بدن (45) ۔ ہارمون اور بھوک/وہاراامباکر

سن 1995 میں اینڈوکرائنولوجی کے شعبے میں ایک زلزلے کا جھٹکا آیا جب ایک ماہرِ جینیات جیفری فرائیڈمین نے ایک ہارمون دریافت کیا۔ کسی نے سوچا نہیں تھا کہ یہ موجود ہو سکتا ہے۔ اس کا نام انہوں نے لیپٹین (leptin) رکھا۔ یہ ہارمون پیدا کرنے کے لئے کوئی غدود نہیں تھے بلکہ یہ چربی کے خلیوں میں پیدا ہوتا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہارمون اپنے غدود کے سوا کہیں اور پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہارمون بہت سی جگہوں پر پیدا ہوتے ہیں جس میں معدہ، گردے، ہڈیاں، پھیپھڑے اور دماغ بھی شامل ہیں۔
لیپٹن کو ملنے والی فوری اور بڑی توجہ صرف اس وجہ سے نہیں تھی کہ یہ پیدا کہاں ہوتا ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ یہ کرتا کیا ہے۔ یہ بھوک کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اگر ہم لیپٹین کنٹرول کر سکتے تو پھر وزن کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا؟ چوہوں پر تجربات میں سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ لیپٹین کی سطح سے چھیڑ چھاڑ کر کے چوہوں کو موٹا اور پتلا کیا جا سکتا ہے۔ کیا ایک wonder drug بننے کو تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔
جلد ہی انسانوں پر ٹرائل شروع ہو گئے اور اس بارے میں امید بہت زیادہ تھی۔ رضاکاروں کو روزانہ لیپٹین کا انجیکشن دیا گیا۔ لیکن ایک سال کے بعد ان کے وزن میں فرق نہیں پڑا۔ معلوم ہوا کہ یہ اتنا سادہ نہیں تھا جتنی امید تھی۔ آج اس دریافت کو ربع صدی گزر چکی لیکن ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ لیپٹین کام کیسے کرتی ہے اور ہم اس سے دوا بنانے کے قریب قریب بھی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مسئلہ کا ایک مرکزی حصہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کا ڈیزائن خوراک کی کمی کے حالات کے لئے ہے، نہ کہ فراوانی کے لئے۔ لیپٹین کا پروگرام یہ نہیں کہ ہمیں بتائے کہ کب کھانا روک دینا ہے۔ جسم کا کوئی بھی کیمیکل ایسا نہیں۔ اور یہ وجہ مسئلہ ہے جس باعث پُرخوری ایک مسئلہ ہے۔
جہاں پر موقع ملے، ہم ضرورت سے زیادہ کھا جاتے ہیں۔ اور اس کی عادت بنا لیتے ہیں۔ جب لیپٹین بالکل ہی موجود نہ ہو تو جسم کا خیال ہوتا ہے کہ ہم فاقہ زدگی کی حالت میں ہیں۔ اس لئے کھانا نہیں روکتے۔ لیکن اگر یہ موجود ہو تو بھی بھوک میں فرق خاص نہیں پڑتا۔ لیپٹین دراصل دماغ کو یہ پیغام بھیجتی ہے کہ فاقہ زدگی کی کیفیت نہیں اور زیادہ مشکل چیلنج کئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ بلوغت شروع کرنا یا حمل ٹھہرانا۔ اگر ہارمونز کا خیال ہے کہ ہم بھوکے ہیں تو یہ عمل شروع نہیں ہو پاتے۔ اور اس وجہ سے وہ لوگ جو فاقہ زدہ ہوں، ان میں یہ کام دیر سے ہوتے ہیں۔ واس کا کہنا ہے کہ “آج کے دور میں تاریخی اعتبار سے بلوغت کی عمر جلدی آ جاتی ہے۔ ہنری ہفتم کے دور میں بلوغت سولہ سے سترہ سال میں شروع ہوتی تھی۔ اب یہ گیارہ سال میں عام ہے۔ اور اس کی وجہ خوراک کی فراوانی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں ایک مزید پیچیدگی یہ ہے کہ جسم کے پراسس محض ایک ہارمون پر منحصر نہیں ہوتے۔ لیپٹین کی دریافت کے چار سال بعد سائنسدانوں نے ایک اور ہارمون دریافت کیا جو بھوک کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ یہ گریلین (ghrelin) ہے۔ یہ زیادہ معدے میں اور کچھ دوسرے اعضا میں پیدا ہوتا ہے۔جب ہمیں بھوک لگتی ہے تو اس کی سطح بلند ہوتی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس کی وجہ سے بھوک لگتی ہے یا بھوک کی وجہ سے اس کی سطح اوپر جاتی ہے۔ بھوک کا تعلق تھائیرائیڈ گلینڈ سے بھی ہے۔ جینیاتی اور کلچرل چیزوں سے بھی۔ موڈ سے بھی اور کھانے تک رسائی سے بھی (میز پر پڑی مونگ پھلی سے ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے)۔ قوتِ ارادی، موسم، دن کا وقت اور دوسرے عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ کسی کو یہ پتا نہیں کہ اس سب کو بھوک کنٹرول کرنے والی گولی میں کیسے ڈالا جائے۔
اور اوپر سے ایک اور چیز یہ ہے کہ زیادہ تر ہارمون ایک سے زیادہ فنکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ اور اس وجہ سے اس کی کیمسٹری کو الگ کرنا اور اس کے ساتھ کھیلنے میں رسک آ جاتا ہے۔ گریلین نہ صرف بھوک میں کردار ادا کرتا ہے بلکہ انسولین کی سطح کی ریگولینشن اور گروتھ ہارمون کے اخراج میں بھی۔ کسی ایک کو چھیڑنے سے دوسرے فنکشن بھی ہل جاتے ہیں۔
ہارمون جس قسم کے کام کرتے ہیں، وہ بہت زیادہ تنوع رکھتے ہیں۔ مثلاً، آکسی ٹوکسن کی شہرت پیار اور لگاو کے احساس کے ساتھ ہے۔ لیکن یہی چہرے پہچاننے میں بھی اہم حصہ لیتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت نکالنے میں بھی۔ لوگوں کے موڈ کا پتا لگانے میں بھی۔ اور ماں کے دودھ کے اخراج میں بھی۔ آخر کیوں ایسا ہے کہ اتنے فرق طرح کے کام ایک ہی مالیکیول سے؟ پتا نہیں۔ اس کا پیار مین کردار اس کی دلچسپ صفت ہے لیکن اس کے بارے میں ہماری سمجھ کم ہے۔ چوہیا کو دینے سے ان میں بچوں سے پیار زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں میں ہونے والی ٹرائلز میں خاص اثر نہیں۔ کچھ ٹرائلز میں اس کی زیادہ مقدار جارحیت اور تعاون میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نتیجہ یہ کہ ہارمون پیچیدہ مالیکیول ہیں۔ ان میں سے کچھ (جیسا کہ آکسی ٹوکسن) ہارمون بھی ہیں اور نیوروٹرانسمٹر بھی (اعصابی نظام کو سگنل دینے والے)۔ یہ بہت کچھ کرتے ہیں لیکن کچھ بھی سادہ طریقے سے نہیں کرتے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply