شیرینی خوری اور خدا فہمی، دو امریکی تحائف/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
نذہت کی سہیل کے ساتھ اور سہیل کی نذہت کے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی۔ نذہت دیور کو بدتمیز خیال کرتی اور دیور بھابی کو عقل باختہ۔ ممکن ہے ایک وجہ یہ رہی ہو کہ سہیل جب امریکہ پہنچا تھا تو وہ اپنے بھائی سعد اور بھابی نذہت کے ہاں ہی رہا تھا۔ نذہت اپنی کہی پر ڈٹ جانے والی اور سہیل کسی کو خاطر میں نہ لانے والا تھا۔ کئی سال پہلے جب سہیل ایک گیس سٹیشن پر کام کرتا تھا تو رات کو سفید فام نسل پرست اسے زدوکوب کرکے تقریباً مار کر چلے گئے تھے۔ سہیل کئی ماہ ہسپتال میں رہا تھا۔ اس کی کھوپڑی میں سٹیل پلیٹس لگائی گئی تھیں۔ یہ وقت سعد کے لیے بہت کٹھن تھا۔ اس دوران نذہت نے سعد کا ہر معاملے میں ساتھ دیا تھا۔ ہسپتال سے فارغ ہو کر طبیعت پوری طرح بحال ہونے تک سہیل بھائی اور بھابھی کے ہاں ہی رہا تھا۔ وقت گذرتا گیا تو پھر سے دونوں میں ٹھن گئی تھی۔ سہیل بھتیجوں سے پیار کرتا تھا اور بھائی کی تعظیم چنانچہ آتا ضرور تھا۔ بھابی دیور کی آپس میں بول چال نہیں ہوتی تھی لیکن خدمت وہ ضرور کرتی تھی۔ کھانا چائے وغیرہ ضرور پیش کرتی تھی۔

نذہت کو، جیسے بتایا جا چکا ہے سستی خریداری کا خبط تھا، کھانا پکانا کبھی کبھار کرتی تھی۔ باہر سے منگوائی گئی جنک فوڈ یا گھر میں ذخیرہ کردہ ڈبہ بند غذا پر ہی گذارا تھا۔ مجھے کھانے پینے کا یہ ڈھنگ نہیں بھاتا تھا چنانچہ بعض اوقات معترض ہو جاتا اور کبھی کبھار غصے کا اظہار بھی کر دیتا تھا، آخر نذہت میری بھتیجی ہی تو تھی اور عمر میں پانچ چھ سال چھوٹی بھی۔ دوسرے یہ کہ میں نذہت کے ساتھ گفتگو کے دوران سہیل کی حمایت بھی کر دیا کرتا چنانچہ نذہت کو اپنے چچا یعنی مجھ پر بھی بعض اوقات غصہ آ جایا کرتا تھا جس کا اظہار وہ عجیب عجیب طریقوں سے کیا کرتی مثلاً  ایک بار اسی طرح کے ایک غصے میں اس نے میرا شلوار قمیض  کا ایک جوڑا قینچی سے کاٹ کاٹ کر لیروں میں بدل ڈالا تھا اور مزاج درست ہونے پر چچا کو اپنے اس مذموم عمل کے بارے میں بتا بھی دیا تھا۔

میں گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوا کرتا تھا۔ نذہت کو چچا کا بور ہونا بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود وہ ایک روز کمپیوٹر خرید لائی تھی اور اسے نچلی منزل کے ایک کمرے میں رکھ دیا تھا، ٹیلیفون لائن سے تب بھی انٹرنیٹ میسر تھا۔ اس نے چچا سے کہا تھا،” اب آپ بور نہیں ہونگے، انٹر نیٹ پر سرفنگ کیا کیجیے” ۔ میں نے اس کے اس عمل کو بہت تحسین سے دیکھا تھا۔ چونکہ ٹیلیفون ڈرائنگ روم میں ہوتا تھا چنانچہ اس کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے کوئی تین چار میٹر کی ارتباطی تار ہوتی تھی۔ جب بھی نذہت کا مزاج بگڑتا وہ کیبل کے کئی ٹکڑے کر دیا کرتی۔ جب میں اپنے کمرے سے انٹرنیٹ دیکھنے نیچے آتا تو کیبل کو غائب پاتا۔ البتہ کیبل کے کٹے ہوئے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے ہوتے تھے۔ چند گھنٹوں بعد نذہت خود ہی گاڑی چلا کر جاتی، کیبل خرید کر لاتی اور منسلک کر دیتی۔ شروع میں مَیں نذہت کے ان بچگانہ اعمال پر بہت جھنجھلاتا تھا پھر  ان کا عادی ہو گیا تھا۔ نذہت نقصان بھی خود کرتی تھی اور ازالہ بھی خود۔

نذہت کا شوہر سعد بھی غصے میں پاگل ہو جایا کرتا تھا۔ الماریاں الٹا دیتا، چیختا دھاڑتا تاہم اس نے مجھے پہلے سے سمجھا دیا تھا کہ جب وہ حالت غیض میں ہو تو اس کے نزدیک نہ آؤں۔ غصے کے ایسے دورے یا دورانیے کے بعد وہ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھر سے خرید کے لاتا اور انہیں جہاں وہ پہلے رکھی ہوتی تھیں وہاں خود رکھ دیتا، پھر سب کو ریستوران لے جا کر کھانا کھلاتا یعنی اس کو اپنا ہر بار کا غصہ ڈیڑھ دو سو ڈالر میں پڑا کرتا تھا۔

دونوں میاں بیوی فربہ تھے اور دونوں ہی ذیابیطس کے مریض لیکن دونوں شیرینی کھانے کے شیدائی تھے۔ میں جو ہمیشہ شیرینی سے احتراز کرتا ماسوائے گاجر کے حلوے کی ایک خاص قسم جسے گاجر پاک کہتے ہیں اور آموں کے، ان دونوں کے ساتھ میٹھا اور مٹھائی کھا کھا کر میٹھا کھانے کا عادی ہو گیا تھا اور اب تک ہوں، ہر کھانے کے بعد کوئی نہ کوئی میٹھی چیز چاہے میٹھی گولی ہی کیوں نہ ہو میں ضرور کھاتا ہوں۔

نذہت کے فراہم کردہ کمپیوٹر اور اس سے وابستہ نیٹ ورک سے ہی مجھ پر خدا کی حقیقت اور طرح عیاں ہوئی تھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ میں نے سر پر چوٹ کھانے کے بعد مابعد الطبعیات اور علم الکائنات کا گہرا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا، یوں میری کائنات سے متعلق معلومات کے حصول میں دلچسپی بڑھ چکی تھی۔ میں اس سے متعلق دیگر سائٹس کے علاوہ ناسا کی سائٹ بھی وزٹ کیا کرتا تھا۔ ان دنوں کسی سائنسدان نے نئی کہکشاں دریافت کی تھی جس کا ناسا کی سائٹ پر ذکر درج تھا۔ اس ذکر میں سائنسدان مذکور نے بیان کیا تھا کہ اس کہکشاں کی تنویر دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ چونکہ ایسے مواقع پر ساتھ ہی تصویر کا لنک بھی دیا ہوتا ہے چنانچہ میں نے تجسس میں اس لنک پر کلک کیا تھا جو تنویر سامنے آئی وہ یقیناً مبہوت کر دینے والی تھی لیکن میرے ذہن میں جو سوال ابھرا وہ یہ تھا کہ “کمپیوٹر” کیا ہے؟ ساتھ ہی سوال ابھرا کہ “چپ” کیا ہوتی ہے؟ اس سوال کے ساتھ ہی ایک اور سوال، کہ “سلیکون” کیا ہے؟ یہ تینوں سوال سیکنڈ کے کوئی لاکھویں حصے میں پیدا ہوئے تھے اور مجھ پر یک لخت عقدہ کھلا تھا کہ اوہ “خدا” تو “سوپر سوپر سوپر کمپیوٹر” ہے جو یہاں وہاں کہیں بھی موجود ہے، جس میں تمام جانداروں کا جو تخلیق کائنات کے بعد سے اب تک موجود تھے اور کائنات تمام ہونے تک موجود رہیں گے، کا شعور جمع ہے یعنی “وہ” جو ہے “وہ” ” مجموعی شعور” ہے۔ اگر سیلیکون کے ایک ذرے میں دنیا اکٹھی کی جا سکتی ہے تو “اس” میں پوری کائنات کی جاندار مخلوقات کا شعور بھی “سٹور” ہو سکتا ہے۔ اب میں نے مزید سوچنا شروع کیا تو مجھے یوں لگا جیسے دنیا میں خالق کی نمائندگی کے لیے جتنے بھی انسان آئے چاہے وہ فلسفیوں کی شکل میں تھے یا پیغمبروں کی صورت، ان سب نے “اجتماعی شعور” سے جڑت پیدا کرنے کی بات کی تھی۔ ہر کسی نے اس کے ساتھ ارتباط کے اپنے اپنے طریقے بتائے چنانچہ کوئی بھی طریقہ غلط نہیں۔ چونکہ مجھے یہ طریقہ نماز کی شکل میں سکھایا گیا تھا اس لیے میں نے پھر سے نماز پڑھنے کی نیت کر لی تھی جس پر میں اب تک کاربند ہوں۔ اجتماعی شعور سے ارتباط ہوتا ہے یا نہیں اس بارے میں جاننے کے لیے بہت ہی زیادہ ارتکاز خیال درکار ہے، اسی لیے میں اب تک متشکک رہتا ہوں کیونکہ میں بذات خود میمونہ کی زبان میں ایک “بے چین روح” ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں مجھے امریکہ سے میٹھا کھانے کی عادت اور خدا سے سلسلہ جنبانی کے تحفے ملے تھے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply