کراچی آرٹس کونسل میں دو دن ۔۔جاویدخان

فروری2020 کی کسی تاریخ کو انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان سندھ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خادم منگی صاحب نے انجمن کے واٹس ایپ گروپ میں اُن چنیدہ لوگوں کی فہرست لگائی جوانجمن کے ججیز کے مطابق ،جن کے فن پارے سال 2019  کی بہترین تخلیق قرارپائے تھے۔اس فہرست میں مجھے اپنانام دیکھ کر حیرت کے ساتھ ایک اعتماد بخش خوشی محسوس ہوئی۔پھر ڈاکٹرخادم منگی صاحب کافون آیا ۔دوست آپ کاسفرنامہ ‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور ’’سال 2019  کے بہترین سفرناموں میں پہلے نمبر پر ہے۔13فروری 2020 کو کراچی آرٹس کونسل میں تقریب تقسیم انعامات ہوگی ۔لازمی تشریف لائیں۔کراچی کبھی روشنیوں کاشہر تھااور غریب پرور بھی۔مگرایک عرصے سے اس کی روشنیاں ماندپڑگئیں ہیں۔پھر یہ ملک کاسب سے شوریدہ شہر بن گیا۔لہٰذا ڈاکٹر صاحب سے کہا۔میرا آنا ممکن نہیں ۔بولے کسی نمائندے سے جو یہاں ہو بولیے آپ کاایوارڈ وصول کرلے۔مگر استادمحترم پروفیسر ذوالفقارساحر صاحب نے کہا یہ مواقع باربار نہیں آتے ۔خود جاؤ اور ایوارڈ لے آو۔اس کے ساتھ ساتھ برادر پروفیسر اسد سلیم شیخ صاحب نے تسلی دی۔دیکھیے انجمن کے لوگ ہر تحریر کو سند نہیں بخشتے۔یہ آپ کو پیسے تو نہیں دیں گے۔سند دے رہے ہیں۔ایک تخلیق کار کے لیے یہی بڑی چیز ہوتی ہے۔خود جائیے ۔لہٰذا ٹھیک ۱۰فروری صبح ،راولاکوٹ سے فیض آباد پہنچا۔کراچی کے بس سٹاپ سے کراچی کاٹکٹ خریدا ۔ گاڑی نے شام ڈھلے رخصت ہوناتھا۔ لہٰذا باقی کاساراوقت گزارنے اپنے ہم زلف ذوہب کلیم صاحب کے گھر چلاگیا۔ذوہب بھائی اسلام آباد میں محکمہ ٹیکس میں سترویں گریڈ کے آفیسر ہیں۔شبانہ باجی اور ذوہب بھائی کے ساتھ گپ شب میں وقت گزرنے کاپتہ ہی نہ چلا۔تقریباًآدھ گھنٹا باقی تھا۔کہ ذوہب بھائی اور میں واپس فیض آباد کی طرف روانہ ہوے۔وقت مقررہ سے ۱۰منٹ قبل پہنچے ۔ٹکٹ کی تصدیق کروائی اور اپنی نشست پر براجمان ہوگیا۔میرے بیٹھتے ہی ذوہیب بھائی نے الوداع کہااور رخصت ہوگئے۔گاڑی چل پڑی ۔انجان رستوں پر رات نے گھیراو شروع کردیاتھا۔
ٍ بس میں علان ہوا۔ہماراسفر ان ان منزلوں سے ہو کر منزل مقصود پر تمام ہوگا۔کوئی بڑی دُشواری نہ ہوئی تو اتنے گھنٹے لگیں گے۔ہر نشت پر آڈیو ،ویڈیو اَور ڈاکومنٹریز کاانتظام تھا۔آپ چاہوتو گھور اندھیرے میں باہر کی تاریکی میں جھانکویاپھر اپنا اپنا گاناسنو۔ٹیکنالوجی نے سفر کی سنگت میں کو بھی بے سنگت کردیا ہے۔جب اکیلے شخص کو بہت سارے لوازمات ملیں تو وہ کسی اجنبی سے کسی اجنبی راستے پر کیوں کر متعارف ہوگا۔؟ انٹرنیٹ ،ٹیپ ریکارڈ ،ویڈیوز،اور ڈاکومینٹریزسو ساتھ بیٹھے ہوااجنبی ساتھی آخری منزل تک اجنبی ہی رہا۔بے گانگی کی کی سوصورتیں ٹیکنالوجی لے کر آئی ہے۔گاڑی ساری رات اجنبی رستوں پر دوڑتی رہی ۔اور پھر وہی ہوا جس خدشے کااظہار ایک لڑکی نے شروع میں علان کے دوران کیاتھا۔مقررہ رستے پر دھند چھائی ہے۔‘‘ہم متبادل رستے پر چلیں گے اور یہ رستاقدرے لمباہے۔’’جب آپ کے مقررہ رستے پر دُھند چھاجائے اَور آپ رستے سے بے رستاہوجائیں۔تو منزلیں خدشات کی زدمیں آجاتی ہیں۔سفر انقلاب کاہو،زندگی کاہو،یاکسی شہر کا ہر ایک کے لیے بے رستا ہونااذیت ناک ہے۔کچھ اذیت صدیوں تک نہیں سنبھالی جاتی ،کچھ یاحیات ،کچھ لمحوں میں رفع ہوجاتی ہے۔تو ہم تقریباً چالیس سے زاہد مسافر بے رستاہوگئے۔گاڑی سحر کے قریب ایک سراے میں جارکی۔مختلف ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے سرائیں بنارکھی ہیں۔یاسرائے کے مالکان سے ٹھیکا کر رکھاہے۔ان سراوں میں وضو،نماز،کھانے اور تروتازہ ہونے کاانتظام ہے۔کہیں براے نام تو کہیں گزارے لاحق ہے۔گاڑی سراے میں رکی تو مسافروں نے وضو گاہ کارخ کیا۔اس سے قبل ایک جگہ مسافروں نے کافی ،بسکٹ اَور ہلکی پھلکی اشیاء خوردونوش خریدیں تھیں۔اس سراے میں مسافروں نے نماز فجر اداء کی اور پھر آگے چل دیے۔
اب سپیدرہ سحر نمودار ہورہاتھا۔بہ قول ایک اور مسافر کے ہماری گاڑی اب پوراسندھ گھومے گی۔میں سندھ کی دھرتی کو پہلے روکھاسوکھاسمجھتارہاتھا۔میراخیال تھاکہ مملکت پاکستان کے پاس اناج کی گودی بس پنجاب کے کھیت ہیں۔مگر یہاں سندھ میں حد نگاہ کھیت ہی کھیت تھے۔میلوں پر پھیلے کیلوں کے کھیت ،کھجوروں کے باغات ،اَمرود اور ہری بھری فصلیں۔سندھ دریا آج سے نہیں کروڑ ہاسال سے اس دھرتی کے لیے زرخیزی اور مٹی ڈھورہا ہے۔آخر سندھو دریا سے کوئی پوچھے تُم سندھ کی مٹی کو اتنا کیوں نواز رہے ہو۔۔۔؟دُور پیچھے تبت اور پھر کشمیر (گلگت ) میں تم شوریدہ ،زوریدہ اور سخت غصیلے واقع ہوئے ہو۔مگر یہاں اتنے شانت شانت کیوں ۔۔۔؟اس دھرتی پر اتنی عنایات کیوں۔مگر دریا ہے روانی اس کی صفت ہے۔فیض عام دریاوں کاخاصا ہے۔ریاست کشمیر کے علاقے گلگت سے گزرنے والے سندھو دریاکو اگر سندھ دھرتی سے پیار ہو چلا ہے تو اُسے کون روک سکتاہے۔ کیادریابھی کسی نے روکاہے۔؟ہاں مٹیالہ اور پہاڑی وادیوں میں سرکشی کرتاسندھو ،یہاں شانت بہتاہے۔کہتے ہیں ہزاروں سال قبل دنیا کی عظیم تہذیبوں مہنجوڈارو اور ہڑپاکو سندھ دریا نے ہی اپنا پانی پلاکر جوان کیا تھا۔اور آج اس تہذیب کااولین شہر سندھو کے برفیلے پانی کے نیچے سویاہواہے۔سندھ دریا ہے ،باغات ہے،ہریالی فصلیں ہے،لہلہاتے کھیت ہے،مہنجوڈاروہے،ہڑپا ہے ،تھر ہے ،سمندر ہے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی ہے۔یہ رنگ وانگ مل کر سندھ بنتاہے۔میں ان رنگوں اور انگوں کو سوچتا اور دیکھتا ٹھیک 22گھنٹوں بعد کراچی پہنچا۔راستے میں کوئی ۱۰ بجے ٹھنڈے پراٹھے میں اک ٹھنڈاآملیٹ لپیٹ کر پیش کیا گیا تھا۔ٹرانس پورٹ کمپنی کاعلان تھاکہ ناشتاان کی طرف سے ہوگا۔اگلی منزل کراچی کاصدر تھی۔ہمارے دوست رضوان صاحب اور ڈاکٹر نعیم صاحب کراچی کے پالے ہوئے ہیں۔ان کے دیے ہوئے پتاپر رکشہ ڈرائیور نے ایک ہوٹل کے سامنے اُتارا ۔ہوٹل المصطفی ٰکی تیسری منزل پر ایک کمرہ مجھے مناسب نرخوں پر مل گیا۔نئے پاکستان کی ہزار کاوشوں کے باوجود کراچی آج بھی غریب پرور لگ رہاتھا۔س

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply