ملکوں اور قوموں کی ترقی کا راز منصوبہ بندی ہی ہے۔ماہرین طویل عرق ریزی کے بعد سماج کے لیے راہیں متعین کرتے ہیں۔دنیا میں جتنی بھی قوموں اور معاشروں نے سماجی،سائنسی،معاشی اور تعلیمی ترقی کی، اس سب کے پیچھے ایک طویل منصوبہ بندی اور بے لوث قیادت کی قربانی کا جذبہ موجود رہا۔یہی تاریخ ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جو لیڈر تدریجی عمل کے ذریعے اپنی قوم،سماج اور معاشرے میں منتقل کر کے سماج کو ترقی و خود مختاری کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ہماری کم نصیبی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں کوئی ڈھنگ کا رہنما نہیں ملا۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ آیا جو ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کے دیکھ سکے۔بڑا دوش دیا جاتا ہے فوجی آمریت کو، مگر اس فوجی آمریت کو لانے کے اسباب پر اگر دقت نظر سے غور کیا جائے تو سوائے ندامت کے کچھ بھی نہیں۔ذو الفقار علی بھٹو ایک مدبر اور ذہین رہنما تھے۔مگر اس کے باوجود ہم انھیں بھی بعض مقامات بلکہ اکثر پہ، ذاتی اور پارٹی مفادات کا اسیر دیکھتے ہیں۔اگرچہ ان کے کریڈٹ پہ قومی سطح کے چند ایسے کارنامے ہیں جن پہ فخر بجا ہے۔مثلاً ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالنا،ملک کو ایک متفقہ آئین دینا،اسلامی ممالک کے اندر استعمار کے خلاف سیاسی بیداری کی لہر پیدا کرنا وغیرہ۔اس سب کے باوجود،وہ بھی ملک میں سیاسی و معاشی استحکام نہ لا سکے۔ اس میں اگر مگر کی گنجائش موجود ہے کہ،اگر وہ زندہ رہتے،،اگر تحریک نظام مصطفیٰؐ نہ چلتی،جس کے پیچھے عالمی سامراجی طاقتیں تھیں ،اگر ضیا کا مارشل لا نہ لگتا،وغیرہ۔
ان کے بعد ضیا الحق کا طویل مارشل لا ،جس میں ایک ہی پالیسی بن سکی، اور وہ تھی پرائیویٹ جہادی تنظیموں کا ظہور۔اس ضیائی مارشل لائی دور کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے باری باری حکومتیں بنائیں، مگر دونوں جماعتیں باہم دست و گریبان رہیں اور ملک کے لیے اس قدر سیاسی،سائنسی اور معاشی منصوبہ بندی نہ کر سکیں جس سے ملک ترقی کے راستے پر دنیا کے مقابل سفر کرتا۔ سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو، انھوں نے معیشت کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے ایک معیشت دان کو وزیر اعظم کا منصب ہدیہ کر دیا، بے شک شوکت عزیز صاحب نے معیشت کے غبارے میں خوب ہوا بھری،اور معیشت کا پہیہ تیزی سے چلا۔ لیکن وہ بھی کوئی مستقل حل نہ دے سکے۔بارِ دگر، پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور اب نون لیگ کی حکومت ہے۔ہر حکومت اپنے عہد میں ترقی،معاشی و سیاسی استحکام کے دعوے تو کرتی ہے، لیکن حقائق یہ ہیں کہ دن بہ دن، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔دہشت گردی اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے،جو سماجی ہیجان اور نفسیاتی و فکری مغالطوں کی نشاندہی ہے۔کہنے کو کچھ بھی کہا اور لکھا جا سکتا ہے،اور قصیدہ کار ،یہ کام ارزاں نرخوں پہ کرتے نظر بھی آتے ہیں۔ مگر سماج کے بیدار مغز افراد زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کرتے، نہ ہی جذباتیت کی رو میں بہہ کر خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں۔
سچ یہی ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ،بیروزگاری بھی ہے، غربت بھی ہے،نوجوان نسل،اور بالخصوص پڑھے لکھے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔میٹرو منصوبوں،اور ٹرین کے جدید نظام کی افادیت ضرور ہو گی۔لیکن ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ ناقص میکرو اکنامکس (مالی و اقتصادی) پالیسی کے نتیجے میں مالی سال 2017 کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضوں اور مالیاتی خساروں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے سالانہ اجلاس سے قبل جاری کی گئی ‘دی ساؤتھ ایشیا اکنامکس فوکس فال 2017’ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی کمزور میکرو اکنامکس پالیسیوں کے نتیجے میں اقتصادی بحران پیدا ہوا۔ یہ رپورٹ ان دعوئوں کی تردید کرتی ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ ہم دوست ممالک کی مدد سے ترقی کے زینے بہت تیزی سے طے کر رہے ہیں۔اعدا د و شمار ایک الگ شے ہے اور زمینی حقائق ایک تلخ چیز۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ” پاکستان کا فوجی اور دیگر ضروریات کے لیے امریکا پر انحصار باقی نہیں رہا، اگر ضرورت پڑی تو دیگر ذرائع کو بروئے کار لایا جائے گا۔ وزیر اعظم صاحب نے مزید کہا کہ اگر ایک ذریعہ ختم ہو جاتا ہے تو ہمارے پاس کسی دوسرے ذریعے سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں، اس کے لیے زیادہ لاگت اور زیادہ وسائل درکار ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہے جس کا اظہار ہم ہر ملاقات میں کرتے ہیںٗٗ”۔یہ بات بڑی ہی خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنی فوجی ضروریات کے لیے امریکہ پر سے انحصار ختم کر رہا ہے۔ لیکن یہاں ضرورت کے وقت دیگر ذرائع سے رجوع کا مطلب یہی ہے کہ ابھی ہم اس معاملے میں خود کفیل نہیں ہو پائے۔ اگرچہ اس امر میں کلام نہیں کہ پاک فوج دنیا کی بہترین پیشہ ور فوج ہے اور اس کے پاس جدید دفاعی نظام موجود ہے۔امریکی اسلحہ کے علاوہ روس،چین اور یورپی ٹیکنالوجی سے استفادہ بھی کیا گیا ہے۔اہم سوال مگر یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکہ پر سے فوجی انحصار ختم کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف پر سے بھی انحصار ختم کر دے گا؟ اگرچہ وزیر اعظم صاحب نے کہا یہی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرے گا، لیکن زمینی حقائق بڑی ظالم شے کا نام ہے،اور اب تو ورلڈ بینک کی رپورٹ بھی آگئی ہے، جبکہ موجودہ حکومت نے جو قرضہ لیا ہوا ہے وہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔
اس سارے معاملے کا جو نازک پہلو ہے وہ یہی جس کی جانب تمہید میں اشارہ کیا گیا، کہ منصوبہ بندی نہیں ہے۔پاکستان اس وقت ،کئی مسائل کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھاری جانی و مالی قیمت چکانے کے باوجود پاکستان عالمی برادری کی جانب سے الزامات کی زد میں ہے۔جبکہ حکمران جماعت معاشی،سائنسی،تعلیمی اور توانائی کے حوالے سےکسی بڑی قومی منصوبہ بندی کے بجائے سارا انحصار سی پیک پہ کیے بیٹھی ہے۔ خدانخواستہ آج اگر کسی وجہ سے سی پیک پروجیکٹ ناکام ہو جاتا ہے تو معاشی ترقی کا اس کے متبادل منصوبہ ہمارے پاس کیا ہے؟ ہماری بر آمدات کم اور در آمدات بڑھ چکی ہیں۔بے شک دفاعی ضروریات کے حوالے سے پاکستان کا امریکی اسلحہ پر انحصار کا خاتمہ قوم کے لیے خوشخبری ہے جو وزیر اعظم ساحب کی زبانی سنی گئی۔ مگر کیا معاشی سرگرمیوں میں بھی ہم خود کفیل ہو پائیں گے؟ یا اس کے لیے بھی یونہی ہم دنیا میں معاشی سہولت کار تلاش کرتے رہیں گے اور ان کی شرائط پہ موٹر وے تک گروی رکھواتے رہیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں