عبوری حکومت اور ملکی صورتحال کس ڈگر پر؟/وقار اسلم

نگران وزیراعظم نے کابینہ نامزد کرنے کے دوران فہرست میں موجود لوگوں کی جتنی تانک جھانک کی ہے اتنی پہلے آنے والے کسی نگران نے نہیں کی۔ 2013ء میں جسٹس میر ہزار کھوسو مرحوم آئے تو اگلے ہی دن ان کی کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ جبکہ 2018ء میں جسٹس ناصر الملک نے بھی کچھ سوچ بیچار کے بعد کابینہ تشکیل دے دی تھی۔

 

 

 

لیکن کاکڑ صاحب اب تک یہ چناؤ نہیں کر پائے وہ مستغرق ہیں کہ کس ذہنیت کے حامل افراد کو کچن کیبنٹ میں جگہ دی جائے۔ بطور نگران وزیر اعظم ان کی ذمہ داری الیکشن کروانا ہے لیکن حالات کسی اور چیز کی گواہی دیتے ہیں۔کاکڑ صاحب کی بطور وزیراعظم نامزدگی مجھ سمیت بہت سے میڈیا پروفیشنلز کے لئے سرپرائز تھا کیونکہ با وثوق ذرائع تو دعوے کرتے تھے کہ ٹیکنوکریٹس میں سے چناؤ کیا جائےگا۔انوارالحق کاکڑ سے پہلے دو صاحبان جوڈیشری سے آئے اور انہوں نے اپنے نگران دور میں بروقت الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا۔ انوار الحق کاکڑ 2018ء میں ن لیگ حکومت کے خلاف باغی گروپ کا حصہ تھے مگر پھر انہوں نے ایک آزاد حیثیت اختیار کر لی۔ ایک منجھی ہوئی سیاسی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ کافی کٹھن حالات سے دوچار رہنے والے انوار الحق کاکڑ لیکچرار بھی رہے سیاسیات پر عبور رکھتے ہیں، کافی دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی میں شمولیت سے انکار کرتے رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ BAP (کنگز پارٹی) سے تعلق رکھنے والے کاکڑ صاحب نے وقت پر الیکشن کروانے کا اعادہ نہیں کیا اور کہا میں چیف الیکشن کمشنر نہیں مجھے نہیں پتہ کہ کب ہوں گے۔عوام کے لئے درد دل رکھنے کا کہا اور اگلے ہی روز پیٹرول 17 روپے پچاس پیسے بڑھا دیا گیا۔ ان کے بیانات کافی روایتی ہیں کہ austerity رکھیں گے، کابینہ مختصر ہوگی۔ دراصل عوام کے لئے حاصل حصول کچھ نہیں یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔یہ رولر کوسٹر رائڈ ہے عوام کے لئے اس لئے سیٹ بیلٹس باندھ لینی چاہئیں کیونکہ یہ سب کچھ ایڈونچر سے بھرپور ہوگا۔

عوام پر براہ راست بوجھ اب مزید ڈلے گا اور روایتی سیاست دان کلین چٹ لے لیں گے کہ ہم نے آخر اتنا ظلم تو نہیں کیا تھا، ہاں اگر رلایا تھا ہی تو سانس لینے کا موقع تو دیا ہی تھا۔ اب جس قسم کی کابینہ ہم پر مسلط کی جائے گی ہو سکتا ہے وہ بھی نئے نام ہوں اور جو نام پہلے سے گردش کر رہے ہیں وہ محض EyeWash ہی ہوں۔ اس بار کی نگران حکومت اور پچھلی حکومتوں میں فرق یہ ہے کہ اس بار والی اقتصادی فیصلے کر سکے گی جو کہ پیش خیمہ ہیں کہ ڈیڑھ دو سال تک الیکشنز مزید تعطل کا شکار ہوجائیں۔ کابینہ کے ناموں پر ڈیڈلاک اس بات کے شائبے کو تقویت دیتی ہے کہ کچھ ایسے لوگ ایک ہی بار چن لئے جائیں جو اس رولر کوسٹر رائڈ کا مستقل حصہ رہیں۔ پروفیشنل لوگوں کے پروفائل نگران وزیراعظم کاکڑ کی میز پر ہیں لیکن ابھی تک غور و تفکر جاری ہے کہ جسے شامل کیا جائے اور کس کو ڈراپ۔ اگر یہ ایک ٹیکنوکریٹ حکومت ہوگی تو سٹاک ایکسچینج بھی مندی سے بچ کر رہے گی لیکن سخت فیصلوں سے عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ ویسے تو نگران وزیراعظم منصفانہ شفاف الیکشن کروانے کے لئے آتے ہیں لیکن اس بار ان کے کاندھے پر اور بڑی زمہ داریاں بھی ڈال دی گئی ہیں کہ قوم کو درپیش معاشی چلینجز کا وہ کتنی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور حل تلاش نکالتے ہیں یہ وقت ہی بہتر بتا سکے گا۔

پھر ہمیں یہ سمجھایا جائے گا کہ IMF پالیسیز کے مطابق سبسڈی ختم کرنا کتنا ناگزیر ہو چکا تھا۔ امریکی دفتر خارجہ نے عبوری وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اس سب صورتحال سے یہ آشکار ہوتا ہے کہ عبوری حکومت کتنا لمبا چلے گی۔

الیکشن مانگنے کے لیے پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر الگ الگ صفوں میں بیٹھ کر الیکشن مانگے گی اور ان ہی احتجاجوں کے بعد دو سال گزرتے یہ الیکشن کروا دئیے جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بقول راحت اندوری۔۔۔
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے!
ٹیکنوکریٹ نام زیر غور رہنا دراصل اس بات کا شاخسانہ ہیں کہ نگران سیٹ اپ لمبا چلے گا نوے روز میں الیکشن کا خواب دیکھنا عوام کو بھول جانا چاہیے. اس غیر یقینی کیفیت اور تشویش کی لہر نے بہت سے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ خدا کرے کہ اس ارض وطن پر آنے والی تمام مشکلات سے چھٹکارا بآسانی حاصل ہو جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply