• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دینی مدارس کی عصری معنویت اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے نکتہ نظر کا ” تحقیقی وتنقیدی جائزہ “۔۔۔۔۔۔(قسط1)ظفرالاسلام سیفی

دینی مدارس کی عصری معنویت اور ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کے نکتہ نظر کا ” تحقیقی وتنقیدی جائزہ “۔۔۔۔۔۔(قسط1)ظفرالاسلام سیفی

یوں تومدارس اپنے قیام سے لے کرآج تک دنیا بھر کے متعدد علمی وفکری اورسیاسی وسماجی طبقات میں موضوع مکالمہ رہے اور ہیں مگر نائن الیون کے بعدان سے متعلق جو کچھ جس طرح کہا گیا وہ کسی طور مکالمہ کہلایا جا سکتا ہے نہ کسی عنوان پر صائب زاویہ فکر۔عالمی دنیا کی نظر میں مدارس کا کردار مشکوک اور تاریخ،خدمات اور تناظر محل نظر وقابل اعتراض ٹھہرا۔اندریں حالات امریکہ میں نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ کی اس عنوان پر”WHAT IS MADARSA“ کے نام سے خامہ فرسائی یقیناً وقت وحالات کا لابدی تقاضا اور کرنے کا ایک نہایت اہم کام تھا جسے انہوں نے کیا اور ایک حد تک بہت خوب کیا،انہوں نے عالمی دنیا کو مدارس کا تعلیمی وتحقیقی بیانیہ سمجھانے کے لیے پوری خوداعتمادی سے مخاطب کیا اور بتایا بلکہ جتلایا کہ مدارس انسانیت کی وہ عظیم خدمت سرانجام دے رہے ہیں جسے یورپ سمیت دنیا کا ہر مہذب سماج کار عبادت وقابل قدرسمجھتا ہے اور سمجھنا بھی چاہیے۔معاملہ اگر اسی قدرہوتا اور بات اگر یہاں تک ہی رہتی تو یہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی یقینا ًایک لائق تعریف وقابل ستائش کاوش تھی اور ہے مگردرحقیقت ایسا نہیں ہوا۔ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ نے جہاں عالمی دنیا کے علمی،سیاسی وسماجی حلقوں کی مدارس سے متعلق انکے زاویہ فکر اور نکتہ نظر کی گرفت کی وہیں ارباب مدارس کو مدارس کے داخلی منظرنامے میں اپنی رائے کے مطابق پائی جانیوالی بے اعتدالیوں وکوتاہیوں کی طرف متوجہ بھی کیا۔انکی نظر میں جہاں عالمی دنیا مدارس سے متعلق بنیادی تصور میں غلطی پر ہے وہیں ارباب مدارس معاصر تعلیمی وتحقیقی چیلنجز کے تناظر میں اس سے بھی بڑی غلطی پر کھڑے ہیں۔جدید عصری علوم سے پہلو تہی اور معاصر مسائل سے نظریں چرانا انکی نظر میں اسی سطح کی غلطی ہے جو مغربی سماج میں مدارس کے کردار سے متعلق انکے نکتہ نظر میں ہے۔ڈاکٹر صاحب اظہار خیالات میں اگرچہ بعض مقامات پر جذباتیت اور افراط وتفریط کا شکار ہیں مگر عمومی پیرایہ بیان ناصحانہ وخیرخواہانہ ہے،طنز وتنقید سے قطع نظروہ اپنی اس کتاب میں بالعموم مخاطب حلقہ فکرکو کچھ سمجھانا چاہ رہے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ انکے نکتہ نظر کو موضوع گفتگو بنایا جائے۔

فاضل مصنف اپنے خیالات کا اظہار مقدمہ سے فرماتے ہیں،مقدمے میں انکا مرکزی موضوع مدارس کے دہشت گردی وانتہاپسندی سے تعلق کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہے۔مقدمے میں انکا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف یورپ کی نظر میں مدارس دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور جملہ خامیوں کا مرکز ہیں وہیں دوسری طرف جمہور امت مسلمہ انہیں مذہبی سطح پر تعلیم وتعلم کا واحد وسیلہ سمجھتے ہیں،وہ لوگ جن کی نظر میں مدارس سماج پر بوجھ اور غیرکارآمد فیکٹریاں ہیں وہ دراصل چھوٹے دماغ کے لوگ ہیں جنہیں عہد وسطی کے مشہور کیتھولک اسکالر ”تھامس اکویناس“ کے اس اعتراف کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ”میں نے مسلم مصادر علمی سے بہت کچھ استفادہ کیا “ اور جو کہتا ہے کہ ”بارہویں صدی میں مسلمان الجبراء کا مطالعہ کر رہے تھے“ مصنف اس بات پر نالاں ہیں کہ اگر ایک طرف امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کولن پاول اور وزیردفاع ڈونالڈرمس فیلڈ مدارس کو دہشت گردوں کی پرورش گاہ اور خود کش حملہ آوروں کی آماجگاہ کہتے ہیں تو دوسری طرف مدارس سے ہمدردی رکھنے والا طبقہ مدارس کی مبنی بر حقیقت تصویر کشی نہ کرکے بجائے خود قصوروار ہے۔

نائن الیون کے بعد جب مدرسہ حالات کی ستم ظریقی اور عالمی جبر کے سبب اس بابت کچھ علم ومعلومات نہ ہونے کے باوجود عنوان بحث بنالیا گیا تو اس سے زبردست فکری مغالطوں پر مبنی دھندلا منظر نامہ وجود میں آیا،ایک ایسا منظرنامہ کہ جس میں لوگ مدرسہ کو عجائب خانہ اور مسلمان کو اچھوت سمجھنے لگے،کتاب کا مقدمہ بتلاتا ہے کہ یہ ایک غیرواقعی وغیرحقیقی نکتہ نظر ہی نہیں غیردانشمندانہ زاویہ فکر بھی ہے،مدارس دینی علوم کا مرکز اور مسلم تہذیب وثقافت کی بقا کا ذریعہ ہیں،جمہوریہ مسلم سوسائٹی ان سے علمی اشتغال رکھتی اور انہیں روحانی افزائش وبالیدگی کا ذریعہ سمجھتی ہے۔مصنف کی نظر میں مدرسہ اگرچہ اپنے داخلی ماحول میں فکری جمود اور نظری محدودیت سے دوچار ہے مگر اس سب کے باوصف اسے ایک بے کار اور غیرکارآمد ادارہ سمجھنا بجائے خود ادنی درجہ کی حماقت ہے۔

عملی تجربات کا تذکرہ کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار مدارس میں بیتا اپنا تعلیمی دورانیہ کھلے احساسات،حسین جذبات اور زائد از ضرورت خیالات کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔انکے نزدیک مدارس کی نصابی روایت قدامت پسندی کا ایک ایسا مظہر ہے جس میں معاصر مسائل سے تغافل،فکری جمود،تقلیدی روش اور جدید مسائل سے تجاہل جیسے پہلو نمایاں ہیں۔وہ مدارس کی گراں مایہ خدمات کے اعتراف کے ساتھ اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مدارس جدید دور کے تناظر میں فکری ارتقاء میں کوئی کردار ادا کرنے سے بہرحال قاصر ہیں۔

عرضداشت :
مقدمہ میں مولف نے مدارس کے دامن پرپڑے دہشت گردی الزامات کے چھینٹے جس خوبصورتی سے دھوئے وہ یقینا ًلائق ستائش کاوش ہے مگر یہ فرمانا کہ مدارس فکری جمود اور نظری محدودیت سے دوچار ہیں کسی طور قرین انصاف نہیں،حقیقت یہ ہے کہ مدارس میں تحقیق ومطالعہ اور فکر ونظر کا ماحول کسی بھی تعلیمی وتحقیقی درسگاہ سے کم نہیں،یہ سچ ہے کہ مدارس وسائل کی کمیابی اور اسباب کی قلت کے سبب تعلیم وتحقیق کے خاکے میں مروجہ رنگ بھرنے اور خشک مزاجوں کو موسیقانہ چاشنی دینے سے قاصر ہیں مگر اس عنوان پر انکا نتیجہ عمل لاریب کہ اپنی بساط سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔طلباء میں علمی رسوخ کے بعدان میں مطالعاتی شغف پیدا کرنا،یومیہ اسباق کا باضابطہ مطالعہ کروانا اور تدریس سے قبل سبق پر اپنا نتیجہ فکر قائم کرنے کی ترغیب دینا،شب وروز پیش آمدہ مسائل پر دارالافتاء میں یومیہ بنیادوں پر ایک خاص حد تک تحقیقی ماحول قائم کرنا،منتخب معاصر مسائل وچیلنجزپر دارالافتاؤں اور منتخب تحقیقی فورمز پر تحقیق ومکالمہ کا اہتمام کروانا کہیں اور نہیں مدارس میں ہی ہوا اور ہورہاہے۔لائبریر ی کو جتنا حق مدرسہ نے دیا کسی بڑے سے بڑے معاند ومخالف کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ ادائیگی حق کی اس سے بڑی کوئی نظیر پیش کرسکے۔مولانا مجاہد الاسلام قاسمی کی فقہ اکیڈمی،دارالعلوم کراچی کی تحقیقات علمی،المرکز الاسلامی بنوں کی علمی مجالس،اہل حدیث مکتب فکر کی مجلس التحقیق الاسلامی کیا فکری جمود اورتقلیدی روش کی مثالیں ہیں؟

ہمیں اعتراف ہے کہ اس عنوان پر ابھی بہت کچھ کرنے کا ایسا کام ہے جو ہوا نہ ہوپا رہا ہے مگر جو ہورہا ہے اسے بھی کسی طور وہ عنوان نہیں دیا جاسکتا جو مولف نے دیا۔ورطہ حیرت میں ہوں کہ دنیا کو شرعی دائرے میں بینکاری کا ایسا نظام جو عصرحاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہو وضع کرکے دینے والوں کو کتنی آسانی سے جدید مسائل سے تجاہل اور نظری محدودیت کا طعنہ دے دیا گیا۔ ایمانداری سے بتلائیے اور فرمائیے کہ کیا اسلامک بینکنگ،اسلامی معیشت ،فقہ المعاملات،فقہ البیوع والقضاء ایسے مضامین مدارس میں زیرتدریس وتعلیم نہیں اور کیا ان عنوانات پر مدارس کا داخلی ماحول ویران پڑا ہے؟اگر یہ سب ہورہا ہے تو وہ یقینا غلط ہے جو آپ فرمارہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ظفر الاسلام
ظفرالاسلام سیفی ادبی دنیا کے صاحب طرز ادیب ہیں ، آپ اردو ادب کا منفرد مگر ستھرا ذوق رکھتے ہیں ،شاعر مصنف ومحقق ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply