نمل کا نیا لیڈرشپ چارج ۔۔۔رابعہ احسن

اتنے عرصے سے لکھنے کی کوشش کررہی ہوں پر پتہ نہیں کیا بات ہے دن رات لکھنے پہ اکسانے والا دل بس ملامت کرتا رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔ ایڈیٹرصاحب کہتے ہیں کہ میں ان کیلئے تکلیف کا باعث ہوں جوریگولر نہیں لکھ رہی پہلے کی طرح۔۔ پتہ نہیں یہ ستائش ہے کہ آزمائش ۔۔ مجھ سے واقعی لکھا نہیں جارہا ۔ بقول شاعر !

اب کوئی معتبر آکر روئے۔۔

پچھلے سال میں نے اسے ایک چھوٹا سا پودا بولا تھاجس کا بیج تین سال پہلے لگایا گیا تھا۔ اس بیج پہ اک شخص کا انتہائی خلوص شامل تھا اتنا کہ امیدسے پہلے ہی ایک سایہ دار پودا ہمارے سامنے موجودتھا۔ ایک ایسا شخص جس نے اتنے پیار سے ہم سب کو اکٹھاکیا کہ ہم نے سارا ٹائم ہنستے کھیلتے گزارا۔کبھی پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم اتنا مشکل کام اتنی آسانی سے کر رہے ہیں ۔ جہاں ہر کوئی کسی سے بات بھی محض اپنے ذاتی مفاد کیلئے کرتا ہے ایسےماحول میں ایک فلاحی پراجیکٹ کو بغیر کسی ذاتی یا  اجتماعی مفاد کے چلانا کتنا مشکل تھا اس کااندازہ تک نہیں ہونے دیا ہمیں۔

تین مہینے پاکستان گزار کے آئی تھی جب پتہ چلا کہ عمران خان کے تعلیمی پراجیکٹ کا فنڈ ریزنگ ایونٹ ہے ۔ نام ہی ایسا تھا کہ دل خود بہ خود کھنچتا تھااور پراجیکٹ بھی تعلیم کا وہ بھی میانوالی میں ۔اپنی تمام تر سستی کو بالائے طاق رکھ کے جانا پڑا۔ان دنوں لکھنے کا شوق بھی شدید تھا اور نمل کیلئےتو دل کی گہرائی سے لکھا ۔ اس سے پہلے علی عمران بھائی سے میری ملاقات شاید کسی انتہائی بورنگ ایونٹ پہ ہوچکی تھی جہاں انھوں نے بیٹھتےہی مجھے بولا تھا کہ آپ اتنے غصے میں کیوں بیٹھی ہوئی ہیں مجھے آپ سے ڈر لگ رہا تھا ۔ ساتھ امبرین اختر بھی تھی۔ ہم کافی دیر بیٹھ کے بلاوجہ کی  باتوں پہ ہنستے رہے اور یہ علی بھائی کا ہی کمال تھا کہ اتنی بور جگہ پہ ہمیں فل والیم میں ہنسنے پرمجبور کردیا تھا۔ وہیں پہ نمل کے بارے میں بات ہوئی اور مجھے اپنے آرٹیکل کے لئے جو جو تفصیلات چاہیے تھیں میں نے علی بھائی سے لے لیں وہ بھی ہنسی ہنسی میں ۔ 

نمل کے دوسرے ایونٹ کو اٹینڈ کرتے ہوئے میں نےسوچ لیا تھا کہ میں اس پراجیکٹ کو ضرور جوائن کروں گی ۔ عمران خان کے پراجیکٹ میں آنے سےصاف مراد تھی کہ اس میں بے ایمانی کا کوئی ذرا سابھی شبہ نہیں ۔ 

پھر علی بھائی نے میسیج کیا کہ مجھے آپ سےکچھ پوچھنا ہے ۔ آپ نمل جوائن کریں گی۔میں نےصرف اتنا کہا تھا کہ اگر ہر چیز ٹرانسپیرنٹ ہوگی تومیں کبھی نہیں چھوڑوں گی۔ علی بھائی نے کہا  میں آپ کو سٹیٹمنٹس ای میل کر دوں گا ۔ 

شاعر کہتا ہے کہ 

میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہِ نسب 

بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے 

میں نے کہا ای میل کی ضرورت نہیں رہی ۔ پھر اسکے بعد پتہ ہی نہیں چلا کہ میں نے نمل کو نیا نیاجوائن کیا تھا یا میں اس میں موجود اکثر لوگوں کوجانتی ہی نہیں تھی ۔ ہمارے ٹیم ہیڈ نے ہم سب کوفرداً فرداً اس طرح آگے رکھا اور ذرا ذرا سی بات پہہم سے مشورہ کیا کہ ہر کوئی ٹیم کا اہم حصہ  بنتا چلاگیا ۔ 

بیچ میں یہ بتانا بھول ہی گئی کہ میں نے نمل پہ آرٹیکل لکھا جس پہ علی بھائی اتنے خوش تھے کہ میرا تعارف بس اسی آرٹیکل سے شروع ہوتاتھا۔۔ اسکے بعد بھی کئی آرٹیکل لکھے مگر وہ جو نمل سےاول اول کی محبت تھی اس کی سرشاری اور  ہی تھی ۔

نمل سے محبت آج بھی شدید نوعیت کی ہے۔پچھلے سال میں نے اسے پودا لکھا تھا پر اس سال مجھے یہ اپنے بچوں جیسا لگنا شروع ہوگیا ہے ۔کچھ احباب کو شکایت بھی رہی کہ تم اس پراجیکٹ کو کچھ زیادہ ہی سیریس لیتی ہو۔ میں اسی پہ خوش تھی کہ چلو کسی کو تو سیریس لیا۔ کسی کو میرےلکھے ہوئے مواد پہ آرٹیکل لکھنا تھا پچھلے سال ۔میں نے کہا کہ میرے فیس بک پروفائل پہ ساری شاعری کالمز، افسانے سب موجود ہیں ۔ اس نےمیرے پروفائل کا تفصیلی چکر لگایا اور مجھے کہا کہ آپ کے پروفائل پہ سوائے نمل کے کچھ بھی نہیں مل رہا مجھے۔ 

ان دنوں نمل کا تیسرا سالانہ فنڈریزر ہونے والا تھا اورہم سب پورے زور و  شور سے کام کر رہے تھے۔پبلک کاموں میں شور بہت ہوتا ہے۔ کبھی کسی کوکوئی شکایت تو کبھی کسی کو۔ کبھی کمیونٹی کوہمارے فنڈریزر کی ٹرانپیرنسی پہ شبہ تو کبھی عمران خان کے مخالفین کے بے بنیاد پروپیگنڈے۔ایسے ٹائم میں یقیناً ہم سب کو غصہ آجاتا تھا اورٹیم کے کئی ممبرز تو سیدھی سیدھی بحث کرکےجواب دینا چاہتے تھے پر اتنے مشتعل مواقع پہ ایک بندہ ہمیں بس یہ کہہ دیتا تھا کہ بحث نہیں کرنی ،لڑنا نہیں ہے ہم جس مقصد کیلئے کام کررہے ہیں اسے بہت مثبت طریقے سے چلانا ہے ۔ لوگوں کوخائف نہیں کرنا ساتھ لیکر  چلنا ہے ۔ یہ سب ہمارےاپنے لوگ ہیں اور ان ہی کے تعاون اور کوششوں سےہم نے نمل کو کامیابی سے ہم کنار کرنا ہے۔ 

ہم نے کمیونٹی کے بے بنیاد الزامات اور پروپیگنڈےکو ہر بار کھلے دل اور مثبت طریقے سے چیلنج کیا ۔اپنی سٹیٹمنٹس کو ٹی وی پروگرام پر کھول کھول کے بتایا۔ نمل کی ٹیم میں انتہائی ایماندار چارٹرڈاکاؤنٹنٹس۔ بیرسٹر اور تمام تر شعبہ ہائے زندگی سےمستعد اور انتہائی پروفیشنل لوگ موجود ہیں جوایک ایک پائی کا حساب رکھتے ہیں ۔ 

پائی پائی سے یاد آیا کہ پچھلے سال ٹکٹیں بیچ بیچ کر اور باقی سارے کام کر کر کے جب اچھی خاصی مت وج چکی تھی تو 11مئی کو ہمارا تیسرا سالانہ ایونٹ ہونے جارہا تھا ۔ پروگرام سے چار گھنٹے پہلےپہنچنا تھا ۔ میں ہمیشہ کی لاپرواہ میں نے کاؤنٹر پہ اپنا خریدا ہوا ٹکٹ جمع کرایا کلائی پہ بینڈ لگایا اوراندر کام کرنے میں لگی ہوئی تھی کہ علی بھائی نےمجھے کہا کہ تمھارے ٹکٹ کے پیسے نہیں ملےمجھے۔ میں حیران کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔ کام کرکر کے اور ایونٹ کی ٹینشن میں شاید مجھ سے کچھ آگے پیچھے ہوگیا اتنے ٹکٹس سیل کئے تھے کہ  پہلے نہیں کئے تھے ۔ میں پریشان تھی میں نے اپناای میل چیک کیا پیسے ای میل کئے جا چکے تھے ۔معمہ یوں حل ہوا کہ میں نے بغیر پے شدہ ٹکٹ کاؤنٹر پہ دے دیا تھا غلطی سے اور paid ticket میرے پرس میں رہ گیا تھا۔ جس کا سیریل نمبر میچ نہیں ہورہا تھا ۔ سو پیڈ نکال کے وہ علی بھائی کو دیاتو ان کو تسلی ہوئی ۔صرف 100 ڈالر کا ٹکٹ تھا ۔اور میں رونےوالی ہوگئی تھی کہ ایسا کیسے ہوسکتاہے علی بھائی مجھ سے اتنے رش ٹائم میں 100ڈالرزپہ بحث کریں گے ۔ بھلا ہو یاسر اعوان کا۔ انھوں نےکہا آپ پریشان نہ ہوں ٹائم ایسا ہے۔ مجھے رونا آرہاتھا کہ مجھے آج تک کسی کو یوں حساب دینے کی نوبت نہیں آئی تھی ۔ 

اس بات کو اس لئے یہاں بیان کیا کہ جن لوگوں کوہماری ٹرانسپینسی پہ ذرا سا بھی شک ہے اس واقعےکو پڑھ کے شاید ان کی تسلی ہوسکے کہ اتنی بھاگم دوڑ میں جو بندہ اپنے ٹیم ممبرز کو 100ڈالر کی چھوٹ نہیں دے سکتا وہ فنڈز کی خرد برد ہونے دےسکتا ہے؟؟ یہ سوالیہ نشان ان کیلئے ہے جو آئے دن ہماری انتہائی ایمانداری سے اکٹھے کئے ہوئے ڈالرڈالر کو جی ٹی اے کی کسی بھی کرپٹ فنڈریزر سےجوڑ دیتے ہیں 

نمل کو کچھ لوگ اپنے میڈیائی مفاد کے نقطہ نظرسے لے کے ٹیم میں داخل ہوئے ۔ اگر کسی کا بھلانمل کا نام جڑنے سے ہوتا ہے تو کیوں نہ ہو ؟ آخر کویہ فلاحی پراجیکٹ ہے اور خلوص اور ایمانداری کےاحاطے میں رہتے ہوئے اگر کسی کے بزنس کا بھلا ہوتاہے تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ لیکن کچھ لوگ شاید نمل کو کاروبار ہی سمجھنا شروع ہوگئے تھے۔ان کو باہر نکالنا بھی ایک کام تھا مگر باہر نکال دیاگیا۔

علی بھائی نے مجھے کہا تھا کہ آپ بولا کرو ۔بولتی کیوں نہیں ہو۔ اگر کوئی شکایت ہو یا پھر کوئی بھی سجیشن ہو۔ بالکل بھائیوں کی طرح نہ صرف سنتےتھے بلکہ بات مانتے بھی تھے ہمیشہ ۔

ایونٹ سے پہلے ان کا یہ حال تھا کہ کیا شام کیاویکنڈ ہر روز وہ دن رات صرف نمل کیلئے وقف تھے ۔ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا تھا اور ایک بندہ انتھک محنت کررہا ہوتا تھا۔ ایونٹ بہت شاندار رہا پاکستان سے عمران خان کی بہن علیمہ خان آئیں ، نعیم بخاری نہیں پہنچ سکے، فخر عالم اور علیمہ خان نےکینیڈا کے مختلف صوبوں میں پروگرامز کئے دولاکھ تیس ہزار ڈالرز پورے کینیڈا سے اکٹھے کئے گئے ۔۔

فنڈریزنگ کا عجیب فیشن ہے جی ٹی اے میں کہ لوگ وعدہ کردیتے ہیں کہ اتنی رقم دیں گے بعد  میں منکر ہوجاتے ہیں ۔ محض اپنے سماجی اور سیاسی مفاد کی خاطر سٹیج پہ چڑھ کے جھوٹ بولتے ہیں ۔تقریریں کرتے ہیں ۔ تصویریں کھنچواتے ہیں اور پھرمکر جاتے ہیں ۔ ایک جگہ تو مجھے خود جانا پڑاعمران خان کا سائن کیا ہوا گیند بلا واپس لینے ۔مجھے اس فیملی سے ایسے رویے کی امید نہیں تھی اور مجھے یاد ہے کہ میں کتنے غصے میں گئی تھی کیونکہ ہمارے اپنے اندر بھی لوگ ہر بات کی اچھی کھال اتارنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ 

بہت سے مسائل ہوئے ۔ کبھی کوئی ناراض تو کسی کو کوئی ایشو کیونکہ ٹیم کے سب ممبرز ایک ہی کمیونٹی میں ہر روز ملنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو ایکدوسرے سے شکایات سمیت لیکر تین سال تک چلنامشکل کام تھا مگر ہوگیا۔ محنت بہت لگی ۔ سب نےکی۔ کچھ نے کم کی۔ کچھ نے زیادہ کی۔ اور سب سےزیادہ ٹیم ہیڈ نے کی۔ 

تفصیلات تو اتنی زیادہ ہیں کہ لکھنے لگوں تو شایدبہت وقت لگے ۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ قسطوںمیں لکھا تو شاید لوگ پڑھ بھی نہ پائیں انہماک سے۔ 

وسیم درانی نے پچھلے سال ہر کام کو آگے بڑھ کراپنے ذمے لیا۔ ممبر شپ ویب سائیٹ بنائی پاکستان ٹیم سے مل کے۔ اور ہر کام میں جہاں ہم نے سستی دکھائی انھوں نے آگے بڑھ کے خوش اسلوبی سےسرانجام دیا۔ سو تین سال بعد لیڈرشپ کا چارج انکے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ پاکستان سےاپروول لیا گیا ۔ کینیڈا کی کور ٹیم سے مشاورت کےبعد چارج باقاعدہ طور پر اٹھائیس مارچ کو کاروان کباب میں سب ممبرز کے سامنے ان کے نام کیا گیا 

میں نے پچھلے سال نمل کو ایک پودا کہا تھا اس سال اٹیچمنٹ بڑھ چکی ہے دوسال سے میں بھی اسکی پرورش میں شامل ہوں ۔ علی بھائی نے ایک بارپھر ہم سب کا تعارف کروایا۔ مجھے ایک وقت یادآگیا جب ولیمے سے اگلے دن احسن مجھے دوپہر کولینے پہنچ گئے تھے میری امی کا دل تھا کہ میں انکے پاس رہوں ۔ احسن ایک صوفے پہ بیٹھے ہوئےتھے جب میں کمرے میں آئی میں ایک سائیڈ پہ بیٹھ گئی ۔ ابو نے مجھے کہا کہ احسن کے ساتھ بیٹھو۔اور ایسی بہت سی  ہدایات۔جب ہم وہاں سے نکل رہےتھے تو ابو نےہم دونوں کو روکا اور مجھے کہا کہ ابسے تمھارا شوہر تمھارا سب کچھ ہے ۔ تم نے زندگی کا ہر قدم اس کی اجازت سے اٹھانا ہے۔ اب سے میراچارج اس کے حوالے۔ ابو روپڑے تھے اور میں بھی۔صرف ایک بندہ خوش تھا

کل علی بھائی کو نمل کا چارج وسیم درانی کےحوالے کرتے ہوئے پتہ نہیں کیوں مجھے ابو اور وہ وقت یاد آگیا۔ کل لگ رہا تھا کہ نمل ایک بچہ ہےجس کو تین سال تک علی بھائی اپنے بچوں کی طرح  پالتے رہے تھے اور اتنا تناور کرکے اسے نئے ہیڈکے حوالے کردیا تھا ۔ ہم سب کا وہی مقام تھا جوپہلے تھا صرف ہیڈ ہی بدلا تھا ہم تو ادھر ہی تھےلیکن عجیب سے جذبات تھے۔ پتہ نہیں کیوں ؟

یہ صرف ہماری محبت ہے سچائی اور لگن ہے اور ایکدوسرے کی عزت اور جذبات کا ادراک ہے کہ ایسامحسوس ہوا ۔ نئے ہیڈ یقیناً بہت خلوص سے نمل کی نگہداشت کریں گے اور اگست میں ہمارا ممبرشپ ایونٹ ایک اور شاندار سال رقم کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لوگ کہتے ہیں کہ میں لکھتی نہیں رلاتی ہوں اب تومجھے بھی یہی لگنے لگا ہے ۔ اسی لئے شاید کم لکھ رہی ہوں آجکل ۔۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply