دین،سیاست اور ملائیت (قسط1)۔۔۔عنایت اللہ کامران

مغربی تہذیب و تمدن سے مرعوب و متاثر اور اسلامی تعلیمات و ملکی ثقافت و روایات سے نا آشنا دو فیصد سے بھی کم طبقہ قیام پاکستان سے ہی یہ راگ الاپ رہا ہے کہ دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں،دونوں کے یکجا ہونے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں،ملک ترقی نہیں کرسکتا اور ملک میں انتہا پسندی و شدت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے،آج تک یہ پروپیگنڈا انتہائی بودے دلائل کے ساتھ جاری ہے،آج جب کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کا دور ہے تو اس پروپیگنڈا میں بہت شدت پیدا ہوچکی ہے،میڈیا اوّل تو دینی طبقات کو پیش نہیں کرتا کہ وہ اس پروپیگنڈے کا جواب دے سکیں،بالفرض اگر کسی جماعت کے رہنما یا کسی مذہبی شخصیت کو پیش کیا بھی جاتا ہے تو اوّل تو وہ ٹھوس دلائل اور اس پروپیگنڈے کے تاریخی پس منظر کے ساتھ جواب نہیں دے پاتا اور اگر تھوڑا بہت جواب دینے کی کوشش کرتا بھی ہے تو اینکر مکمل جواب سنے بغیر (شاید پلاننگ کے ساتھ)کوئی غیر متعلقہ سوال ٹھونس دیتے ہیں یا پھر مائیک اگلے مہمان کے حوالے کردیتے ہیں جس سے بات تشنہ رہ جاتی ہے اور عوام تک مکمل بات کی بجائے ایک مبہم اور مجہول قسم کا جواب پہنچتا ہے جو نا صرف شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے بلکہ یہ دین بیزار طبقہ جو آج کل لبرل کہلاتا ہے اس مبہم اور مجہول جواب میں بھی نمک مرچ لگا کر اسے مزید منفی انداز میں اپنے پروپیگنڈے کے حق میں استعمال کرتا ہے۔ ان لبرلز،سیکولرز دین بے زارخواتین و حضرات کے جھوٹ پر مبنی اور مغرب سے مستعار لیے گئے یہ نظریات جن کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہیں اور جن کا تعلق بھی تاریخی اعتبار سے محض مغرب تک ہی محدود ہے،اسلام اور ملت اسلامیہ سے ان نظریات کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں،راقم الحروف گزشتہ طویل عرصہ سے سنتا چلا آرہا ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مسلم زعما،علما اور مفکرین اس حوالے سے تحقیق و تدبیر کریں اور مفصل طریقے سے ٹھوس دلائل اور تاریخی حوالہ جات کے ساتھ اس لبرل،سیکولر اور دین بیزار طبقہ کو دندان شکن جواب دیں نیز عوام کو بھی اس حوالے سے   آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ ان دین بے زار لوگوں کے دام میں نہ آئیں اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کا تحفظ کرسکیں۔راقم نے اپنے محدود مطالعہ،دستیاب محدود وسائل اور حوالہ جات کے ساتھ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ اس میں  قارئین کو کافی تشنگی  محسوس ہوگی تاہم یہ اس سلسلہ میں بارش کا پہلا قطرہ سمجھا جائے اور میری تمام مفکرین اسلام،علمائے کرام،پیران ومشائخ عطام سے دست بستہ گزارش ہے کہ امریکی تھنک ٹینک (Rand Corporation)کے مجوزہ یہودی برانڈنظام(لبرلزم) کو متعارف و نافذ کرانے کی کوششوں کے آگے پل باندھنے کے لئے اس وقت اُمت مسلمہ کے اتحاد اور اسکی فکری رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ذاتی طور پر میری رائے کے مطابق سوشلزم اور کمیونزم کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ ہی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے امت کی خاص طور پر مسلمانان جنوبی ایشیا کی فکری رہنمائی کی اور اس کے نتیجہ میں ”منکرینِ خدا“گروہ کا خاتمہ ہوا اور پورافکری نظام زمیں بوس ہوا،انہوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ سوشلزم اور کمیونزم فنا ہوجائیں گے اور وہ دن بھی آئے گا جب یہ لبرلزم بھی اپنی موت آپ مرجائے گا۔ان کی پیشن گوئی کا پہلا حصہ درست ثابت ہوچکا ہے،سویت یونین جو سوشلزم/ کمیونزم کا سب سے بڑا علمبردار تھا وہ دنیا کے نقشہ سے مٹ چکا ہے،مجھے قوی یقین ہے کہ اس مردِ قلندر کی پیش گوئی کا دوسرا حصہ بھی جلد پورا ہونے والا ہے،سرمایہ دارانہ نظام اور لبرلزم اپنی موت آپ مرنے والا ہے،تجزیہ نگار اور دانشور کہتے ہیں کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا یونی پولر یعنی یک قطبی ہوچکی ہے،امریکہ اب دنیا میں واحد سپر پاور ہے اور دنیا کے سارے فیصلے اب اس کی مرہون منت ہیں،لیکن راقم یہ کہتا ہے سویت یونین کے انہدام سے قبل دنیا سہ قطبی تھی جس میں ایک فریق اسلام بھی تھا اور اسی اسلام (اہلِ ایمان)نے سویت یونین (کمیونزم) کو محض قوتِ ایمانی اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا،سویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا آج دو قطبی ہے،ایک طرف عالم اسلام ہے تو دوسری طرف تمام عالم کفر ہے،دونوں نظاموں میں کشمکش جاری ہے اور نتیجہ ان شاء اللہ اسلام کے حق میں ہی برآمد ہوگا۔لبرلزم کے نام سے جو ایک نیادین پیش کیا جارہا ہے اس کے تانے بانے مستقبل کی عالمی یہودی حکمرانی سے جا ملتے ہیں (یہ موضوع مفصل تحریر کا متقاضی ہے)اس لئے اگر مفکرین اسلام نے بروقت تدبیر نہ کی تو امت مسلمہ اس فتنے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوگی۔سر دست ان سطور میں ”کیا دین اور سیاست الگ الگ چیزیں ہیں؟“ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارا دین بے زار طبقہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے جو الفاظ استعمال کرتا ہے ان میں ایک لفظ”پاپائیت“ ہے جبکہ دوسرا لفظ”ملائیت“ (مولائیت)ہے۔(لفظ مولائیت کی وضاحت آگے آ رہی ہے)،،. سب سے پہلے ان دوالفاظ کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے،کیونکہ اس کے بغیر نہ تو اس فتنہ کا تعاقب کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں ٹھوس جواب دیا جاسکتا ہے اس کے بعد دین و سیاست دو الگ چیزیں ہیں یا نہیں اس پر بات ہوگی۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دین،سیاست اور ملائیت (قسط1)۔۔۔عنایت اللہ کامران

  1. بہت زبردست کوشش محترم عنایت اللہ کامران گرامی ۔۔۔۔ مجھے اس پر ایک طرح کی تمانیّت ہوتی ہے جب جماعت اسلامی کے صاحبان علمی و فکری محاذ پر سید مودودی ؒ کی طرح باطل نظریات اصلیّت واضح کرتے ہیں

Leave a Reply