اخلاقی پستی کا شکار ہمارا معاشرہ۔۔ممتاز علی بخاری

پاکستان وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر معرضِ  وجود میں آیا۔ افسوس کی یہ بات ہے کہ اسلام کا نام لے کر اور اس نعرے پر ہم نے الگ ملک تو حاصل کر لیا لیکن ہم نہ ملک میں اسلام نافذ کرنے میں آج تک سنجیدہ ہوئے ہیں ، نہ اپنی زندگی میں۔۔۔ آئے روز یہاں کوئی نہ کوئی ایسا ہوّا اٹھا رہتا ہے جو ہماری اخلاقیات کی پستیوں کو نہاں کرتا ہے۔جو ہماری دین سے دوری کو آشکار کرتا ہے۔
فحاشی اور عریانی بجائے کم ہونے کے دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور بے حیائی کا طوفان جدید ٹیکنالوجی نے مزید بڑھا دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے جہاں بے زبان عوام کو زبان دی، وہیں  سستی شہرت اور عامیانہ پن کی چھچھوری حرکتوں سے مشہور ہونے کے کئی راستے وا ء کیے۔۔۔ اسی کا شکارایک ماڈل قندیل بلوچ بھی ہوئی۔ میڈیا میں اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اسے کوئی چھوٹا موٹاکردار مل جائے ۔ جب اسے میڈیا میں جگہ نہیں ملی تو اس نے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے انتہائی گھٹیا قسم کی حرکتیں شروع کر دیں ۔ کبھی کسی پر کوئی الزام لگا دیا تو کبھی کسی کے حوالے سے کوئی بیہودہ بیان جاری کر دیا۔ اُس کی کہانی کا انتہائی بُرا انجام ہوا۔ اس کے بھائی نے اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ جو میڈیا اس کو ایک چھوٹا سا رول نہیں دے پایا تھا اس نے قندیل کی زندگی پر ڈرامہ بھی بنا دیا۔

خیر یہ تو پرانی بات تھی۔امسال جو رابی پیرزادہ کی نازیبا وڈیوز وائرل ہوئی ہیں انہوں نے ہمارے معاشرے کی ذہنی استعداد اور اخلاقی پستی کو نہایت بُرے طریقے سے ایکسپوز کیا ہے۔ قریباً ہر دوسرے تیسرے بندے کے پاس وہ وڈیوز موجود تھیں۔ بہت سوں کے پاس تو اب بھی موجود ہوں گی۔ قطع نظر اس کےکہ رابی پیرزادہ کا وہ عمل کیا تھا، کیسا تھا۔۔۔وہ اس کا انفرادی فعل تھا۔ اس گناہ  میں وہ ملوث تھی یا جس کے لیے وڈیوز بنائی گئی وہ شامل تھے۔ ذرا سوچیے، جس انسان نے وہ وڈیوز لیک کیں ۔ جس جس تک پہنچی، جس جس نے دیکھی ،سب کو گناہ ملا اور جتنا ہر شخص کو گناہ ملا اتنا اس شخص کے کھاتے میں بھی گیا جس نے ان کو لیک کیا۔ گناہ ہر کسی سے ہوتا ہے لیکن کسی کے چھپ کر کیے گئے گناہ کی یوں سر ِ عام تشہیر کرنا اور اس طرح پبلک کرنا اور پھر وہ وڈیوز وغیرہ دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا اور ان کو ڈسکس کرنا، کہاں کی انسانیت ہے۔۔۔ اس جرم میں رابی سے بڑے مجرم ہم سب ہیں۔

کچھ عرصہ سے ایک نئی ایپ آئی ہے ٹک ٹاک کے نام سے۔اس سے تو جو طوفان بدتمیزی اٹھا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ ہر چھوٹا بڑا، نوجوان بوڑھا، لڑکی اور عورت۔۔۔۔ ہر کوئی اس کے نشے میں مبتلا ہے۔

ٹک ٹاک نے بے حیائی کے فروغ میں بہت گھناونا کردار ادا کیا ہے۔ ٹک ٹاک سے مشہور ہونے والی دو لڑکیوں کی وڈیوز جو انہوں نے مختلف سیاست دانوں اور وزراء  کے ساتھ بنائی ہوئی ہیں کچھ عرصے سے مسلسل وائرل ہو رہی ہیں۔۔ہر دوسرے دن ان کی کسی نا  کسی کے ساتھ وڈیو  منظرِ عام پر  آ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیراعظم کو نوٹس لینا چاہیے جن جن وزراء  کی اخلاقیات کا یہ حال ہے ان کو گھر بھیج دینا چاہیے۔ اور سوشل میڈیا پر ایسے سستی شہرت کے حامل لوگوں سے نمٹنے کا کوئی سسٹم متعارف ہونا چاہیے اور تیسری بات جو ہم عوام سے متعلق ہے وہ یہ کہ کبھی بھی کسی ایسی مہم کا حصہ نہ بنیں جو کسی کی کردارکشی پر مبنی ہو یا اس کی تذلیل کا باعث ہو چاہے وہ آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ مہذب اوراعلیٰ اخلاق کے حامل لوگ دشمنی کرتے ہوئے بھی  اپنا معیار رکھتے ہیں۔ دشمنی میں آپ اپنے اخلاق تو نہ گنوائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply