بدن (12) ۔ جراثیم/وہاراامباکر

ایک گہرا سانس لیں۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ آپ کے پھیپھڑے آکسیجن سے بھر گئے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں۔ اسی فیصد نائیٹروجن اندر گئی ہے۔ یہ فضا میں سب سے زیادہ پائی جانتی ہے اور ہمارے لئے بھی لازم عنصر ہے لیکن یہ دوسرے عناصر سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھتی۔ پھیپھڑے میں جانے والی نائیٹروجن ویسے ہی باہر نکل آئے گی۔ اسے جسم کے لئے مفید بنانے کے لئے اسے کسی اور شے میں تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، امونیا۔ اور یہ کام بیکٹیریا کرتے ہیں۔ ان کی مدد کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ اور ان کے بغیر ہم موجود نہ ہوتے۔ ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کھرب ہا کھرب جراثیم کا گھر ہیں اور یہ بہت سے اچھے کام کرتے ہیں۔ آپ کے جسم میں جانے والی دس فیصد کیلوریز ان سے آتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی خوراک توڑ دیتے ہیں جو ہم خود ہضم نہ کر پاتے۔ وٹامن B2، وٹامن B12 اور فولک ایسڈ جیسے اہم غذائی عناصر کے لئے ان کے مرہونِ منت ہیں۔ ان کے بغیر ہم کئی طرح کی غذائیت ہی نہ لے سکتے۔انسان ہاضمے کی بیس انزائم پیدا کرتا ہے۔ جو کہ جانوروں کے معیار سے اچھا نمبر ہے۔ لیکن بیکٹیریا ایسے دس ہزار انزائم پیدا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بہت چھوٹے ہیں اور مختصر زندگی رکھتے ہیں۔ ایک اوسط بیکٹیریا کا وزن کرنسی نوٹ کا دس کھربواں حصہ ہے اور زندگی بیس منٹ ہے۔ لیکن ملکر گروہوں کی صورت میں یہ طاقتور ہیں۔
آپ جن جین کے ساتھ پیدا ہوئے تھے، انہی کے ساتھ تمام عمر رہنا ہے۔ اس کو خریدا نہیں جا سکتا یا تجارت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بیکٹیریا جین کا بھی تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور یہ اپنے مردہ پڑوسی کا ڈین اے بھی پکڑ لیتے ہیں۔ یہ افقی جین ٹرانسفر کا عمل ہے۔ اور یہ انہیں بہت ہی زبردست صلاحیت دیتا ہے کہ یہ اپنے جین میں حالات کے مطابق تبدیلی سے ایڈاپٹ ہو سکتے ہیں۔
بیکٹیریا کا ڈی این اے پروف ریڈنگ میں بہت اچھا نہیں۔ اس لئے یہ غلطی زیادہ کرتے ہیں اور میوٹیشن کی رفتار تیز ہوتی ہے اور یہ چیز انہیں جینیاتی پھرتی دیتی ہے۔
تبدیلی کی رفتار میں ان کے ساتھ ہمارا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ای کولائی بیکٹیریا ایک دن میں 72 مرتبہ افزائشِ نسل کر سکتا ہے۔ یعنی چند دن میں اتنی نسلیں جو پوری تاریخِ انسانی کی نسلوں کے برابر ہو۔ ایک بیکٹیریا، تھیوری میں، دو روز میں اتنے بیکٹیریا پیدا کر سکتا ہے جو تمام زمین کے ماس کے برابر ہوں۔ اور اگلے تین روز میں اتنے جن کا ماس قابلِ مشاہدہ کائنات کے برابر ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ لیکن ان کی تعداد ہمارے تصور سے زیادہ ہے۔ اگر ہم تمام جراثیم کو اکٹھا کر کے ایک ڈھیر بنائیں اور دوسری طرف تمام جانوروں کو اکٹھا کر کے دوسرا ڈھیر بنائیں تو جراثیم والا ڈھیر جانوروں کے ڈھیر سے 25 گنا بڑا ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جراثیم کا سیارہ ہے۔ ہم ان کے رحم و کرم پر ہیں۔ انہیں ہماری ضرورت نہیں جبکہ ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیران کن طور پر ہمارا جراثیم کے بارے میں علم بہت کم ہے کیونکہ ان کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو لیبارٹری میں نہیں بڑھتی جس وجہ سے ان کا مطالعہ مشکل کام ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہک اس وقت آپ جراثیم کی لگ بھگ 40,000 انواع کا گھر ہیں۔ 900 آپ کے نتھنوں میں، 800 آپ کے گالوں کے اندر، 1300 آپ کے مسوڑھوں پر ہیں۔ تقریباً 36000 آپ کے نظامِ انہضام میں ہیں۔ اور نئی دریافتوں کے ساتھ یہ نمبر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
ہر شخص میں یہ جراثیم مختلف ہیں۔ بوڑھے اور بچے میں مختلف ہیں۔ سوتے وقت الگ ہیں۔ اینٹی بائیوٹک کھا رہے ہیں تو ان کی تعداد میں فرق آ جائے گا۔ موٹے اور پتلے میں فرق ہیں۔ (پتلے لوگوں کی آنتوں میں اوسطاً زیادہ بیکٹیریا پائے جاتے ہیں)۔ اور یہ انواع کی تعداد ہے۔ جراثیم کی اپنی تعداد کھربوں میں ہے۔ جسم میں ان کا کل وزن تین پاونڈ کے قریب ہو گا۔ اتنا ہی جتنا آپ کے دماغ کا ہے۔
ہمارے جسم میں کل خلیے 30 ٹریلین ہیں (جن میں سے 85 فیصد خون کے سرخ خلیات ہیں جو مکمل طور پر خلیات نہیں) جبکہ ہم میں 30 سے 50 ٹریلین بیکٹیریا کے خلیے ہیں۔ ہمارا ایک خلیہ بیکٹیریا کے مقابلے میں بہت بڑا بھی ہیں اور بہت پیچیدہ بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش قسمتی سے، زیادہ تر بیکٹریا ہمیں کچھ نہیں کہتے۔ ہمارے اندر رہتے ہوئے اپنی زندگی خاموشی سے بسر کرتے رہتے ہیں۔ صرف ایک بہت ہی قلیل تعداد ہمیں بیمار کرتی ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شناخت کردہ بیکٹیریا میں سے صرف 1,415 ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ تعداد کُل کے مقابلے میں بہت کم ہے لیکن دوسری طرف بیماری کے 1415 طریقے ہمارے لئے بہت سے ہیں۔ اور یہ ننھی منی سی اشیا زمین پر ہونے والی ایک تہائی انسانی اموات کی ذمہ دار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف بیکٹیریا، بلکہ آپ میں پایا جانے والا فنگس، وائرس، پروٹسٹ (امیبا، پروٹوزوا وغیرہ) اور آرکیا بھی آپ سے خاص ہیں۔ آرکیا کو بہت عرصے تک بیکٹیریا سمجھا جاتا رہا لیکن یہ زندگی کی بالکل ہی الگ شاخ ہیں۔ بیکٹیریا کی طرح یہ بھی سادہ ہیں اور نیوکلئیس نہیں رکھتے۔ ہمارے اعتبار سے ان کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ کوئی ایسی معلوم بیماری نہیں جو ان کی وجہ سے ہوتی ہو۔ یہ صرف ہمیں میتھین کی شکل میں پیٹ میں کچھ گیس دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر یہ یاد رہے کہ تمام مائیکروب میں تاریخ اور جینیات کے اعتبار سے کچھ مشترک نہیں۔ صرف یہ کہ ان کا سائز چھوٹا ہے۔ ان کے لئے آپ ایک فرد نہیں بلکہ پوری دنیا ہیں۔ جس میں بہت ہی وسیع اور شاندار ایکوسسٹم آباد ہیں۔ اور آپ کے ساتھ یہ چل پھر سکتے ہیں۔ آپ کی کئی مفید عادات ہیں، مثلاً چھینکنا، کھانسنا، اور اپنے ہاتھ ہمیشہ ٹھیک طرح سے نہ دھونا ۔۔۔ ان کی مدد سے یہ آپ سے علاوہ بھی نت نئی دنیاوں میں سفر کرتے رہتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply