کیا کرپشن سیاسی مسئلہ ہے ؟ (2)۔۔۔محمد اسد شاہ

میں پہلے (کالم کے حصہ اوّل میں) بتا چکا ہوں کہ کرپشن کا اصل معنی “اختیار کا غلط استعمال” ہے ۔ یہ بیماری اس قدر عام ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے سو فی صد پاک نہیں ہے ۔ اس میں صرف سیاست دانوں کو ہی مطعون کرنا ، اور دیگر سب کو چھوڑ دینا صریح ظلم ہے ۔ سیاست دانوں کو اکیلے ہی گالیاں دینے اور دلوانے کے پیچھے بہت سے مقاصد ہیں ، اور بہت بھیانک ہیں ۔ ایک نسبتاً چھوٹا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اور میں ، سب مل کر سیاست سے نفرت کرنے لگیں ۔ ہر وہ شخص جو ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہو ، اس کو چور اور کرپٹ سمجھیں ۔ یوں سب سیاست دان ایک قسم کے ذہنی مریض بن جائیں ، دفاعی حالت میں رہیں اور ان کی زندگیوں کا بیشتر حصہ عدالتوں اور جلسوں میں اپنی صفائیاں پیش کرتے ہی گزر جائے ۔ قانون سازی اور تعمیر و ترقی کی طرف وہ توجہ ہی نہ دے سکیں ۔ اور جن جن شعبوں میں بڑے بڑے معاشی مگر مچھ بیٹھے اندھا دھند کرپشن کر رہے ہیں ، ان سے پوچھنے یا ان کا احتساب کرنے کی طرف ان کا دھیان ہی نہ جا سکے ۔ یہ وہ مقصد ہے جو اکثر ترقی پذیر ممالک کی بیورو کریسی کو معلوم ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی “کوششیں” ہمیشہ جاری رکھتے ہیں ۔

بڑے بڑے مگر مچھوں کی کرپشن کی حقیقی داستانیں تو شاید دنیا کی کسی لائبریری میں بھی جمع نہ کی جا سکیں ، ان کا صرف ایک موہوم سا تصور ہی کیا جا سکتا ہے ۔ آپ کبھی تحقیق کیجیے کہ دس دس ہزار ، اور بیس بیس ہزار ایکڑز زرعی زمینوں کے مالک کتنا ٹیکس دیتے ہیں ، اور ایک معمولی مزدور آٹا ، دال ، ماچس اور کھانسی کا شربت خریدنے پر کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ تین تین کروڑ کی جہازی سائز گاڑیوں میں گھومنے والے جاگیر دار کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ماہانہ 60 ہزار روپے تنخواہ لینے والا ایک عام سرکاری ملازم کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ ایک شخص بی اے ایل ایل بی کر کے کتنا بااختیار ہو جاتا ہے ، اور دوسرا شخص ایم فل یا پی ایچ ڈی کر کے ، بیس سال تک قوم کے ہزاروں نوجوانوں کو تعلیم دینے کے بعد بھی کتنا بے بس ہوتا ہے جب اس سے پوچھا جائے؛ “تمھارے اندر ایسی کون سی قابلیت ہے کہ ماہانہ ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لیتے ہو؟” ایک میٹرک پاس سب انسپکٹر کتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی غریب کے پانچ مرلے کے پلاٹ پر قبضہ کر لے تو اس کے “پیٹی بھائیوں” کا پورا غول اس کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے ، اور زندگی بھر کی پونجی بیچ کر پلاٹ خریدنے والا ایک غریب مدعی کتنا بے بس ہوتا ہے جب تفتیش سے لے کر کٹہروں تک ہر جگہ وہ جھوٹا “ثابت” ہو رہا ہوتا ہے ۔
میرے دوست پروفیسر احمد حماد بہت نفیس طبیعت کے حامل انسان ہیں ۔ ان کی شہرت ایک دیانت دار اور فرض شناس استاد کی ہے۔ حساس طبیعت شاعر ہونے کی وجہ سے الفاظ کے چناؤ میں بھی محتاط رہتے ہیں ۔ لاہور کی ایک مایہ ناز اور شان دار تاریخ کی حامل یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ۔ یونیورسٹی قانون کے مطابق سمسٹر میں جس طالبہ یا طالب علم کی حاضری 80 فی صد سے کم ہو ، اسے امتحان میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

وہ بتا رہے تھے کہ 2018 کی بات ہے کہ ان کی جماعت میں ایک طالبہ کسی اطلاع یا درخواست کے بغیر تقریباً ساڑھے تین یا چار ماہ تک مسلسل غیر حاضر رہی ۔ دسمبر میں پروفیسر صاحب کو امتحانات کے لیے اہل طلبہ و طالبات کی فہرستیں مرتب کرنا تھیں ۔ مذکورہ طالبہ کی حاضریاں صرف 20 فی صد کے قریب تھیں ۔ کم حاضری کی بنیاد پر اس سمیت تقریباً 7 طلباء و طالبات کو نااہل قرار دیا گیا ۔ لیکن اسی شام انھیں ایک فون کال موصول ہوئی ۔ انھیں دھمکیاں دی گئیں اور اگلے دن 2 بجے ریذیڈنٹ آڈیٹر کے دفتر میں پیش ہونے کا حکم صادر کیا گیا ۔ اگلے دن جب وہ پیش نہ ہوئے تو فون آ گیا؛ “آئے کیوں نہیں؟” انھوں نے اپنی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے شکایت کی کہ ایک ریذیڈنٹ آڈیٹر انھیں کس حیثیت میں “طلب” کر سکتا ہے ۔ 27 دسمبر کو کوئی وجہ بتائے بغیر ان کا اکاؤنٹ بلاک ہو گیا اور جنوری 2019 سے ان کی تنخواہ بند ہو گئی ۔ وجہ پوچھنے پر صدر شعبہ نے انھیں رجسٹرار سے ملنے کی ہدایت کی ۔ رجسٹرار “صاحب” نے نصف گھنٹہ تک باہر بٹھائے رکھنے کے بعد بھی اذن باریابی نہ بخشا ۔ پروفیسر صاحب کے بقول تب انھیں معلوم ہؤا کہ جس خاص طالبہ کو انھوں نے امتحانات کے لیے نااہل قرار دیا تھا وہ ریذیڈنٹ آڈیٹر صاحب کی تیسری بیوی تھی ۔ پھر اچانک ان کے خلاف مختلف الزامات سامنے آنے لگے اور انکوائریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ معروف صحافی اور اینکر اسد اللّٰہ غالب اس داستان پر پروگرام بھی کر چکے ہیں ۔ اسی جنوری میں صدر شعبہ نے یونیورسٹی قوانین کو نظر انداز کرتے پروفیسر صاحب کے نااہل قرار دیئے گئے طلبہ کو زبانی حکم کے ذریعے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دے دی ۔ یونیورسٹی کے دیگر شعبوں کے نااہل طلبہ کو البتہ یہ سہولت عطا نہیں فرمائی گئی ۔ پروفیسر صاحب کی مشکلات پھر بھی ختم نہ ہو سکیں ۔ ان کے خلاف نازک اور حساس الزامات لگوائے گئے ۔ بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود ان کو برطرف کر دیا گیا ۔ ان کے پاس تمام معاملات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور دھمکی آمیز فون کالز کا ریکارڈ بھی ۔ انصاف کے حصول کے لیے ان کی درخواستیں کئی دفاتر میں رل رہی ہیں ۔ اب انھیں کہا جا رہا ہے؛ “پانچ لاکھ لے لو ، اور درخواستیں واپس لو !”

Advertisements
julia rana solicitors london

غور کرتے رہیے کہ معاشرہ کہاں کہاں تک کرپشن کی غلاظت میں لتھڑا ہؤا ہے اور ہم ہیں کہ صرف ایک ہی طبقے کو گالیاں دیئے جاتے ہیں ۔ معاشرے کو کرپشن کی لعنت سے نجات دلوانا ہے تو ہمیں خود تعصب اور بغض سے نکلنا ہو گا ، پھر ہمہ جہت احتساب کرنا ہو گا ۔ معاشرے کی ایسی تربیت کرنا ہو گی کہ ایک عام پٹواری ، منشی اور کلرک سے لے کر ایک جج اور جرنیل تک سب لوگ اپنی ذمہ داریاں ایمان داری اور خوف خداوندی کے ساتھ ادا کرنا سیکھیں ۔ ورنہ ہم نے دیکھا کہ سارا سارا دن دفاتر میں کرپشن کرنے والے لوگ بھی شام کو اپنے بچوں اور دوستوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اس بار فلاں پارٹی کو ووٹ نہیں دینا کیوں کہ ان پر کرپشن کے کیسز ہیں ، اور فلاں کو ووٹ دینا کہ وہ “ایمان دار” ہیں ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply