سکول کی ابتدائی جماعتوں میں ایک روپیہ پاکٹ منی ملتی تھی۔ خوب صورت نوٹ تھا۔ پِنک کلر کی کشمیری چاۓ سے ملتا جلتا۔ اپنی خاکی نیکر یا پینٹ جو بھی موسم کی مناسبت سے پہنی ہوتی اس کی دائیں طرف کی جیب میں وہ ایک روپیہ رکھ لیتا۔ بائیں جیب میں والدہ رومال ڈال دیتے تھے تاکہ سند رہے بوقت صفائی کام آۓ۔ بچپن کی کچھ عادتیں شاید آخری سانس تک ساتھ چلنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسی لیے تقریباً چالیس سال ہونے کو ہیں، ہمیشہ رومال پاس رکھا وہ بھی بائیں جیب میں۔
کلاس میں بیٹھے ہوۓ اکثر دھیان جیب میں موجود نوٹ کی طرف ہوتا۔ تسلی کے لیے ہاتھ مار کے چیک کر لیتا۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ لگتا نوٹ غائب ہو گیا ہے۔ دھڑکتے دل سے فوراً کھڑے ہو کر جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھتا تو نوٹ کو ہاتھ لگتے ہی جسم میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔
چوتھی جماعت تک پہنچتے ہوۓ پاکٹ منی میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ اب مجھے نیلے رنگ کا دو روپے والا نوٹ ملتا تھا۔ اس کو میں شرٹ کی جیب میں رکھتا تھا۔ سفید شرٹ سے نیلے رنگ کے نوٹ کی جھلک سے امیر ہونے کی نشانی واضح ہوتی تھی۔ یہ نیلا نوٹ مالی اعتبار سے اتنا مستحکم تھا کہ آپ اس کو آج کے نیلے رنگ کے ایک ہزار روپے کے نوٹ کے برابر سمجھ سکتے ہیں۔ سکول کی کینٹین سے دو روپے کی نان ٹکی بمعہ چٹنی اور ایک ٹافی آجاتی تھی۔ یعنی کہ پیٹ بھر جاتا تھا۔ ٹافی بھی پائیدار اور میٹھی مزے کی ہوتی تھی کافی وقت نکال جاتی تھی اور ذائقہ بھی برقرار رہتا تھا۔
ایک دن میڈم نے بتایا کہ کل ایک فلم دکھائی جاۓ گی، تمام بچے چار روپے لے کر آئیں گے۔ اگلے دن جیب میں دو نیلے نوٹ یعنی کہ چار روپے ڈال کر سکول آیا۔ دس بجے کے قریب ایک لمبی سی لڑکی جو شاید آٹھویں، دسویں کی طالبہ ہو گی، اُس نے میڈم کو کوئی پیغام پہنچایا۔ میڈم کو مصروف دیکھ کر ہم بچوں نے آپس میں باتیں شروع کر دیں۔ جس کو میڈم صاحبہ نے سخت ڈانٹ والے لہجہ میں خاموشی میں بدل دیا اور بتایا کہ ابھی ہم قطار بنا کر ہال کی طرف جائیں گے، وہاں فلم دکھائی جاۓ گی، اگر کسی بچے کی ہال میں آواز نکلی تو پھر اس کی خیر نہیں۔
کچھ ہی دیر میں ہم سب بچے قطار بناۓ کلاس سے باہر نکلے اور ہال کی طرف چل پڑے۔ باہر چوں کہ سب جماعتوں کے بچے قطاریں بناۓ کھڑے تھے اس لیے ہال کی طرف جانے میں وقت لگ رہا تھا۔ جس کی وجہ دروازے کے پاس پہنچ کر چار روپے جمع کروا کر ایک چھوٹی سی رسید لینے کا عمل تھا جسے ہم ٹکٹ کہتے ہیں۔
قطار رینگتے رینگتے آگے بڑھ رہی تھی۔ ایک وقت یہ آیا کہ ہماری قطار ہال سے پہلے کچھ فاصلے پر موجود کینٹین تک آگئی۔ کینٹین سے اُٹھنے والی اشتہا انگیز خوش بو اور رنگ برنگے بسکٹ کے پیکٹ دیکھ کر جی للچانے لگا۔ بالآخر اس کا انجام دو روپے خرچ کرنے پر ہوا۔ بسکٹ اور ٹافیاں لے کر جیب میں ٹھونس لیں۔ قطار آگے بڑھتے ہوۓ جب میری باری آئی ٹکٹ لینے کی تو میں نے اوپر والی جیب سے دو روپے کا نوٹ نکالا۔ وہاں موجود ایک لڑکی نے مزید دو روپے کا مطالبہ کیا۔ میں نے دوبارہ جیب دیکھی اور پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھا۔ میڈم سے کہا۔ میڈم میرے پاس چار روپے تھے۔ میڈم سمجھی دو روپے کہیں گر چکے ہیں۔ انہوں نے اس ٹکٹ والی لڑکی سے کچھ کہا تو اس نے مجھے اُسی دو روپے میں ٹکٹ دے دی۔
ہال میں پہنچ کر دیکھا جس دیوار پر قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان، سرسید احمد خان کی تصاویر لگی ہوئی تھی وہاں اب ایک سفید رنگ کا بڑا سا کپڑا لگا ہوا ہے۔
کچھ دیر بعد تمام لائٹس آف ہو گئیں اور ہال کی پچھلی دیوار سے ایک روشنی کا دھارا نکلا جس سے سامنے والی دیوار پر پڑے سفید کپڑے کے اوپر لمبے بالوں والے نوجوان کی تصویر اور ساتھ ہی ایک خوب صورت لڑکی کی تصویر تھی جب کہ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی تصویریں عربیوں کی تھیں۔ جو کہ گھوڑوں پر تھے، کسی کے ہاتھ میں تلوار، کسی کے نیزہ تھا۔
ہال میں پھر کسی اور کلاس کی میڈم کی گونجدار آواز آئی۔ اب سب خاموشی سے محمد بن قاسم کو دیکھیں، کسی بچے کی آواز نہ آۓ۔
یہ میرا محمد بن قاسم سے پہلا تعارف تھا۔ پھر ساری زندگی اسی تعارف کے ساتھ گزاری۔ اب دوسرا تعارف صفدر زیدی صاحب کے اس ناول ” بنت داہر ” میں ہوا ہے۔
محمد بن قاسم کا نام سنتے ہی شاید آپ کا خیال ایک مظلوم عورت کے خط کی طرف جاتا ہو جو اس نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ ہمیں بچاؤ اور حجاج نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو سندھ کی طرف روانہ کر دیا اور سندھ فتح ہو گیا۔ یا پھر آپ کا خیال دیبل کے مندر کی طرف جاۓ، جس کے اطراف میں آتشیں تیر فضا میں بلند ہو رہے ہیں، منجنیقوں سے آگ کے گولوں کی بارش ہو رہی ہے، شہر جھلس رہا ہے، بھگڈر مچی ہوئی ہے، مندر کے کونے میں دیبل شہر کا مہا پجاری اس مورتی کے آگے جھکا ہوا خوف سے تھر تھر کانپ رہا ہے، جس کے بارے میں عقیدہ تھا کہ یہ طاقت و اختیار کی دیوی ہے۔ بن قاسم مندر میں داخل ہوتا ہے۔ تلوار کے ایک ہی وار سے مورتی کا سر تن سے جدا کر دیتا ہے۔ پجاری خوف سے اور جھک کر زمین کے ساتھ لگ جاتا ہے کہ اسے بن قاسم کی آواز سنائی دیتی ہے، ” تمام اختیار اور طاقت صرف اور صرف اُس اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے”۔
البرٹ کامس نے کہا تھا،
” فکشن وہ جھوٹ ہوتا ہے جس کے سہارے سچ بیان کیا جاتا ہے “۔
صفدر زیدی صاحب نے بڑی محنت سے تاریخی حوالوں کو سامنے رکھتے ہوۓ یہ ناول لکھا ہے۔ تاریخ سے محبت رکھنے والے دوستوں کے لیے یہ خوب صورت تحفہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں