ماضی و حال کی دانش اور دانشور ۔۔۔ منصور ندیم

 

کل راہ چلتے ایک دانشور بھولا خیر اندیش ملا۔ اتفاقی شناسائی رہی تھی اکثر یہ محسوس کرتا تھا وہ اپنے موقف کو بہت شدت سے اور سخت روئیے سے منوانے کی کوشش کرتا تھا۔ بھولے کی گفتگو کا آغاز ہی خاصا جارحانہ تھا، دیکھتے ہی کہنے لگا۔

بھولا خیر اندیش : اب تو خوش ہو تم اب تو فوجیوں کو بھی اس ملک میں سزائے موت ہونے لگی۔

میں : نہیں صاحب ! مجھے کسی کی بھی سزائے موت پر خوشی نہیں ہوتی ۔ نہ ہی میں سزائے موت میں مسائل کا حل سمجھتا ہوں۔ اور آرمی میرے ملک کی ہی آرمی ہے ، مجھے اس کے ہر مخلص جوان سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کسی بھی محب الوطن کو ہوسکتی ہے ۔

بھولا خیر اندیش : (مزید غصے میں جھاگ اڑاتے ہوئے) اور آرمی نے ان کو غدار بھی ڈیکلیر کردیا، تم جیسے لوگ اب تو خوش ہونگے۔

میں : (دھیرے سے مسکراتے ہوئے) یہی تو ہمارا مسئلہ ہے، کہ پہلے ہم مسائل کو اس درجہ تقویت دیتے ہیں پھر ان سے نجات کے لئے آواز بننے والوں یا اس عمل سے تکلیف اٹھانے والے احتجاج کرنے والوں کو غدار ، غدار وطن یا کافر جیسے القابات دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہاں ہر اس دانشور ، شاعر، ادیب یا سیاسی رہنما پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے جس نے خلوصِ نیت کے ساتھ وہ ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ہے جو اس کا منصب ہے۔اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے اکثر ادیب و شاعر اور اہلِ قلم کو قید و بند کی صعوبتیں بھی بھگتناپڑی ہیں، مفلوک الحالی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، اور انہوں نے اس ذمہ داری کی ادائیگی میں اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں۔

بھولا خیر اندیش: ( قمیض کی آستین سے منہ سے گرتے ہوئے تھوک کو صاف کرتے ہوئے جو ابھی ابھی اس کے منہ سے اڑ رہا تھا) یہ سب دانشور ولد ۔۔۔۔۔۔ ، ہیں ، خبیث اور ان کی ما۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی ایسی کی تیسی۔ اگر تم اچھے پاکستانی ہو تو ابھی پتہ چل جائے گا، تم بھی ابھی ایک گالی انڈیا کو دو، فلاں کو گالی دو، اور فلاں کو بھی گالی دو کیونکہ وہ بھی غدار ہے۔

میں : بھائی بھولے خیر اندیش میرا دشمن ملک سے نظریاتی یا سرحدی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن میری کوشش یہی ہوتی کہ میں اس سے اختلاف کرتے وقت تہذیب کو ملحوظ خاطر رکھوں ویسے بھی “مہذب ہونے کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلاف برداشت اور جذب کرتا ہے۔ دقیانوسی معاشروں کی واضح پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کرسکتے، جیسے آپ گالی گلوچ پر اتر آئے۔ کیا میرے گالی دینے سے اور زوردار فلاں زندہ باد یا فلاں مردہ نعرے لگانے سے میرا حب الوطن ہونا ثابت ہوگا؟

خیر بھولا خیر اندیش تو چلا گیا ، لیکن سوشل میڈیا پر بھی کئی اچھے اہل قلم اور دانشور ایسے نظر آتے ہیں، جو ریاست کی ہر زیادتی پر خاموش رہتے ہیں اور زیادتی کے جواب میں ہونے والے احتجاج پر منہ سے کف اڑاتے اور تلواروں کھینچ کر باہر نکل آتے ہیں، اور ہر ہر واضح ظلم و زیادتی پر طاقتور کے خلاف لکھتے وقت کہیں درمیانی پوزیشن لیتے ہیں ۔( خدارا اسے درمیانی جنس والی پوزیشن نہ سمجھا جائے)۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کا موقف کبھی واضح نہیں ہوتا۔ ظلم کو ظلم تو مان لیتے ہیں لیکن اس کے محرکات پر قلم کانپنے لگتا ہے۔

اہلِ قلم یا دانشوروں کی ذمہ داری کو مناسب طریقہ پر سمجھنے کے لیے ہمیں ادب اور سماج اور ادیب اور سماج کے اس تعلق کو پوری طرح سے جاننا ہوگا جس کی تعلیم ہمیں خود ہمارے اپنے دانشور اور مغرب کے وہ اہم دانشور دیتے ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں ۔

فرانسیسی مفکر ، ژولیاں بیندا (Julien Benda) اسی فکرکا احاطہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ، ہر زمانہ میں نہایت غیر معمولی طور پر ذہین اور طباع انسانوں، اور اعلیٰ اصولوں اور مثالی اخلاقی ضابطہ پر عمل پیرا لوگو ں کا ایک بہت ہی چھوٹا سا گروہ ہوتا ہے جو انسانیت کا ضمیر ہوتے ہیں۔ Julien Benda کے نزدیک اصل دانشور وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پر تنقید کرتے ہیں، مظلوموں کا دفاع کرتے ہیں، اور ناقص اور ظالم اربابِ اقتدار کے جبر کو رد کرتے ہیں۔ اس کے نزدیک حقیقی دانشور وہ ہوتے ہیں جنہیں ان کے احتجاج ، مزاحمت ، اور اعلانِ حق کی پاداش میں زندہ جلایا جاتا ہے، مصلوب کیا جاتا ہے، اور وہ برادری بدر، یا ملک بدر کیے جاتے ہیں۔ دانشوروں کے اس گروہ کےایک اور ممتاز شاعر شیلی Shelley نے معاشرہ کا ایسا قانون ساز قرار دیا تھا، جن کی حیثیت معاشرے میں تسلیم نہیں کی جاتی۔

دانشور کے منصب کی مثال میں Julien Benda کا کہنا ہے کہ کس طرح فرانسیسی دانشوروں نے شہنشاہ لوئی چہاردہم کی بعض جنگوں کی مخالفت کی، کس طرح نیپولینؔ کے تشدد کی مزاحمت کی، کس طرح دانشوروں نے فرانسسیی انقلاب کی مخالفت کرنے پر برطانوی اربابِ اقتدار کو لتاڑا، اور کس طرح نطشے نے جرمنوں کی فرانسیسیوں کے خلاف زیادتی پر آوازِ احتجاج بلند کی۔ (حوالہ مضامین منیر سامی)

صرف تاریخی کہانیاں نہیں ہے، عصر ِ حاظر میں ہمیں ، Edward Said, Martin Luther King, Noam Chomsky, Tariq Ali اور Arundhati Roy جیسے عمل پرستوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کنندگان کو یاد رکھنا چاہیے جو اعزازات ، خطابات، اور مراعات کو رد کرتے ہوئے ساری انسانیت کے حق اور بقا کی جدو جہد کرتے رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ایڈورڈ سعید ایک فلسطینی عیسائی تھا لیکن اس نے اپنی ساری زندگی ہر فلسطینی کے حق کے لیے وقف کر دی تھی۔

ایڈورڈ سعید ہمیں (آئرش ناول نگار) James Joyce کے اہم ناول as a Young Man A Portrait of the Artist کے کردار Stephen Daedalus کا دلوں پر نقش ہونے والا ایک بیان سناتا ہے، ’’ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا اور کیا نہیں کروں گا۔ میں کبھی بھی ان کی خدمت نہیں کروں گا جن پر سے میرا اعتبار اٹھ گیا ہو، چاہے وہ میرا گھرانہ ہو، میرا ملک ہو، یا میرا مذہب۔ اور میں اپنے لیے، فن کی کسی صنف یا زندگی کی کسی جہت کو اپنے آزادانہ اظہار کے لیئے اختیار کروں گا۔ اور اپنے دفاع کے لیئے وہ ہتھیار استعمال کروں گا جو میرے بس میں ہیں یعنی خاموشی، دربدری، حکمت ، اور طباعی۔ ایڈوڑد سعید ہمیں بتاتا ہے کہ اس ناول سے لے کر Ulysses تک اس کردار یا فن کار کا بنیادی عقیدہ، دانشورکی آزادی اظہار کی توثیق اور دفاع ہے۔

وہ دانشور اور قلم کار جو ادب برائے ادب اور ”جدیدیت” جیسی اصطلاحات کے پیچھے چھپ کر سماجی معاملات سے نظر چراتے ہیں، انہیں ہمیشہ آئرش ناولسٹ James Augustine Aloysius Joyce جیمز جوائس سے سبق سیکھنا ہوں گے۔ جس نے بلا شبہ ادب میں اظہارکے جدید اور حیران کُن بیانیے ایجاد اور استعمال تو کیے، لیکن اس کی ہر تحریر میں سماج اور شہریوں کے مسائل، بین السطور موجود رہتے ہیں۔ اس کے کردار ، استعمار اور مذہب کی شدت کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ہر تحریر میں ہمیں معاشرہ کے افتادگان کی داستان بھی سنائی دیتی ہے اور خود اپنوں کی مصالحت آمیز منافقت بھی۔

ہم پاکستانی خوش قسمت ہیں کہ ہمیں قیامِ پاکستان سے اب تک ایسے فنکار ، دانش ور، اور اہلِ قلم نصیب ہوئے ہیں جنہوں نے دانشوری کے منصب کو اپنا فرض اور عقیدہ جان کر نبھانے کی، اور عروسِ وطن کو ہر حال میں نکھارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہ ہیں جو فوجی آمریتوں کے خلاف، اقلیتوں پر ظلم کے خلاف ، پسماندہ عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کی خاطر، بے وجہ اور فضول جنگوں کے خلاف، آئین کی برتری کی حمایت میں، انسانی مساوات کے لیے، اور اہل ِ اقتدار کی نا عاقبت اندیش پالیسیوں کے خلاف، مسلسل آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔ ان میں سبطِ حسن اور فیض احمد سے لے کر حسن ناصر، حبیب جالب،جون ایلیا، احمد فراز، فہمیدہ ریاض بھی شامل ہیں، اور عائشہؔ صدیقہ، عاقلؔ شاہ، عارفؔ جمال ، عاصمہ جہانگیر، وسعتؔ اللہ خان، حسن مجتبیٰ، ناصر زیدی ، ناصر عباس، اوؔر ظہیر، فرزانہؔ حسن بھی۔ یہ بہر طور ایک نا مکمل فہرست ہے، اور آپ اس میں مسلسل اضافہ کر سکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دانشوری کے منصب سے وفا کی ہے اور غداری کے تمام الزامات کے باوجود اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد اوراس میں شامل حوالوں سے استفادہ کرنے کے بعد آپ ہمیشہ جان لیں گے کہ غدار کون ہے اور وفادار کون ہے۔ پاکستان کے وفادار وہ دانشور ہیں جنہوں نے اپنا منصب نبھایا ہے، اور ہر سب و شتم او ر دشنام طرازی کو سہتے ہوئے ہر بار کہا ہے کہ:

وہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی داغ تھے جو سجا کے ہم ، سرِ بزمِ یار چلے گئے

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply