مسئلہ ختم نبوت اور ہمارے رویے۔۔۔ اعظم سلفی مغل

ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔اسے اگر مسلمانوں کے لئےزندگی و موت کا معاملہ کہا جائے تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہی بنیاد ہے جس پر اسلامی معاشرے کی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ ایام میں پارلیمنٹ نے ایک انتخابی اصلاحات بل میں نرمی کرتے ہوئے لفظ [حلف] کی جگہ [اقرار] شامل کردیا تھا۔ اس پر ایک جناب نے ویڈیوپیغام میں قادیانیت نواز دستور سازوں کا بھانڈا پھوڑتے ہوئےخوابیدہ مسلمانوں کو جگایا کہ غیرت مند مسلمانو مغرب نواز حکومت کی ایماء پرملک پاکستان کے نام نہاد دستورسازوں نے ختم نبوت پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔اور اس ترمیم میں قادیانیوں کے لئے نرمی کی گئی ہے۔

جیسے ہی یہ خبر سوشل میڈیا پر نمودار ہوئی ختم نبوت کے محافظ خود علماءنے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے تیر چلانا شروع کر دیے۔چیلنج مناظروں کی سی صورت حال پیدا کردی گئی ۔قبول چیلنج کے دعوؤں سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتے رہے۔کچھ علماءنے اس ترمیم کے متعلق کہا کہ اس میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اس ترمیم سے ختم نبوت کا عقیدہ محفوظ ہے۔حلف اور اقرار میں کوئی فرق نہیں ہے۔جبکہ فرق بہت زیادہ ہے ۔اگر فرق نہیں تھا تو حلف لفظ سے دستور سازوں کو کیا تکلیف ہورہی تھی ۔دوسری طرف کچھ مذہبی رہنما اپنے اور بیگانے بھی ترمیم کی آڑ میں علماءکے خلاف خوب ڈرون حملہ کئے جارہے ہیں، کہیں انکو گالیوں کے تحائف سے نوازا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہیں انکو قادیانیت نواز کے سرٹیفکیٹ تھمائے جارہے ہیں۔یقیناً اس طرح کے وار سے قادیانیوں کو خوش ہونے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔چاہیے تو یہ تھا ان قانون دانوں سے بات کرتے ،جنہوں نے اپنے ملک کے حالات اور مخصوص اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہوکر اپنے ذاتی نظریا ت ومفادات کی بنیاد پربل کی شق کو تبدیل کیا۔ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کے مسئلہ نے ملک کی صورت حال کو اس قدر ناک کردیا  کہ ختم نبوت کے چوکیداروں نے مغربی پروردہ قانون دانوں کو انتخابی اصلاحات کے بل کو پہلی حالت میں لانے پرمجبورکردیا۔
خواب غفلت کی آغوش میں لطف اندوز ہونے والو ذرا اس غفلت کو چھوڑو اور بیدار ہوجاؤ۔آج الحاد پرستی، دہریت، انکار رسالت، انکار آخرت ،قادیانیت  سمیت خدا جانے کون کون سے فتنے پیدا ہوچکے ہیں جو علماء دین کے کھلا چیلنج ہے۔ان فتنوں کی سرکوبی  کیلئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اپنے اختلافات کو بھلا کر ان طوفانوں کے سامنے سدسکندری بن کر گلشن اسلام کا محافظ ثابت ہو۔ان دشمنان اسلام کے تخریبی ہتھکنڈوں سے نجات پانے کیلئے آج ہمیں آپس میں اتحادو اتفاق کی شد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

اعظم سلفی مغل
حافظ قرآن مطالعہ کا شوقین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply