برٹش قونصلیٹ داخل ہوتے ہی عبداللہ مِین کاؤنٹر کیجانب بڑھا، اور اپنا تعارف کروایا۔ جی عبداللہ صاحب یہ رہا آپ کا پاسپورٹ، اِس پیکٹ کو آپ کھول سکتے ہیں، کاؤنٹر پر موجودافسر نے عبداللہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا،اور پیکٹ عبداللہ کیجانب بڑھا دِیا۔ عبداللہ نے محسوس کِیا کہ وہ اُس پیکٹ کو اُٹھا نہیں سکتا، وہ پیکٹ جس میں آئندہ زندگی کا فیصلہ چُھپا تھا ، زمانے کی آنکھیں اور سکون کا راز چُھپا تھا، وہ اِن دو ہاتھوں سے کیسے اِس ‘بھاری پیکٹ’ کو اُٹھاتا پھر کُھولتا، نہیں نہیں۔۔ یہ میرے سے نہیں ہوگا۔ عبداللہ نے ایک درد بھری آواز میں کاؤنٹر پر موجود آفیسر سے کہا ،کیا آپ میرے لیے یہ پیکٹ کھول سکتے ہیں۔۔ ؟ شاید وہ اِیسے ‘درد’ کو روز ڈِیل کرنے کا عادی تھا جو فوری حامی بھری اور دو سیکنڈ میں اُس پاسپورٹ پیکٹ کو کھول دیا جس کے لیے شاید عبداللہ کو طویل مدت درد کار تھی۔۔ پیکٹ کھولتے ہی پاسپورٹ کے درمیانی پیج کو دیکھا اور پاسپورٹ پیکٹ میں ڈال کر عبداللہ کیجانب بڑھا دِیا۔۔
عبداللہ آفیسر کے سرد رویے سے سمجھ چُکا تھا ویزا نہیں لگا، اور اُسکے دل ہی دل میں سوگ اور ماتم شروع ہو چکا تھا۔۔ ناجانے وہ آدمی اداکاری کا ماہر تھا یا پھر مزہ لے رہا تھا، آفیسر نے سرد سے رویے پر ایک مسکراہٹ بھری اور کہنے لگا مبارک ہو۔۔ عبداللہ صاحب آپ کا ویزا لگ گیا ہے۔۔ حق تو یہ تھا کہ آفیسر سے اِس ظلم کا بدلنا لِیا جائے، لیکن ظلم کے بعد آفیسر کی مرہم پٹی نے عبداللہ کے سارے درد کو ختم کر دیا تھا، خشک سالی پر بارش کی نوید تھی، خوشی تھی کہ جسم اظہار اور الفاظ ادائیگی سے عاجز ہوچکے تھے۔ عبداللہ پیکٹ تھامے تیزی سے قونصلیٹ سے باہر آگیا، گاڑی میں موجود کزن نے شکل سے حالات کا اندازہ لگالیا اور پوچھا کے ‘جارہے ہیں آپ پھر۔۔ عبداللہ چاہتا تھا کہ اِس کا اظہار ہلکا سا ناچ کر کِیا جائے لیکن جسم کی ساخت اور مصروف روڈ نے اِسکی اجازت نہ دی۔۔ بس پھر گھر تک کا سفر تھا اور عبداللہ صاحب کا پوری دنیا کو اُڑنے کے پروانے سے آگاہ کرنا ۔
گھر پہنچتے ہی عبداللہ نے اپنے ابو کو گاڑی سے اُترتے دیکھا جو اُس کے فون کے بعد اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر گھر آچُکے تھے۔ انہوں نے عبداللہ کو چُوما اور پھر وہ گھر میں داخل ہوگئے۔ کچھ گھنٹوں بعد جشن جب تَھما تو عبداللہ نے کھانا کھایا لیکن کھانے کے دوران بھی صوفے پر موجود اپنے بھائیوں شہزاد اور علی کیساتھ اپنی آئندہ حکمت عملی پر باتیں کرتا رہا ۔ اِسی دوران اُس نے اپنے سے دور امی کو اُداس اور گم صم دیکھا جو غالبًا آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کے ساتھ عباس تابش کے شعر کا ورد کر رہی تھیں۔۔
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
عبداللہ ایسے جذبات کی توقع کر رہا تھا، اِس لیے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی چڑچڑائے انداز میں کہا۔۔ امی اَب آپ یہ سب شروع نہ کر دیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازے پر نُوک کی وجہ سے عبداللہ اچانک ہڑبرا سا گیا، دروازہ کھولا تو کَزن نے کہا کھانا تیار ہے نیچے آجاؤ۔ عبداللہ کو لگا جیسے کسی نے بہت حسین خواب سے جَگا دیا، بعض اوقات یادیں اتنا محصور کرتی ہیں کہ انسان چاہتا ہےکہ دنیا ٹھہر سی جائے، وہ کچھ گزرے لمحوں میں گُم سا ہوجائے، جہاں کوئی جگانے والا نہ ہو۔۔ خیر اچھا وقت بھی یاد کر کے دُکھ ہی مِلتا ہے، عبداللہ سوچتا ہوا کھانے کی ٹیبل پر چلا گیا، فِش اور بِینز کھانے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اُس نے کھانا کھایا اور جُوس کا گلاس تھامے واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آکر اُسی انداز میں کرسی پر بیٹھ گیا اور پچھلے سال 5 اکتوبر کی اُس شام کو یاد کرنے لگا جب اُس نے برٹش قونصلیٹ سے ویزا حاصل کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ عدنان صاحب آج تو جشن کی شام ہے اور آپ لِفٹ ہی نہیں کروا رہے، عبداللہ نے اپنے سب سے قریبی دوست کو فون کیا اور شکوہ کرتے ہی بتایا کہ اُس نے 7 اکتوبر کی شام کو یو-کے ،کے لیے اُڑان بھرنی ہے۔۔ جوابًا عدنان بُجھا بُجھا سا لگ رہا تھا، کچھ ہی دیر میں وہ عدنان سے مُلنے اُسکے ہاسٹل پہنچ گیا۔ عبداللہ کو لگتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں سب سے اچھے دوست تھے۔ لیکن اُسکا اندازہ غلط تھا وہ دو نہیں بلکہ تین بہترین دوست تھے۔۔ عدنان، عبداللہ اور پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل 14 کی وہ چھت جہاں ہر شام وہ دھیمی سی روشنی میں خوب گپیں لگاتے تھے۔
اُس شام بھی وہ دونوں اُس اڈے پر موجود تھے جہاں جشن منانے کے لیے دونوں نے ہالی ووڈ اسٹائل میں ‘وکٹری سگار’ سُلگیا ہوا تھا۔۔عجب جذبات کا رقص تھا اُس رات، عبداللہ کی خوشی ناچ رہی تھی تو بہترین دوست جُدائی کے نشے میں خوشی کا رقص دیکھ رہا تھا۔ کافی دیر ایک ساتھ وقت گزارنے کے بعد عبداللہ اپنی زندگی کے بہترین دوست کو روتا ہوا وہی چھوڑ گیا۔ وہ جانتا تھا آج رات عدنان دُکھی گانے لگائے اپنے لیپ ٹاپ پر ایک ساتھ گزارے پانج سال کی تصویریں کھول کر بیٹھ جائے گا۔۔ لیکن عبداللہ اُن سب سے بے پرواہ سا تھا، رونا، دُکھی ہونا اور جذبات میں آجانا جیسی چیزیں اِس وقت اُس پر بے اَثر تھیں۔۔ اُسے بس دو دن بعد اُڑان بھرنی تھی، دو دن میں بالکل ایک دیسی انداز میں وہ جو کچھ خرید سکتا تھا اُس نے خرید لِیا، نہ جانے ہم لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں جسے یا تو ہم خلائی سفر پر جا رہے ہیں یا پھر جنگ کے میدان میں جیسے کچھ وہاں سے مِلے گا ہی نہیں۔کپڑے، برتن، صابن، توا، بِسکٹ، نِمکو اور چائے کی پتی یہ وہ سامان ہے جو ہر دیسی بندہ ضرور لاتا ہے۔۔ جیسے تیسے کر کے وہ دِن پورے ہوئے، اور 7 اکتوبر کی وہ شام آن پہنچی جب اُسے لاہور ائیرپورٹ سے مانچسٹر کے لیے اُڑان بھرنی تھی، گھر سے روانہ ہونے سے پہلے اُس کے ابو نے اُسے کمرے میں بلوایا، وہ جانتا تھا کہ ایک روایتی لیکچر کے ساتھ ساتھ نصیحتوں کی ایک گَٹھی مِلنے والی ہے، لیکن اُس کے سارے اندازے اُس وقت غلط ثابت ہوئے جب وہ اپنے ابو کے کمرے میں داخل ہوا۔۔ سرکاری عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے اُسکے ابو آفیسر مزاج کے آدمی تھے لیکن اپنے چاروں بیٹوں میں سب سے زیادہ اُنکی دوستی اور محبت عبداللہ کیساتھ تھی، حسب معمول ابو نے اُسے اپنے سامنے رکھی کُرسی پر بیٹھنے کا کہا، جہاں اکثر وہ ابو کے آفس سے آنے کے بعد بیٹھا کرتا تھا۔۔ چہرے پر اطمینان اور بھیگی سی آنکھوں کیساتھ ایک دو رسمی سوالات کے بعد کہنے لگے۔۔ عبداللہ دیکھو ،ا اللہ نے والدین بھی کیا چیز بنائے ہیں اپنی کوئی خوشی ہی نہیں ہوتی اپنا کوئی درد ہی نہیں ہوتا، اولاد خوش والدین خوش اولاد کو درد والدین اُس سے زیادہ درد میں۔۔ اور دیکھو والدین کی بس یہ قربانی نہیں ہے کہ وہ کما کر اپنی اُولاد کو تعلیم کے لیے بھیج دیتے ہیں، بلکہ اپنے جسم کے حصے کو خود سے دور کرنا سب سے بڑی قربانی ہے، اُس جدائی کو سہنا ،سب سے بڑی قربانی ہے اور میرے لیے یہ مسئلہ اور بھی گھمبیر ہے کہ آج میرا ایک بیٹا، ایک دوست اور مشیر خاص جارہا ہے، لیکن دیکھو میرے چہرے پر یہ خوشی اِسلیے ہے کہ تم خوش ہو، بہرحال خوشی تمہاری جائز ہے لیکن اَب اُس حدود کو یاد رکھنا جو اللہ نے مقرر کی ہے، تم آزاد ہو جہاں مرضی جاؤ، جو ٹھیک لگے وہ کرو۔ میں تو تمہیں نہیں دیکھ سکوں گا لیکن تمہارا رب تمہیں ہر جگہ دیکھیں گا۔۔
میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہو، اِس کیساتھ ہی انہوں نے عبداللہ کو گَلے لگایا اور ماتھا چوما اور کمرے سے ایک ساتھ باہر آگئے۔ ہوا وہی جس کا عبداللہ کو ڈر تھا، پورا خاندان ائیرپورٹ جانے کے لیے گھر پہنچ چکا تھا، عبداللہ کو محسوس ہو اُسکی رخصتی ہورہی ہے، اُسکی امی نے اُسے قرآن کے نیچے سے گزارا اور روتے ہوئے گلے لگایا، عبداللہ کے چہرے پر نہ اُداسی تھی ۔نہ آنکھوں میں آنسووں، بس چہرے پر ایک فخر یہ سی مسکراہٹ۔۔ سب روتے روتے گاڑیوں پر روانہ ہوئے اور ایک فرد کو چھوڑنے سات گاڑیوں کا قافلہ چل دِیا، عبداللہ کو یہ سب بہت عجیب محسوس ہوتا تھا۔ وہ مذاق میں کہا کرتا تھا، کہ یا تو اتنے لوگ اِس لیے جارہے ہیں کہ پُتر تو واپس نا ں آنا، یا پھر اِس لیے کہ جو ساتھ جارہا ہے واپسی پر اُنکے لیے تحفًہ کچھ لایا جائے، لیکن حقیقت یہ تھی یہ بے بہا محبت تھی جو سنبھالنا مشکل تھی، آخرکار عبداللہ کو اُس وقت سکون آیا ہوا جب لاہور ائیرپورٹ پر رونے کا اور اَن گِنت لوگوں سے ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوا، اور وہ ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوا، سامان بُک کروانے کے بعد پاسپورٹ کنٹرول پر چلا گیا، ابھی وہ کاؤنٹر پر پہنچا ہی تھا کہ ایک اہلکار نے عبداللہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پاسپورٹ طلب کِیا، پاسپورٹ پر فوٹو دیکھتے ہی کہا کہ یہ ہینڈ کیری آپ کا ہے ؟ عبداللہ اچانک پیدا ہونے والی صورت حال سے گھبراگیا اور ہاں میں سَر ہِلایا۔۔ یہ ہینڈ کیری اُٹھائیے اور میرے ساتھ چلیے، اہلکار کا حکم سُنتے ہی وہ ہَکا بَکا رہ گیا اور نئی آنے والی آزمائش کی تعبیر کر تے اہلکار کیساتھ چل دیا۔۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں