مُنّا بھائی ایف سی پی ایس (قسط6)۔۔۔۔ڈاکٹر مدیحہ الیاس

دن اسی طرح گزرتے رہے کہ منا بھائی کا ایمرجنسی ڈے آ گیا۔ انھیں بارہ گھنٹے نائٹ ایمرجنسی کرنی تھی, لہذا مارننگ ٹائم انھوں نے آف لے لیا۔
شام 6 بجے سرکٹ کے ساتھ ایمرجنسی پہنچے تو دس بیڈوں کے وارڈ میں پچاس مریض فٹ ہوئے دیکھ کے دروازے پر ہی بریک لگا لی۔۔ پریشانی کے عالم میں سرکٹ سے پوچھا ” اتنا پیشنٹ کہاں سے سپلائی ہوتا ہے رے ”
“بھائی۔۔ چائنہ کا مال لگتا ہے۔۔ تبھی ہر دوسرے دن خراب ہو کے ادھر پڑا ہوتا ہے۔۔۔” سرکٹ نے وضاحت کی۔۔ ”
آپ اوور لیں بھائی ۔۔” سرکٹ نے ہمت بندھاتے ہوئے بھائی کو بولا۔۔
منا بھائی پہلے بیڈ پر گئے, gastro کے مریض کو novidat اور flagyl چل رہی تھی۔۔۔ منا بھائی نے اس سے مسئلہ پوچھا تو اس نے پیٹ خرابی کی شکایت کی۔۔
“کتنی قسطیں ہو ئیں ۔۔ ” منا بھائی نے پوچھا
اس نے کہا “تین ”
“تین قسطوں پہ ہی تو ہسپتال آ گیا۔۔۔ درجن بھر کا انتظار تو کرتا۔۔۔ چل شاباش۔۔ گھر جا۔۔ ٹیم کی بوتل میں تھوڑا نمک ڈال کے پی۔۔ ایک دم فٹ ہو جائے گا۔۔۔” منا بھائی نے اسی پریسکرپشن پہ سارے گیسٹرو کے مریض ڈسچارج کروائے جس سے ایمرجنسی کا بوجھ کافی ہلکا ہو گیا تھا۔۔۔
اب ہر بیڈ پر پانچ کی بجا ئے دو مریض تھے۔ ٹوٹل بیس پیشنٹ۔ چار مریضوں کو الٹرا ساؤنڈ کے لیے بھیج دیا, تین کو ایکس رے کیلئے, تین مریضوں کی پرچی پہ سرجیکل ایمرجنسی لکھ کر دوسری ایمرجنسی بھیج دیا۔ اب ہر بیڈ پہ ایک ایک مریض بچا تھا۔ اور یہ منظر منا بھائی کے دل پر پڑنے والے پریشر اوورلوڈ کو کم کرنے میں Lasix کا کردار ادا کر رہا تھا۔
چھ میں سے ایک ایچ او کو منا بھائی نے CMO کے پاس پیشنٹ سکرین کرنے کیلئے بھیج دیا اور ھدایت کی کہ کم از کم ایک گھنٹے تک مریضوں کی آمدورفت روک کر رکھے۔
اب ایمرجنسی میں دو ہارٹ فیلیئر والے مریض تھے, انکی management انھوں نے کال ٹو سی سی یو لکھ کے معلوم کی, دمہ والے مریضوں کیلئے کال ٹو پلمونولوجی لکھوائی, فالج والے مریضوں کا پلان نیورولاجی سے لکھوایا۔ اور ایچ اوز کو کام لگا کے خود سکون سے بیٹھ کے فانٹا کی چسکیاں بھرنا شروع ہو گئے ۔
پوری ایمرجنسی میں منا بھائی نے بس یہ make sure کیا کہ سب کالز وقت پہ اٹینڈ ہو جائیں۔۔ اور ایسا نہ ہونے پہ انھوں نے DMS کو شکایت لگانے سے بھی دریغ نہ کیا۔۔ سرکٹ کو بھیج کے کال والے ڈاکٹر کو بلانا انھوں نے Plan B میں رکھا تھا ۔ آج باقی سب وارڈز کا ایمرجنسی اور منا بھائی کا chill day چل رہا تھا۔
اتنے میں ایک پوائزننگ والی مریضہ آئی۔۔
جس کی ماں رو رو کے ہسٹری دے رہی تھی کہ “اس نے چوہے مار دوا کھالی ہے اور بیہوش ہو گئی ہے۔۔ ڈاکٹر صاحب میری بیٹی کو بچا لیں۔۔ ماہم اٹھو۔۔ ماہم۔۔ آنکھیں کھو لو۔۔ ڈاکٹر صاحب یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی۔۔ ڈاکٹر صاحب کچھ کریں نا۔۔ جلدی کریں۔۔” منا بھائی نے اس خاتون کو باہر بھیجا اور disease کی psychophysiology پہ غور کرنے لگے۔۔۔ کڑی سے کڑی ملائی تو معلوم ہوا کہ چوہے تو ہم سب کے پیٹ میں ہوتے ہیں , جو بھوک لگنے پہ ایکٹیویٹ ہو کے بنا میوزک کے ناچنے لگتے ہیں ۔۔ لڑکی نے چوہے مار دوائی کھائی ہے۔۔۔ اب مین مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیٹ سے چوہوں کی ڈیڈ بوڈیز کیسے نکالی جائیں۔۔ بوڈیز اندر ہی رہی تو بدبو چھوڑ دیں گی۔۔ اور ان کا زہر جسم میں پھیلنے سے پیشنٹ کی موت واقع ہو سکتی ہے۔۔۔ لہذا منا بھائی نے مریضہ کو پوری بوتل Duphalac کی پلا دی۔۔ اور اس کے loose motion کی قسطیں یعنی episodes کیلکولیٹ کرنا شروع ہو گئے۔ اور ایچ اوز کو یہ پڑھایا,
Greater episodes, greater dead bodies out۔۔۔
جب اس کے آٹھ چکر بیت الخلا کے پورے ہوئے اور مزید کی ہمت نہ رہی تو مجبورا ًبولی, ڈاکٹر صاحب, میں ٹھیک ہوں۔۔ میری توبہ آئندہ کبھی یہ حرکت نہیں کروں گی۔ اس پیشنٹ کے ڈسچارج ہوتے ہی منا بھائی نے سب ایچ اوز کیلئے پیزا اور بوتلیں منگوائیں, اور سب کو ہاف ہاف آور یہ کہہ کر بریک دی کہ جاؤا کے اپنی اپنی بیٹریاں چارج کر کے آؤ۔۔۔
رات کے بارہ بج چکے تھے, سب ایچ اوز کی بیٹریاں یعنی کام کرنے کی صلاحیت واقع ہی ڈاون ہو چکی تھی جو ان کے چہروں پہ جلتی بجھتی سرخ بتی سے عیاں تھی۔۔۔۔۔
(جاری ہے )

Advertisements
julia rana solicitors

مُنّا بھائی ایف سی پی ایس (قسط5)۔۔۔۔ڈاکٹر مدیحہ الیاس

Facebook Comments

ڈاکٹر مدیحہ الیاس
الفاظ کے قیمتی موتیوں سے بنے گہنوں کی نمائش میں پر ستائش جوہرشناس نگاہوں کو خوش آمدید .... ?

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply