بدگمانی۔۔ہما جمال

اسکول لائف میں جب دوستوں سے ناراضگی ہوجاتی تھی تو طرح طرح کے اشعار اور اقوال نقل کرکے ڈائری میں لکھا کرتے تھے،

ایک قول جو سب دوستوں کی ڈائری میں لکھا ہو ا تھا وہ یہ تھا کہ دوستی جسم میں روح کی مانند ہوتی ہے اور بدگمانی کا ننھا سا عنصر اسے جلا کر رکھ دیتا ہے

یہ قول اس وقت اور عمر میں تو صرف اور صرف ایک دوسرے کی نقل میں لکھا تھا لیکن وقت نے اس کے معنی اچھی طرح سمجھائے۔

آج کل موٹیویشنل اسپیکر بننا باقاعدہ ایک شعبہ بن چکا ہے، یہ اسپیکر ز اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ادب کے معیار سکھاتے ہیں، برادشت  قائم کرنا بتا تے ہیں، کچھ اسپیکر ز کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں  چاہے خود ان پر عمل کریں نہ کریں طرح طرح سے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔

ایک رلا دینے والا واقعہ ۔
چند دن پہلے واٹس ایپ پر ایک رلا دینے والا واقعہ نام سے ایک کہانی موصول ہوئی، جس میں دو دوستوں کی بدگمانی کا ذکر تھا،کہانی کافی طویل ہے لیکن اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ دو انتہائی گہرے دوست دو مختلف شہروں کراچی اور روالپنڈی کے رہائشی تھے،دونوں نے ملنے کا اور ساتھ سیروتفریح کا پروگرام بنایا کراچی والا دوست راولپنڈی والے دوست کی دعوت اور بے انتہا اصرار پر اس کے شہر اس سے ملنے پہنچا لیکن وہاں پہنچتے ہی اسے اپنے دوست کی بے رخی، بے مروتی اور سرد مہری کا سامنا ہوا۔
وہ دوست جس نے بے حد اصرار کرکے اسے دوسرے شہر بلایا تھا اس نے بمشکل ایک کپ چائے اور چند روکھی پھیکی باتیں کرکے دوست سے پوچھا کہ آپ کا یہاں کیسے آنا ہوا اور آپ کہاں ٹھہریں گے؟ اپنے دوست کےاس رویے نے اسے اتنا بددل کردیا کہ وہ وہاں سے اپنا سامان اٹھاکر انجان شہر میں ہوٹل کے دھکے کھانے پر مجبور ہوا اور پھر اگلے ہی دن اپنے شہر روانہ ہوگیا۔
اس کے بعد ان دونوں کے تعلقات منقطع ہوگئے، کیونکہ جس دوست کی بے عزتی ہوئی تھی اس کا دل نفرت اور غصے سے بھر چکا تھا۔
چند سال بعد وہ دوست جس نے دل دکھایا تھا وہ معافی مانگنے اپنے دوست کے پاس جاتا ہے،
لیکن وہ جس کا اپنے دوست کی بے مروتی پر دل دکھا تھا اسے دیکھتے ہی غصہ شروع کردیتا ہے اور بہت برا بھلا کہتا ہے جس پر اسکا دوست اسے کہتا ہے کہ پہلے میری بات سن لو پھر جو چاہے کہہ لینا
میرے ہاں چار بیٹیوں کے بعد بہت ذیادہ منتوں مرادوں سے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا ،لیکن کچھ عرصے بعد ہی وہ بیمار ہوا اور میری گود میں ہی مرگیا ،
جس وقت آپ میرے گھر میں داخل ہوئے میرے سب گھر والے اس کی موت پر رو رہے تھے، میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ کی چھٹیاں خراب ہوں اسلئے اپنی ماں، بیوی اور بہنوں کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ اپنی آوازیں کمرے تک رکھو، پھر بیوی سے آپکے لئے چائے بنوائی، جب آپ میرے گھر سے اپنا بیگ لے کر غصے میں نکل رہے تھے میری ٹانگیں بے جان تھیں اور آپ کے جاتے ہی میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا ۔اگر میں یہ سب آپ کو اس وقت بتادیتا تو میرے دکھ کی وجہ سے آپ کی چھٹیاں برباد ہوجاتیں ۔
اس پر وہ دونوں دوست گلے مل کر خوب روتے ہیں اور غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔
اس کہانی سے نصیحت یہ دی گئی کہ کسی کے بارے میں کوئی بھی رائے غلط فہمی کی بناء پر قائم نہ کریں ۔
میں نے پوری کہانی صرف “””ایک رلا دینے والا واقعہ “”” پڑھ کر پڑھی، لیکن اختتام پر ڈیش ڈیش ڈیش سوچا، مطلب مجھے اس کہانی اور اس کا نتیجہ اخذ کرنے والے موٹیویشنل اسپیکر پر شدید غصہ آیا۔
آپ دو دوستوں کی کہانی بیان کرتے ہیں، شدید دوستی بتاتے ہیں پھر ایک دوست دوسرے دوست سے ملنے جاتا ہے تو بدگمانی کے ٹوکرے اٹھائے ذلیل ہوکر اس کے کوچے سے نکلتا ہے،
اور پھر آخر میں بتاتے ہیں کہ درحقیقت اس کا دوست دکھ میں تھا اس لئے سرد لہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہوا ۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ جس دوست کا بیٹا فوت ہوا تھا وہ اپنے دوست کے گلے لگ کر اپنا دکھ ہلکا کرتا اسے بتاتا کہ میرا اکلوتا بیٹا اس دنیا سے چلا گیا،
تو کیا اس کا دوست اس کا دکھ نہ بانٹتا؟؟؟؟ کیا وہ اس سے اپنی چھٹیاں برباد کرنے کا شکوہ کرتا؟؟؟؟
وہ اس کے گھر سے بدگمان ہوکر، جلتا کڑھتاذلیل ہوکر چلاگیا، اور آخر میں قصوروار بھی اسے ہی ٹھہرایا جارہا ہے کہ اپنے دوست کے اس دکھ کو نہیں سمجھ پایا جو اس نے شئیر کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا۔
موٹیویشنل اسپیکرز آج کل لوگوں کو کچھ ذیادہ ہی کول مائنڈڈ رکھنے کے چکر میں ایسی ایسی مثالیں بیان کررہے ہیں کہ میرا پارہ تو مزید بڑھ گیا ہے۔
یہ ایک مثال تھی ہماری حقیقی دنیا میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں کہ ہم بدگمانیوں کے بیج بمثل کیکر خود بوتے ہیں، اور پھر جب فصل پک جائے تو گمان کرتے ہیں کہ اس سے پیار محبت کے پھول کھلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی آپ کا دوست ہے یا دوستی کا دعویدار ہے تو اس سے بڑھ کر آپ کا خیر خواہ کوئی نہیں ہوسکتا، اور اگر کوئی آپ کا خیر خواہ نہیں یا خیر خواہی کے لائق نہیں تو وہ آپ کا دوست نہیں ہوسکتا۔
لہذا ایسی بدگمانی، غلط فہمی پیدا کرنے سے ہی گریز کریں جس کے بعد صفائی میں یہ لفظ کہنا پڑیں کہ میرا مقصد آپ کو تکلیف سے بچانا تھا کیونکہ میرے نزدیک بدگمانی اور غلط فہمی پیدا کرنے سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply