زبانی نکاح اور قانونی تقاضے۔۔سیّد مہدی بخاری

ہمارے مومنانہ معاشرے میں ایک اہم مسئلہ زبانی نکاح یا غیر رجسٹرڈ نکاح کا بھی ہے جس پر کبھی سیر حاصل گفتگو نہیں کی گئی۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی خواتین اس مسئلے کا کبھی تو جانتے بوجھتے بنام محبت اور کبھی دھوکے سے شکار ہوتی ہیں۔ مرد کبھی تو کسی گھریلو مجبوری میں مبتلا ہو کر اور کبھی ذاتی تسکین کی خاطر عورت کو ساری عمر کے لئے دربدر کر دیتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاتون نے مجھ سے رابطہ کیا جن کی یہی کہانی تھی۔

انہوں نے کسی مولانا صاحب سے زبانی نکاح کر لیا اور اب ایک بچہ بھی ہو چکا ہے۔ مولانا بچہ پیدا کر کے اپنی پہلی بیوی کے پاس لوٹ چکے ہیں۔ اب نہ بچے کا کوئی قانونی وارث ہے نہ عورت کی کوئی قانونی حیثیت۔

زیادہ پرانی بات بھی نہیں۔ ڈھائی تین سال قبل میں اپنے بیٹے کے برتھ سرٹیفکیٹ پر درج نام کے  ہجوں  کی تصحیح کی خاطر اپنے یونین کونسل آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ سیکرٹری یونین کونسل میرے دوست تھے۔ ان سے چائے پر گپ شپ چل رہی تھی۔ اسی دوران ایک عورت آفس میں داخل ہوئی۔ حال حلیے سے اپر مڈل کلاس کی لگ رہی تھی۔ وہ اندر تشریف لائیں اور بیٹھتے ہی بولیں ” آپ مجھ سے کتنے چکر لگوائیں گے ؟ میں چالیس ہزار رشوت دینے کو تیار ہوں آپ کو۔ آپ میرے نکاح کا اندراج کر کے مجھے اس اذیت سے نکالیں آپ کو اللہ کا واسطہ”۔ وہ یہی بولتی منت ترلوں پر اتر آئی اور آبدیدہ ہو گئی۔

یونین کونسل کے سیکرٹری صاحب میرے سامنے پھیکے پڑنے لگے اور بولے ” آپ شام 4 بجے آ جائیں۔ آج آپ کا کام ہو جائے گا”۔ وہ چاہتے تھے کہ رشوت کے 40 ہزار میرے سامنے نہ لیں۔ صورتحال کو مکمل بھانپ چکا تھا۔ میں ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ” حضور! کر دیں کام اگر جائز ہے تو۔ کچھ مناسب کر لیں تو بہتر ہو گا” ۔ بولے ” شاہ جی ان کا کیس یہ ہے کہ چار سال پہلے ایک شادی شدہ بندے سے نکاح کیا۔ نکاح نامہ پُر تو ہوا، مگر نکاح رجسٹرار اور نکاح خواں نے ان کے شوہر کی ملی بھگت سے نکاح نامے کو یونین کونسل میں آج تک رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا۔ اب ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو تب معلوم ہوا جب بچہ پیدا بھی ہو چکا تھا اور اس کی پیدائش کا اندراج کروانے کو ان کو سال بعد ہوش آئی، نیز یہ اب خلع لینا چاہتی ہیں۔ جب نکاح ہی رجسٹرڈ نہیں تو خلع کیسے فائل ہو۔” ۔

یہ سن کر وہ خاتون جو پہلے سے پریشان اور آبدیدہ تھیں وہ رو ہی پڑیں۔ سیکرٹری صاحب نے ملازم کو کہہ کر ان کے واسطے پانی منگوایا اور ان کو زبانی تسلی دینے لگے کہ آپ کے نکاح کا سالوں بعد لیٹ اندراج کرنا سسٹم میں بہت مشکل ہے۔ یہ سسٹم کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے۔ نادرا سے منسلک ہو چکا ہے۔ مجھے بطور سیکرٹری اپنی پروفائل سے لاگ ان ہو کر آپ کا نکاح رجسٹرڈ کرنا پڑے گا اور کل کو کوئی مسئلہ ہوا تو مجھ سے پوچھا جائے گا کہ میں نے کیوں اپنے اختیارات کا استعمال کر کے لیٹ نکاح نامہ رجسٹرڈ کیا۔ آپ اتنے چکر لگا چکیں مگر میری مجبوری نہیں سمجھ رہیں۔ یہ پیسے سارے عملے میں بانٹنے پڑیں گے تو ہی سب اس لیٹ اندراج پر چپ رہیں گے ورنہ کوئی بھی میری شکایت لگا دے تو میری نوکری تو گئی۔

یہ سن کر میں نے سیکرٹری صاحب کو کہا ” اس کا قانونی حل کیا ہے ؟ “۔ بولے ” ان کو عدالت سے اپنے حق میں ڈگری لینی ہو گی۔ اس ڈگری کی بنا پر اندراج اسی وقت ہو جائے گا”۔ ۔ خاتون روتے روتے بولیں ” کورٹ کچہری میں نہیں ذلیل ہو سکتی۔ میری چھوٹی بچی ہے۔ وکیلوں کی فیس بھروں کہ بچی پالوں۔ مشکل سے چالیس ہزار جمع کئے ہیں۔ آپ وہ لیں اور اللہ کا واسطہ میرا مسئلہ یہیں حل کر دیں”۔

معاملات طے پا گئے۔ خاتون کو کچھ تسلی ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ نکاح نامہ رجسٹرڈ ہو جائے گا پھر آپ آگے کیا کرنا چاہتی ہیں ؟ ۔ بولیں ” خلع لوں گی۔ اپنی بچی کے والد پر بچی کے اخراجات کا کیس کروں گی۔ بچی کو اس کی شناخت دلاوں گی کہ یہ تمہارے والد کا نام ہے۔ ابھی تو بچی کی پیدائش کا اندراج بھی نہیں ہو پا رہا کہ اس کا والد کون ہے۔ بچی کو اپنے باپ کی جائیداد کا جائز حصہ دار بناوں گی۔ اس کو تو اس کا حق ملنا چاہیے” ۔ میں یہ سن کر بولا ” اور وہ نکاح رجسٹرار جس نے نکاح نامے کو نہ رجسٹرڈ کروایا اور نکاح نامے پر آپ کے شوہر کو شادی شدہ کی بجائے کنوارہ لکھا۔ وہ نکاح خواں جس نے اس کی پہلی بیوی کا اجازت نامہ دیکھے بنا نکاح پڑھ دیا ان کا کیا ؟ وومن ایکٹ کے تحت آپ کو اصولی طور پر نکاح خواں، رجسٹرار اور اپنے شوہر پر ایف آئی آر  کر دینی چاہیے۔ جن کی وجہ سے آپ اس حال میں ہیں اور آپ کی بچی لاوارث بنی ہوئی ہے”۔

اس وقت تو وہ پُرعزم تھیں کہ وہ یہ سب قانونی راستے اختیار کریں گی۔ معلوم نہیں انہوں نے کچھ کیا یا نہیں۔ یہ دو کیس تو میری نطروں کے سامنے کے ہیں۔ ان گنت ایسے کیس ہیں جو اخباری خبر کی صورت کبھی کبھار سننے کو مل جاتے ہیں۔ اور اَن گنت ایسی خواتین ہیں جو دھوکے یا “محبت” کا شکار ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان کی شنوائی نہیں ہو پاتی۔ قانونی طریقہ کار پیچیدہ ہے اور ایسے کیسز میں اکیلی عورت کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ جگہ جگہ سسٹم کے اندر ہولز موجود ہیں مگر وہ رشوت سے بھرے جائیں تو ہی کام بن سکتا ہے۔

یوں نہیں کہ ہمیشہ قصوروار مرد ہوتا ہے۔ عورت کبھی کبھی سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ہنسی خوشی اپنے مستقبل کو خود تباہ کر لیتی ہے۔ اکثر اوقات عورت کو دھوکے میں ہی رکھا جاتا ہے۔ میں اتنی گزارش کروں گا کہ آپ کو پسند کی شادی کرنے کا حق ہے مگر اندھے پن کا شکار تو نہ ہوئیے۔ معاملات کو دیکھ پرکھ تو لیجیے۔ اگر انسان خود ہی نابینا ہو جائے تو بعد میں لاٹھی تلاش کرتا رہتا ہے جو اس مردانہ معاشرے میں ملنا ناممکنات میں سے ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نکاح کے شرعی احکامات تو یقیناً  چار گواہان ، لڑکی کا وارث اور لڑکے کا وکیل ہے مگر قانونی تقاضے بھی تو پورے کرنا ہیں۔ یہ دنیا کاغذات یا ریکارڈ پر چلتی ہے۔ یہ نظام کوئی دینی مدرسہ نہیں جو زبانی کلامی یا زبانی شرعی گواہی پر ہی چلے۔ مرد اگر چھوڑ جائے تو عورت کہاں جائے گی ؟۔ یہ محبت کا بھوت تو ڈنکے کی چوٹ پر کیے گئے نکاح میں سے بھی کچھ عرصہ بعد نکل جاتا ہے۔ محبت نامی کلیشے لفظ کے نام پر اندھا نہ بنیے اور دھوکا نہ کھایئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply