دو قومی نظریہ ، میڈیا اور ہم

دو قومی نظریہ کیا تھا ۔۔۔میرے خیال میں سب ہی اس کے بارے میں جانتے ہوں گے اس لیے اس کی تفصیل میں جانےکی ضرورت نہیں ہے مختصر الفاظ میں دو قومی نظریہ کو کچھ ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔۔۔”برصغیر میں دو قومیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان آباد ہیں جن کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن قطعی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دونوں ایک جگہ اکٹھی نہیں رہ سکتیں”۔اسی نظریہ کو بنیاد بنا کے پاکستان حاصل کیا گیا مگر پاکستان بننے کے بعد شاید ہم نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم نے دو قومی نظریے کے ساتھ اب کیا کرنا ہے ، اس لیے ہم نے اس کو صرف درسی کتابوں کی زینت بنا دیا ،اگر پاکستان بننے کے بعد بھی اس کوعملی زندگی کا حصہ بنایا گیا ہوتا تو آج پاکستان میں ایک مسلمان یا پاکستانی قوم آباد ہوتی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت قوم مسلمانوں نے پاکستان تو حاصل کر لیا مگر پاکستان بننےکے بعد مسلمان بھی تقسیم ہوگئے کوئی دیو بندی ، کوئی بریلوی ، کوئی سنی ، کوئی وہابی ، کوئی اہل ِ تشیع اور کوئی اہلِ حدیث ہو گیا ۔
بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ پاکستان میں پاکستانی بھی بہت کم ہی ہیں یہاں تو سندھی ، بلوچی ، پنجابی ، پٹھان ، مہاجر ، سرائیکی ، کوہستانی ، پوٹھوہاری اور پتا نہیں کون کون سی قومیں آباد ہیں ۔دو قومی نظریے کی بنیاد تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کا فرق تھا مگر آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور معاشرے کے رسم ورواج کا بغور مطالعہ کریں تو ہم پہ یہ تلخ حقیقت آشکار ہو گی کہ ہمارے اکثر رسم و رواج تو ہندو تہذیب سے لیے گئے ہیں جن میں تھوڑی بہت کمی بیشی کرکے اور نام وغیرہ تبدیل کر کے بڑے فخر سے ہم منا رہے ہوتے ہیں مثال کے لیے کہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے گھر یا گلی ،محلے میں ہونے والی کسی خوشی یا غمی کے موقع پہ ہونے والے رسم و رواج کا بغور مطالعہ کر لیں اور جو تھوڑا بہت فرق ہے اس کو میڈیا والے اور کیبل والے مٹانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں ۔
بھارتی چینل جو کچھ دیکھا رہے ہیں اس پہ ہم اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تواپنا کلچرپیش کر رہے ہوتے ہیں مگر آج کل کسی بھی پاکستانی ٹی وی چینل(پی ٹی وی کے علاوہ ) کو دیکھ لیں کہ یہ کیسے انڈین کلچر ، گانے ، ڈرامے اور فلمیں بڑے فخر سے پیش کر رہے ہیں اور افسوس تو اس وقت اور زیادہ ہوتا ہےجب نیوز چینل پہ بھی بے ہودہ ڈانس اور سین چلائے جاتے ہیں اب تو یہی لگتا ہے کہ پاکستانی خبریں بھی شاید انڈین فنکاروں کی خبروں کے بغیر ادھوری ہیں ،چاہے اس کے لیے ہفتہ دو ہفتہ پرانی خبر ہی کیوں نہ چلانی پڑے ۔اب بات کریں اگر کیبل کی تو ہر کیبل آپریٹر پانچ چھ سی ڈی چینل تو ضرور چلارہا ہے اور اب تو باقاعدہ ان کے مونو گرام بھی لگا لیے ہیں مثال کے طور پہ ہمارے علاقہ میں جو کیبل آپریٹر ہیں ان کے دو چینل انڈین فلموں کے ، ایک انگلش فلم کا ، ایک فحش گوسٹیج ڈراموں کا ، دو گانوں کے چینل ہیں یہ میں صرف سی ڈی چینل کی بات کر رہا ہوں ۔اس کے علاوہ سنا تھا( خبر پکی نہیں) کہ پیمرا نے انڈین چینل پہ پابندی لگا دی ہے مگر وہ چینل چل رہے ہیں صر ف فرق یہ پڑا کہ ان کے مونو گرام کے اوپر کیبل والوں نے اپنے مونو گرام لگا دیئے ہیں ۔ انڈین و پاکستانی میڈیا اور کیبل آپریٹرز مل کے دو قومی نظریے کا جنارہ نکالنے میں لگے ہوئے ہیں اس کا اثر اگلے چند سالوں میں بہت واضح ہو گا ۔
ابھی بھی اگر آپ اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو پتا نہیں کتنے لوگ ہوں گے جو ہندوؤں کے مذہبی گیت بڑی خوشی کے ساتھ گنگنا رہے ہوتے ہیں ،اس بات سے بے خبر کہ جو وہ گا رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے ۔ایک واقعہ ذہین میں آرہا ہے ، الخیر یونیورسٹی کے ہیڈ آفس میں ہمارے ساتھ ایک سی ڈی اے سے ریٹائرڈ سپریٹنڈنٹ ہوتے تھے وہ اکثر ایک واقعہ سنا یا کرتے تھے کہ ان کے ایک دوست ایک دفعہ کسی نکاح کی تقریب میں گئے، ان کا پوتا جو چھ سات سال کا ہوگا ،ہمراہ تھا ،جب نکاح ہو چکا ، کھانا کھاچکے تو وہ لوگ واپس آنے لگے تو بچہ ضد کرنے لگا کہ اس نے شادی دیکھ کر جانا ہے، انہوں نے کہا کہ بیٹا شادی ہو چکی ہے ،اس پر بچے کا جواب تھا کہ ۔۔۔”بابا ابھی انہوں نے ایک دوسرے کو ہار بھی نہیں پہنائے اور پھیرے بھی نہیں لیے پھر کیسے شادی ہوگئی ہے”۔آپ نے بھی ایسے کئی واقعات دیکھے یا سنے ہوں گے تو شاید آپ نے بھی سوچا ہو کہ کیسے انڈین میڈیا بلکہ اب تو پاکستانی میڈیا بھی معصوم ذہنوں میں ہندوانہ رسم و رواج کا بیچ بو رہا ہے مگر ان سب کا ذمہ دار اکیلا میڈیا نہیں بلکہ والدین بھی ہیں ،آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ اگر کسی کا بچہ یا بچی ڈانس کرے یا کسی کی نقل اتار رہا ہو تو والدین بہت خوش ہوتے ہیں ، یا اگر بچہ مستی کر رہا ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ ٹی وی لگا لو آرام سے ٹی وی دیکھو ، جس سےبچہ سمجھتا ہے کہ ٹی وی کوئی اچھی چیز ہے اس لیے یہاں جو دیکھتا ہے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔
آج معاشرے میں جتنی بھی برائیاں ہیں ان میں سے زیادہ تر کی وجہ ہماری مذہب سے دوری اور مسلم کلچر (ہندوؤں کے کلچر کی ملاوٹ سے پاک) سے دوری کا نتیجہ ہے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے اکٹھے ہو کر دو قومی نظریے کو بچائیں کیونکہ ہندوؤں کا مقصد نہ صرف پاکستان کو برباد کرنا بلکہ یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ ہندوؤں اور پاکستان کے مسلمانوں کی تہذیب میں کوئی فرق نہیں اس کے لیے وہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے لانگ ٹرم پالیسی پہ عمل کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ پاکستانیوں میں اپنے رسم و رواج کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں ان کاکوئی بھی ڈرامہ دیکھ لیں کس طرح وہ اپنے رسموں رواج کو تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔حکومت کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ بے شک وہ انڈین میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتی مگر یہاں کے میڈیا اور کیبل آپریٹرز کے لیے تو ضابطہ اخلاق بنایا جا سکتا ہے اورغیر اخلاقی ، ہندو رسم و رواج کے ترجمان پروگرامز اور غیر قانونی طور پہ چلنے والے چینلز کو تو بند کیا جا سکتا ہے۔ میری والدین سے بھی گزارش ہے کہ اگر ان کا کھانا انڈین ڈرامے اور فلمیں دیکھے بغیر ہضم نہیں ہوتا تو خدارا اپنے بچوں کو تو اس سے دور رکھیں کیوں کہ بچے تو جو دیکھیں گے وہی سیکھیں گے، یاد رکھیں اگر آج دو قومی نظریہ کے دفاع کے لیے کچھ نہ کیا گیا اور یہ صرف درسی کتابوں تک محدود رہا تو آنے والی نسلیں ہمارے آباؤاجداد کا مذاق اڑایا کریں گی کہ وہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کون سی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے فرق کی بات کرتے تھے ۔
2008میں لکھی ایک تحریر!

Facebook Comments

محمدیاسرعلی
اصل نام یاسرمحمود ہے تعارف کے لیے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ایک مزدور ہوں اور مزدوروں کی کون سنتا ہے اس لیے جو لکھتا ہوں اس کو محمد یاسر علی کی خود کلامی کا نام دے دیتا ہوں اور اس کو یاسرنامہ کہہ کے خوش ہو لیتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply