ثوبیہ اور عمران کی صفائی مہم/قمر رحیم

ثوبیہ کا نام پہلے لکھوں یا عمران کا؟ اس سوال کا جواب تب ہی مل سکتا تھا جب یہ معلوم پڑتا کہ ثوبیہ عمران کے سا تھ ہے یا عمران ثوبیہ کے ساتھ۔لوگ انہیں ایک عرصے سے اکٹھے دیکھ رہے ہیں۔اس لیے سب کا کہنا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔لیکن پھر بھی میرے سوال کی تشفّی نہیں ہو رہی۔

رات بارہ بجے شہر کے آخری کُتے کو سُلا کراپنے دوستوں کو الودا ع کرنے کے بعد جب میں اپنے گھر کے دروازے پر مرغا بنتا ہوں توایک آدھ مرتبہ اُٹھ کر پڑوس کی طرف دیکھ لیتا ہوں۔ خصوصاً چاندنی رات میں۔میری اس حالت سے ڈر کر میرے ایک دوست نے اپنی بیگم کو میری زوجہ محترمہ کے پاس تعزیت کے لیے نہیں بھیجا، کہیں میری بیگم اسے خراب نہ کر دے۔میرے دوست کے مطابق اس کی بیگم سمجھتی ہے کہ دنیا بھر کے خاوند رات بارہ بجے سے پہلے گھر نہیں آتے۔لیکن اس کے کانوں میں کچھ بھنک پڑ گئی کہ دنیا میں ایسے خاوند بھی ہیں جو آوارہ مرغوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بس اس بات کا پتہ چلناتھا کہ میرے وہ دوست عمرے پر روانہ ہوگئے۔تب سے شہر کے کُتے ہماری تلاش میں پریشان پھر رہے ہیں۔ایک دوست جو پیچھے رہ گیا ، اس پر زور آزمائی کی تو وہ چلّے پر چلا گیا۔ تب سے مجھے دورے پڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ رات جب بھی بارش لگتی ہے اٹھ کر باہر نکل جاتا ہوں۔ پھربھیگے ہوئے کتے کی طرح کبھی بھائی کے چولہے کے پاس اور کبھی اپنے یخ بستہ کمرے میں ہیٹر پر بیٹھ جاتا ہوں۔گھر والی کو میری ذہنی کیفیت پر پورا شک ہو گیا ہے۔ بلکہ یقین ہو گیا ہے۔

کل ہی کی بات ہے تیز بارش میں جب پٹرول پمپ والالڑکا‘چاچا’ کہہ کر مخاطب ہُوا تو میں نے شیشے میں داڑھی پر نظر دوڑائی۔ ایک بھی بال سفید نہیں تھا۔ لڑکے کو بلاکر کہا ،کسٹمر کے ساتھ تمیز سے بات کیا کرو۔ ہر کسی کو اپنا چاچا اور ‘بٹکا’ نہ بنا لیا کرو۔ بچیوں نے مجھے آڑے ہاتھوں لیااور کہا ،تم نے غریب آدمی کو Humiliateکر کے  اس کاسارا دن خراب کر دیا ہے۔ اب میں کسی دن لڑکے کے پاس جاؤں گا اور اسے کہوں گا، میں تمہارا چاچا بھی ہوں ، بٹکا بھی، مجھے معاف کر دو۔چاچے اور ‘بٹکے ’بنانے والے یہ لڑکے اور بچے اگر ہمیں چاچے اور ‘بٹکے’ مان بھی لیں تو ان کی دنیا سنور جائے۔ چلو ان کی دنیا نہ بھی سنور سکے، شہر ضرور سنور جائے گا۔

ہمارے دوست افتخار عارف صاحب نے پچھلے دنوں ‘ون ویلنگ’ کرنے والے ایک لڑکے کی خوب ٹھکائی کی اور ا سے کان پکڑواکرگھر بھیجا۔میرا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ مجھے اکٹھے آٹھ دس لڑکے ملے ۔ وہ ابھی ‘ون ویلنگ’ کی تیاری کر رہے تھے۔میں نے ایک کو پاس بلا کر بہت پیار سے سمجھایا۔پیار اور مار ، دونوں اچھے ہتھیا ر ہیں۔اگر موقع محل کی مناسبت سے استعمال کیے جائیں۔ پرسوں ہی ایک دوست کا بھانجا ملا۔ میں نے اس کے محلّے میں سڑک پر ذلیل و خوار ہوتے کچرا اور گندگی دکھائی ۔ اس نے جواباً کہا کہ انہوں نے ایک مرتبہ صفائی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے خلاف بہت مہم چلائی مگر لوگ نہیں مان رہے۔وہ پونچھ یونیورسٹی میں ایم فل کر رہا ہے۔ گھر میں اگر خاتون اوّل ایک مرتبہ صفائی کر کے  سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دے کہ گھر کو صاف رکھو تو جو اس گھر کا حشرہو گا وہ ہمارے شہر کا ہو چکا ہے۔ہمارے بچے ایم فل تک پہنچ گئے مگر انہیں یہ تک نہیں معلوم ہو سکا کہ صفائی روزانہ کا کام ہے۔ جیسے کھانا، پینا ، سونا وغیرہ۔ قصور والدین کا بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایم فل بچوں نے والدین کو پڑھانا شروع کر دیا ہے۔ثوبیہ اور عمران نے البتہ بچوں کو پڑھانا شروع کردیا ہے۔ کئی دوستوں نے بتایا کہ وہ آج کل صفائی مہم پر ہیں۔ ایک آدھ وڈیو کلپ میری نظر سے بھی گزرا۔ان کے فالورز پہلے بھی انہیں پسند کرتے تھے۔ اب زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔میں نے سوچا کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں۔ جلدی سے میں بھی انہیں پسند کرلوں۔

ان کی صفائی مہم ضلع باغ تک پہنچ چکی ہے۔جب وہ اپنے محلے میں گوئیں نالہ روڈ تک پہنچے تو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں گااور اپنی جماعت، نیپ سے بھی سفارش کروں گا۔ عمران نور ، بقول ان کے، کبھی نیشنلسٹ بھی رہے ہیں۔اب عمرانسٹ ہو گئے ہیں۔ اس فیصلے میں ثوبیہ ان کے ساتھ ہے یا وہ ثوبیہ کے ساتھ؟خیر ، اس سے اب ہمارا کیا لینا دینا؟ وہ صفائی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ یہ ہمارے لیے اہم پیش رفت ہے۔ میں نے انہیں صفائی مہم میں کام کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ پتہ نہیں انہوں نے تھیوری بھی پڑھائی ہے یاایک دم پریکٹیکل پر چلے گئے ہیں؟ دراصل بچوں اورخصوصاًان کے والدین کو صفائی مہم شروع کرنے سے پہلے گندگی اورصفائی کا تعارف کرانا ضروری تھا۔اچھائی اور برائی کی طرح ہمارے ہاں صفائی اور گندگی میں فرق مٹ گیا ہے۔گندگی ہماری زندگی کاجزو لاینفک بن چکی ہے۔کپڑوں، جوتوں ، جرابوں، کھانوں، پکوانوں کی طرح۔ بلکہ گندگی اب ایک فیشن بن گیا ہے۔اور ہم میں اس فیشن کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔اگر میں ثوبیہ اور عمران کی جگہ ہوتا، جو نہیں ہو سکتا، تو میں اس فیشن کو پھیلانے والوں کی تلاش میں نکلتا ۔انہیں ایوارڈ دلواتا۔جہاں کہیں کوئی پیمپرز اور پیڈز کا تھیلاپھینکتے نظر آتا یا آتی ، اس کی تصویر سوشل میڈیا کے حوالے کر دیتا۔ میں اگر شہر بدر ہوا تو ایسی ہی حرکات کی وجہ سے ہوں گا۔ظاہر ہے ، ایک باحیا معاشرے میں بے حیائی کی گنجائش کہاں ہے۔حیا کے دائرے میں رہ کر آپ جو مرضی کریں۔ یعنی چوری چھپے اپنے گھر کی گندگی سڑک کی نالی میں ، دوسرے گھر کے سامنے ، حتیٰ کہ دوسرے کے صحن میں پھینک دیں۔ آپ ایک سرٹی فائیڈ باحیا آدمی ہیں۔ اورآپ کی اس حیا کا تذکرہ کرنے والا سرٹی فائیڈ بے حیا اور بے ہودہ آدمی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پڑھائی کرنے والی بچیاں تحصیل علم میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے صوفوں پر گرد کی دبیز تہہ جمی ہوتی ہے اور ان کے قالین پر پاؤں چپک جاتے ہیں۔ایک دوکاندار نے بتایا کہ لوگوں کے پھینکے ہوئے پیمپرز کے تھیلوں کو رات بھر کتے بھنبھوڑبھنبھوڑ کر پورے محلے میں پھیلا دیتے ہیں۔ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاف ستھرے ماحول میں کتے کتنے خوش ہیں! پتہ نہیں ثوبیہ اور عمران ان کتوں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟پتہ نہیں اس کام کے لیے ثوبیہ نے عمران کو اُکسایا ہے یا عمران نے ثوبیہ کو؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply