بھول گئے کہ اس پرچم میں سفید حصّہ اقلیتوں کی ترجمانی کرتا ہے ، ان کو بھی اتنی ہی آزادی درکار ہے ،اپنی عبادت گاہوں کو بنانے، اپنی مرضی کی عبادت کرنے کی ، جتنی پرچم میں سبز پرچم کی ترجمانی کرنے والوں کو ہے۔

کل سے میڈیا پر حکومتی عہدیداران اور سیاستدانوں کے بیانات گردش کر رہے ہیں کہ انہیں اس واقعے پر دِلی افسوس ہوا اور اس واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ تحقیقات بھی کرائی  جائیں گی،بہت سے لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج سے پہلے ایسے واقعات کی تحقیقات سے کیا ثابت ہوا، کب کوئی  تبدیلی آئی  یا آگاہی آئی،  کب کسی کے مارے گئے لعل واپس آئے؟ یہ دو دن کی بات ہے تیسرے دن اس سانحے کا کہیں ذکر بھی نہیں ہوگا اور دس دن بعد پھر ایسا ہی ایک اور سانحہ منظر عام پر گردش میں ہوگا۔

مشال خان کے قاتلوں کو کون سی  سزا ملی ، ان کے بیمار ذہنوں کا کونسا علاج کیا گیا، اس کے بعد کون سے احسن اقدامات اٹھائے گئے کہ دوبارہ ایسا سانحہ نہ ہونے پاتا؟ 2021 میں سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکن پرینتھا کمارا کو مذہب کے ٹھیکیداروں نےجب جلا کر ثواب دارین حاصل کیا اس کے بعد کون سی تجاویز اور قوانین کی پاسداری کرائی  گئی  کہ دوبارہ کسی کی جان مذہب کے نام پہ لینے سے پہلے سوچا جاتا۔ کون کون سا واقعہ لکھا جائے, دہرایا جائے ،ہماری تو تاریخ کا ہر صفحہ ایسے ناحق خون سے اَٹا پڑا ہے۔

ہمیشہ سے یہ ہی کہانی دہرائی جاتی رہی ہے کہ تحقیقات کروادی جائیں گی اور ذمہ داران کو ان کے انجام تک پہنچایا جائیگا۔ مسئلہ انجام  تک پہنچانا نہیں ہے، مسئلہ ابتداء ہے، مسئلہ بنیاد میں ہے، جڑوں میں ہے ۔ بنیادوں سے مرمت کی ضرورت ہے ، جو بیج بوئے تھے فصلیں پک کر تیار ہو چکی ہیں اب اس فصل کا آٹا ہر گھر میں کھایا جا رہا ہے، بیج کا فارمولہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔، جو کہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ہے، ذہنوں کی کاشت کاری میں اچھی نسل کا بیج بونے کی طرف کوئی  پہلا قدم اٹھاتا ہے تو اس پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر سنگسار کر دیا جاتا ہے۔

یہ وقت بیانات دینے کا نہیں ہے، تحقیقات کروانے کا نہیں ہے ہم سب جانتے ہیں کہ غلطی کب کہاں اور کیسے ہوئی  ہے۔ یہ وقت تعمیری اقدامات اٹھانے کا ہے، ہمارے ہاں آگاہی کا فقدان ہے، تحقیق اور تعلیم کا فقدان ہے۔ ہم سائنس اور مذہب کی بحث سے باہر نکلیں گے تو آنکھوں کو کوئی  اور منظر بھی دکھائی دے گا۔ تعلیم و تربیت ہمیشہ ساتھ چلتے ہیں تعلیم کے ساتھ ذہنی تربیت کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے۔ کل جس جتھے نے ابنِ مریم کے گھروں کو اجاڑا ہے اس جتھے کو یہ ہی جنون سکھایا گیا ہے پڑھایا گیا ، ان کے ذہن کو اندھیرے کی عادت ڈالی گئی  ہے، روشنی سے ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ ان کی  ذہن سازی اور کردار سازی کی نئے سرے سے ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات کو اس معاملے میں سب سے آگے نظر آنا چاہیے، معاشرے کی تربیت میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ میڈیا کا کام زخموں پر نمک چھڑکنے کے علاوہ  بھی ہے اور وہ ہے آگاہی کی مہم چلانا۔ لوگوں کو رائے کے اظہار کی آزادی کا حق دلوانے میں سب سے آگے میڈیا کو نظر آنا چاہیے۔

پھرعلمائےدین اور مذہبی سکالرز کو اتنا بہادر ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے جذبے اور جنون کو تعمیری سمت دکھائیں۔ عدالتیں اپنا کردار نبھائیں، مذیب، نسل، ذات پات سے قطع نظر فیصلے دیں کیونکہ یہ ہی عدل ہے۔ قوانین بہت ہیں لیکن ان کی پاسداری کہیں نہیں ہے، عدالتیں قوانین کی پاسداری کروانے میں سخت سے سخت ایکشن لیں۔ یہ انسانیت کی بقا کیلئے ضروری ہے کہ ہم انسان خود اپنے جیسے دوسروں انسانوں کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، ان کی آواز بن جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومتوں اور سیاستدانوں نے ان76 سالوں میں مذمت کی ہے ،مرمت نہیں کی۔ ایسے معاملات ان پر چھوڑنے کا وقت نہیں ہے، ورنہ ایک وقت آئے گا جب ہر دن کربلا ہوگا، ہر شام شامِ غریباں ہو گی۔ امن کے مذہب کا پرچار چاہیے ، امن ہی سب مذاہبِ کا یکساں ستون ہے۔ میری تمام قارئین سے گزارش ہے کہ
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply