کرنل جوزف اور جذباتی مغالطے ۔۔۔ابرار حیدر

گزشتہ دنوں کرنل جوزف کو امریکہ جانے دیے جانے پر فیس بک پر مختلف بیانیے دیکھنے کو ملے۔ کچھ احباب کہتے رہے  تھے کہ جوزف قاتل ہے تو اسے پاکستانی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے۔ پھر جب کرنل جوزف کو جانے سے روک دیا گیا تو اپنی اپنی سیاسی وابستگی کی توفیق کے مطابق عوام بیانیے دیتی رہی، کسی نے سول حکومت کی تعریف کی تو کوئی عسکری طاقت کے گن گا رہا تھا، اور دو دن بعد جب جانے دیا گیا تو یہی بیانیے اُلٹ ہو گئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کرنل جوزف کے بارے میں یہ سب مان رہے تھے کہ وہ ایک سفارتکار کی حیثیت سے آیا تھا، لیکن کوئی بھی اس کے سفارتی حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے بات نہیں کر رہا۔

میرے جیسے قانون سے نابلد لوگ ایسے بیانیے اپنائے رکھیں تو سمجھ آتا ہے لیکن کئی ایسے دوست جو خود کے صحافی اور دانشور ہونے کے دعوےدار ہیں، نے بھی یہی جذباتی روش اپنائے رکھی۔

گزارش صرف اتنی ہے کہ پاکستان ویانا کنونشن کا سگنیٹری ہے اور اس کے  سفارتی حقوق دینے کا پابند بھی ہے، براہ مہربانی ایک بار  ویانا کنونشن فار ڈپلومیٹک ریلیشنز ۱۹۶۱ کے آرٹیکل ۳۱ کا مطالعہ  اس لنک میں کیجیے۔

http://legal.un.org/ilc/texts/instruments/english/conventions/9_1_1961.pdf

اس کے مطابق سفارتکار تمام سول اور فوج داری مقدمات سے بری ہوتا ہے، مہمان ریاست اور اس کی عدالتیں سفیر پہ کوئی مقدمہ نہیں چلا سکتیں، زیادہ سے زیادہ وہ اسے” پرسونا نان گرانتا ” قراردے کر ملک سے نکل جانے کا کہہ  سکتی ہیں، دو مہینے پہلے روس اور یو کے نے ایک دوسرے کے تئیس سفیروں کو نکالا جب ایک روسی نے اپنے سابقہ روسی جاسوس، جو اب یو کے میں سیاسی پناہ لیے ہوئے تھا، اور اس کی بیٹی کو مبینہ زہر دیا۔ کچھ اسی طرح نوے کی دہائی میں پاکستان اور بھارت نے بھی ایک دوسرے کے سفیر نکالے تھے، لیکن اس سے پہلے کبھی بھی ایسی جذباتی باتیں کم از کم پاکستان سے باہر دیکھنے کو نہیں ملیں ،مثلا ً غلام قوموں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے یا اگر پاکستانی فوج میں دم خم ہوتا تو جوزف کو سزا ضرور ملتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عرض یہ ہے کہ دم خم ہو اور غلامی نہ بھی ہو تو سفیروں کو سزا ان کا اپنا ملک ہی دیتا ہے، مہمان ملک صرف گھر کا راستہ دکھاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply