ایک عام پاکستانی کیا کرے؟۔۔محمد منیب خان

جب ماضی اور  حال کے سیاسی حالات و واقعات پہ تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں تو عام آدمی سوچتا  ہے،کہ وہ کیا کرے۔ جب وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتا ہے تو اسکو باور کروایا جاتا ہے کہ زرداری صاحب کے گھوڑے مربے کھاتے تھے اور ان کا سرے محل پاکستان سے لوٹی دولت کا نتیجہ ہے۔ یہی  ووٹر جب ن لیگ کو ووٹ دیتا ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کا پیسہ لوٹ کرباہر فلیٹ بنا لیے۔ قرض اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں اور پانامہ جیسا بڑا سیکنڈل ان کی چوریوں کو آشکار کرنے کو کافی ہے۔ اس لئےجب اٹھاون ستتر یا نناوے جیسی کوئی کارروائی ہوتی ہے تو تب بھی مٹھائی کی دوکانوں پہ قلت ہو جاتی ہے اور لوگ مبارک باد کےڈونگرے برساتے ہیں۔ پھر ایسا کیا ہوتا ہے کہ سات آٹھ سال میں ملک اس نہج پہ پہنچ جاتا ہے کہ آمروں کو بھی گھر جانا پڑتا ہے اورووٹر کو پھر  ایک بار   انہی سیاستدانوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ انکے جانے کے بعد لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ یہ بھی کھا رہے تھے،حالانکہ انکے کے کھانے پینے کی خبریں کم ہی زبان زد عام ہوتی ہیں، خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔اور  اب تو تحریک انصاف بارے دریدہ دہن ڈھائی سال میں ہی عجیب  و غریب باتیں پھیلا رہے ہیں۔

اسی لیے جب عمران خان نے 2011 میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تو عوام  کے کان کھڑے ہوئے۔ اس وقت تک خان صاحب نہ صرف سب سیاستدانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر چکے تھے بلکہ انکے ماضی بعید کے بیانات اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی حوصلہ افزانہیں تھے۔ اس لیے شاید عام آدمی کو عمران خان کی کرشماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ ان کا نعرہ بھی خوب لبھایا۔ حلانکہ پاکستانی پاکستانی سیاسی بساط پہ پھیلے مہروں پہ نظر رکھنے والے بخوبی بھانپ رہے تھے کہ اس ملک میں کسی بھی سیاستدان کو اسطرح بنا تعاون کے ایسی اٹھان نہیں حاصل ہو سکتی جو اس وقت عمران خان کے حصے میں آ رہی تھی۔

عمران خان نے 2011 سے ان سب کی کرپشن کا راگ الاپا جن کے ساتھ گذشتہ دس سال میں کسی نہ کسی طرح سیاسی جدوجہد کاحصہ رہے۔ کسی بھی تیسری دنیا کے ملک میں کرپشن ایک بہت ہی مسحور کن نعرہ ہے۔ چونکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں عمومی طور پہ غربت زیادہ ہوتی امیر اور غریب کے درمیان ایک گہری خلیج ہوتی ہے، روز گار کے  مواقع کم ہوتے ہیں اور ایک عام آدمی کے لیےمحنت کے بل پہ اپنی کایا بدلنے کے مواقع بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں لہذا یہ سب باتیں ایسا احساس محرومی پیدا کر دیتا ہے جس سےہر دولت مند کی دولت پہ سوال اٹھانے سے عوام کے ایک طبقے کی ذہنی آسودگی کا سامان دستیاب ہو جاتا ہے۔ کرپشن تیسری دنیا کےملکوں کا بڑا مسئلہ ضرور ہے لیکن یہ اس احساس محرومی کی واحد وجہ نہیں ہے۔ معاشرے میں تعلیم کا فقدان، فکری ارتقا کا نہ ہونا، قیادت کی قلت، اداروں کا حدود سے باہر رہنا،  معاشی بحران اور کئی سالوں پہ محیط حکومتی اور ریاستی اداروں کی اندرونی چپقلش سمیت کئی دیگر عوامل ملکوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ  ہوتے ہیں۔ البتہ کرپشن کا نعرہ اس لیے زیادہ پُرکشش ہوتا ہے کہ یہ عوام کو پیسوں سے محرومی کا احساس دلاتا ہے کہ آپ کے حصے کی دولت لوٹی گئی اور یقیناً ایک سائیکل سوار کو جب بتا دیاجائے کہ فلاں سیاستدان کی لینڈکروزر تمہارے ٹیکس کے پیسے چوری کر کے چل رہی ہے تو نفرت کا پنپنا اور پروان چڑھنا قدرتی بات ہے۔

روز اوّل سے ہمارا زور اسی طرح کے کرپشن الزامات پہ رہا ہے شاید یہی وجہ تھی معاشرے میں سیاسی اختلاف سے محض فکری وسعت نہیں آئی بلکہ اس اختلاف سے نفرت نے جنم لیا اور نفرت سے فکر پہلے محدود اور پھر زوال پذیر ہوئی۔ یہاں آمر آئے، سرمایہ دار آئے، زمیندار آئے، ٹیکنو کریٹ آئے اور اب کھلاڑی بھی آ گئے لیکن  عام آدمی کی زندگی جوں کی توں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ عام آدمی نےاپنے لیے یہ پسند کر لیا ہے کہ میرے پاس سیاسی اختلاف کے اظہار کے لیے بس نفرت بچی ہے۔ دنیا میں سیاسی اختلاف کیوجہ سےپیدا ہوتی نفرت کی بدولت معاشرے کی گہری ہوتی تقسیم تو امریکہ جیسی ریاست کے ماتھے پہ شکن لے آتی ہے اور ہم اس تقسیم کوساٹھ ستر سال سے سینوں سے لگائے چلے آ رہے ہیں۔

تو پھر سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ عام آدمی کیا کرے؟ عام پاکستانی جس بھی لیڈر کو چاہے ووٹ دے یہ اس کا استحقاق ہے لیکن عام پاکستانی کو چاہیے کہ وہ ووٹ دینے کے بعد اپنے لیڈر کا ناقد بن جائے۔ وہ اپنے لیڈر اور جماعت کی غلط پالیسیوں سے کنارہ کشی اختیار کرے بلکہ ببانگ دہل اپنے اختلاف کو ریکارڈ کروائے۔ وہ جھوٹ اور سچ کا مغلوبہ نہ بنائے وہ حال کے سب مسائل کو ماضی سے  چاہے جوڑ لے لیکن ان مسائل کے حل کے لیے کوششوں کا تنقیدی جائزہ لے۔ اس سے ہوگا کہ سیاسی جماعتوں پہ غلط فیصلوں  کے خلاف ایک رائے عامہ بننے لگے گی۔ اور جماعتیں اگلی بار ایسا فیصلہ کرتے ہوئے دس بار سوچیں گی۔ مثال کے طور پہ جس لمحےمسلم لیگ ن نے باجوہ صاحب کی ایسکٹینشن بارے آئینی ترمیم کو ووٹ دیا تو سوشل میڈیا سمیت پارٹی کے اندرون خانہ کافی لے دےہوئی۔ یہ ایک واقعہ ہے اگر ہر پارٹی کے ہر غلط فیصلے پہ سر عام اختلافی آوازیں آئیں گی تو سیاسی جماعتیں مجبور ہوں گی کہ وہ اپنا ماحول بدلیں۔ ہمارے ہاں سلسلہ الٹ ہے، جیسے ہی لیڈر کوئی غلط فیلصہ کرتا ہے سوشل میڈیا پہ لوگ مورچے سنبھال لیتے ہیں۔اور تاویلیں گھڑنے کا نہ  ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ لیڈر کے لیے ایک پیغام ہوتا ہے کہ اس کے حصے کے احمق اپنا کام تندہی سے کر رہے ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ جمہوری ملک میں ساری کی ساری جماعتیں نام کی جمہوری ہیں۔ کسی جماعت کے ممبر میں حوصلہ نہیں کہ وہ اسمبلی کے اندر یا باہر پارٹی میٹنگ میں اپنا اختلاف ریکارڈ کروا سکیں۔ لیڈروں نے بھی جماعتوں میں ایسا ماحول بنانا مناسب  نہیں سمجھا کہ جہاں سب اپنی آزادانہ رائے دے سکیں۔

آپ کو جو بھی لیڈر اور جماعت پسند ہے آپ اسے ووٹ دیں آپ دل و جان سے اس کو چاہیں۔ اپنے کمرے کی دیواروں پہ اپنے لیڈر کی  قد آدم  تصاویر لگا لیں لیکن اپنی عقل کو لیڈر کی محبت میں گروی مت رکھیں۔ معاشرے اور قومیں غلطیاں تسلیم کرنے سے ہی آگےبڑھ سکتے ہیں۔ جب تک ذات کے اندر ہی غلطی کا احساس جنم نہ لے تو درستی کیسے ممکن ہے؟

ہم سب کسی بھی جماعت کو ووٹ دیں بالآخر ہم سب پاکستانی ہیں۔ ہم کسی ایک لیڈر کو بھی محض اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ملک کے لئے بہتر ہے۔ لہذا اس سوچ کو اپنی سوچ اور فہم سمجھیں اس کو خدا کی وحی مان کر لوگوں پہ مسلط نہ کریں۔ سیاسی اختلاف پہ اپنے سے جڑے لوگوں کی تحقیر مت کریں۔ ممکن ہے اختلاف ختم ہو جائے لیکن اس سے جڑی نفرت ختم نہیں ہوگی۔ لہذا نفرت کی سیڑھیاں مت چڑھیں آپکا لیڈر کوئی ایسی الہامی شخصیت نہیں کہ اسکا گیان سب کو ماننا پڑے گا۔

بقول عابد ادیب

ہم سے عابداپنے رہبر کو شکایت یہ رہی

Advertisements
julia rana solicitors

آنکھ موندھے ان کے پیچھے چلنے والے ہم نہیں

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply