ڈیجیٹل میڈیا کا نیا فیز ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

اخبارات آن لائن ہونے کے فائدے بھی ہوئے ہیں اور اکا دکا نقصان بھی سامنے ا ٓرہا ہے۔ پہلے عام طور پر ایک اخبار کا قاری برسوں تک بلکہ کبھی تو تاحیات وہی اخبار پڑھتا رہتا تھا۔ دفتر میں یا کسی کے گھر کوئی اور اخبار دیکھ لیا تو دیکھ لیا، ورنہ اس کا مبلغ علم اس کے پسندیدہ اخبار کے رپورٹروں کی خبروںاور کالم نگاروں کے کالموں تک محدود تھا۔ اب ہر اخبار آن لائن ہے، لوگ دفتر کے ڈیسک ٹاپ ، لیپ ٹاپ یا پھر اپنے سمارٹ فون کی مدد سے دیگر اخبارات بھی دیکھ لیتے ہیں۔ خاص طور پر کالم نگاروں کی ریڈرشپ پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ کالم میں دلچسپی رکھنے والے قارئین مختلف اخبارات کے ادارتی صفحات پر نظر ڈال کر اپنے پسندیدہ کالم پڑھ لیتے اور زیادہ کشش محسوس ہونے پر وہی کالم فیس بک،ٹوئٹر وغیرہ پر شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ دل چاہا تو کسی دوست کو وہ کالم فیس بک میسنجر یا ای میل کے ذریعے بھیج دیا۔ مختلف ویب سائٹس قارئین کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے مختلف معروف کالم نگاروں کے کالم اکٹھے کر اپنی سائٹ پر لگا لیتی ہیں۔ پڑھنے والوں کا وقت بچ جاتا ہے، ان کے فیورٹ کالم ایک ہی جگہ پردستیاب ہوجاتے ہیں۔اخبار آن لائن دستیاب ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ کچھ لوگوں نے گھر یا دکان وغیرہ پر لگاہوا اخبار بند کرا دیا اور مفت پڑھنے کے مزے لینے لگے۔اخبار فروشوں نے اسی وجہ سے تنگ آ کر یہ شرط منوائی ہے کہ اخبار گیارہ بجے دن سے پہلے اپ لوڈ نہ کئے جائیں ۔ اخبار کی ہارڈ کاپی کے فوائد کئی ہیں۔ موبائل یا لیپ ٹاپ پر کبھی پورا اخبار تیزی سے نہیں پڑھا جاسکتا، آنکھیں تھک جاتی ہیں اور لوگ چند ایک مخصوص چیزیں ہی پڑھ پاتے ہیں۔ اخبار کے صفحات نسبتاً تیزی سے دیکھے جا سکتے ہیں، ناشتہ کرتے ہوئے بھی ان سے لطف اٹھانا ممکن ہے، پھر گھر کے تمام لوگ نیٹ استعمال نہیں کرتے، اخبار گھر لگا ہو تو بچے بھی اپنی پسند کے صفحات پڑھ سکتے ہیں۔اس کے باوجود جیسے ہی کسی نے بچت کرنا ہو، سب سے پہلے اخبار کا(پانچ سو روپے ماہانہ کا )بل کم کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ والدین شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے بچے مطالعہ کرنے کے شائق نہیں اور تمام وقت موبائل فون پر صرف کر دیتے ہیں۔ بھلے لوگوانہیں پڑھنے کی عادت ڈالو گے تو وہ پڑھیں گے۔ اخبار تک تو لگواتے نہیں، ڈائجسٹ ، رسالوں کو یوں دیکھا جاتا ہے جیسے یہ شر کا منبع ہوں۔ پڑھنے کا ذوق بچوں میں خاک پیدا ہوگا؟
خیر بات آن لائن اخبار اور کالم پڑھنے کی ہو رہی تھی۔ ایک نقصان یہ ہوا کہ قارئین زیادہ ہوشیار اور سمجھدار ہوگئے۔ مختلف کالم وہ پڑھ لیتے ہیں اور ان کے لئے موازنہ کرنا آسان ہوگیا۔کسی کالم نگار نے اپنے کالم میں اپنے کسی معاصر کے حوالے سے فقرہ لکھا تو قارئین فوراً اندازہ لگا لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جیسے ہی کوئی کالم پوسٹ ہو، دو چار لوگ فوری ایسے آ جاتے ہیں جنہیں یہ علم ہوتا ہے کہ کالم نگار نے یہ فقرہ کیوں اور کس کے جواب میں لکھا۔ کمال برق رفتاری سے اپنے دعوے کے ثبوت میں وہ دوسرے کالم کا لنک پوسٹ کر دیتے ہیں کہ پڑھ کر خود اندازہ لگا لیں۔اسی طرح کالم میں اعدادوشمار دئیے گئے یا کسی واقعے کا حوالہ دیا گیا تو سمارٹ فون پر” گوگل انکل“ کی مدد سے چند لمحوں میں اصل حقیقت کھوج لی جاتی ہے۔پہلے کالم نگار جو جی میں آئے لکھ ڈالتے تھے، ان کی بلا سے کس نے اعداد وشمار یا واقعات کی تفصیل چیک
کرنی ہے؟ اب ایسے تساہل کے نتیجہ میں خوب بھد اڑتی ہے۔ہماری قسمت کہ ایسے زمانے میں کالم لکھ رہے ہیں، جب قاری ایسے ہوشیار ہوگئے کہ ”جگنو کو دن میں پرکھنے کی ضد کرنے لگے۔“
سوشل میڈیا کی بدولت کالم نگاروں کا پڑھنے والوں سے رشتہ بھی زیادہ مضبوط اور براہ راست نوعیت کا ہوگیا ہے۔ایک زمانے میں اداکار کہا کرتے تھے کہ ٹی وی اور فلم کی نسبت تھیٹر پر اداکاری کرنا مشکل ہے کہ ریسپانس فوری مل جاتا ہے۔اخبارنویسوں کے لئے بھی فیس بک اور ٹوئٹر ایک طرح سے تھیٹر ہیں ۔ صرف چند برس پہلے تک پڑھنے والے اپنے پسندیدہ لکھاریوں کو خط لکھا کرتے تھے، پھر ای میلز نے جگہ لے لی ۔اب فیس بک یا ٹوئٹر پر کالم یا رپورٹر اپنی خبر کا لنک پوسٹ کرے تو فوراً کمنٹس آنے لگتے ہیں۔ فیس بک پر یہ ایڈوانٹیج ہے کہ لکھنے والے زیادہ تفصیل سے لکھ سکتے ہیں۔یہ ڈیجیٹل میڈیا کا نیا فیز ہے، جس میں لکھنے والے اور پڑھنے والوں کے درمیان ایک نئی طرح کا رشتہ قائم ہوا ہے۔ ابھی چونکہ سب کچھ نیا نیا ہے،فیس بک استعمال کرنے والوں کو جو آزادی اور اختیار ملا ہے، ان کے لئے اسے سنبھالنا بھی آسان نہیں۔ادھر لکھنے والے بھی اپنی پرانی نخوت اور اتھارٹی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا نے کمنٹ کرنے والے کی نئی کھیپ تیار کرنے کے ساتھ لکھاریوں کی نئی فصل بھی اگا ڈالی ہے۔ بہت لوگ اردو ٹائپ کرنا سیکھ چکے ہیں، کچھ گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے اردو لکھ لیتے ہیں اور اب تو بول کر بھی گوگل کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ ہوجاتا ہے۔ان سوشل میڈیا بلاگرز میں سے کچھ نمایاں ہوجاتے ہیں، ہزاروں لوگ انہیں فالو کرنے لگتے ہیں اور اگرچہ مین سٹریم میڈیا میں انہیں کوئی نہیں جانتا، ان کے لکھے کی پرنٹ میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں، مگر سوشل میڈیا پر ان کا لکھا بلاک بسٹر قسم کا رش لیتا ہے۔ ان بلاگرز کو مین سٹریم میڈیا آہستہ آہستہ جگہ دے رہا ہے، کچھ وقت ابھی لگے گا۔ دراصل سوشل میڈیا پر لکھنے والوں کو آزادی حاصل ہے، جو جی چاہے لکھ ڈالیں، انہیں اندازہ ہی نہیں کہ مین سٹریم میڈیا میں کس حد تک پابندیاں اور نزاکتیں ہیں۔وہاں لکھنے والے کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے، ریڈ لائن کراس کر لے تو پورے میڈیا ہاﺅس کےلئے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ فیس بک پر بے شمار چیزیں لکھی جاتی ہیں، انہیں پڑھ کر لوگ گزر جاتے ہیں، ایسی کوئی چیز اگر اخبار چھاپ دے یا ٹی وی چلا دے تو ہنگامہ کھڑ اہوجائے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو فیس بکی بلاگرز نہیں سمجھ پاتے۔ اسی لئے بعض اوقات اخبار میں موقعہ ملے تو وہ تسلسل سے لکھ نہیں پاتے۔ ہمارے ایک دوست جو ویب سائٹس کے معروف بلاگر ہیں، انہیںاخبار میں کالم لکھنے کا موقعہ ملا تو چند ایک کالموں کے بعد ہی ہانپنے لگے۔ کالم بھجوانا بند کر دیا، پوچھا تو کہنے لگے کہ ویب سائٹ پر جو مرضی لکھ کر بھیج دیں، شائع ہوجاتا ہے، اخبار کے لئے کالم بنانے سے پہلے اس پر خاصی تراش خراش کرنا پڑتی ہے، ہر بار اتنی محنت کون کرے۔
ہمارے بعض دوستوں کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم ہوتی جائے گی، مہنگا ہوتا کاغذ اور دیگر اخراجات اخبارات کو ویب تک محدود کر دیں گے۔ میرے خیال میں ابھی یہ فیز جلدی نہیں آئے گا۔ سوشل میڈیا کبھی مین سٹریم میڈیا کی جگہ نہیں لے سکے گا۔ دونوں کی الگ الگ جگہ اور مقام ہے۔اعتبار اور اعتماد پرنٹ میڈیا کو حاصل ہے، لوگوں نے خبرکنفرم کرنے کی خاطر اخبارات کی ویب سائٹس ہی چیک کرنی ہے۔ اس لئے اخبار کو تو خطرہ نہیں، مگر سوشل میڈیا کو سلیقے کے ساتھ مین سٹریم میڈیا کے قریب لانا چاہیے۔ بلاگرز کے لئے جگہ مزید بنائی جائے، ِمنی بلاگرز(مختصر لکھنے والے) اور ون لائنر لکھنے والوں کے لئے بھی گنجائش بنانی ہوگی تاکہ
ٹوئٹر کے لکھاری بھی اکاموڈیٹ ہوسکیں۔ اخبارات کی ویب سائٹس کو مزید انٹرایکٹو اور فعال بنانا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں امریکہ اور یورپ کی طرح ہمارے ہاں بھی سنڈیکیٹ کالم اور بلاگ شروع ہوجائیں گے۔ایسا ہوا تو سوشل میڈیا کے بلاگرز کے لئے بھی مالی یافت کا راستہ کھلے گا۔ میڈیا میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں، ضرورت یہ ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا واچ ادارے بھی بنائے جائیں اور مختلف پلیٹ فارم کو ایک دوسرے کے ساتھ مکس کرنے کا کام سلیقے اور حکمت سے کیا جائے تاکہ یہ تجربہ باﺅنس بیک نہ ہوسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply