• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر ( بالغ ہوتے بچوں کے ماں باپ کے نام)-تحریر /محمد وقاص رشید

ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر ( بالغ ہوتے بچوں کے ماں باپ کے نام)-تحریر /محمد وقاص رشید

انسان اور کمپیوٹر میں چند قدریں بڑی دلچسپ اور مشترک ہیں۔ کمپیوٹر خالقِ کائنات کا اشرف المخلوقات ہے اور کمپیوٹر اس انسان کی اشرف التخلیقات۔ دونوں تخلیقات میں سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی دو مختلف دنیائیں باہم ہو کر تخلیق کو تکمیل کا درجہ دیتی ہیں۔
ہارڈ وئیر کی دنیا مادیت کی مجسم دنیا ہے، سافٹ وئیر غیر مرئی روحانیت کا جہاں ہے۔
میری طالبعلمانہ نگاہ میں خالقِ کائنات کی اشرف المخلوقات انسان کی تخلیق ، اس اشرف المخلوقات انسان کی اپنے اشرف التخلیقات کمپیوٹر کی تخلیق کی بنیاد بنی۔
مگر ایک بات کہ انسان اپنے خمیر میں خدا کے ودیت کردہ علم کی بنیاد پر ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوئے وہاں پہنچا کہ اپنی تخلیق کی معراج کو پا سکے جبکہ اس کی تخلیق خود سے اس ارتقاء میں قاصر ہے۔ خالق و مخلوق کا فرق امر ہے۔
انسانی حیات عمر کے لحاظ سے سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ سافٹ وئیر کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہوتا ہے جبکہ ہارڈ وئیر فطرت کا تابع ہے۔
غامدی صاحب کا وہ جملہ کہ مردوزن نکاح کے ذریعے خدا کی انسانی تخلیق کی اسکیم میں شمولیت کا با ظابطہ اعلان کرتے ہیں سونے کے حروف سے لکھنے کے لائق ہے۔ اس ساری “کمپیوٹرائزڈ” تمہید کو اسی اسکیم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتے ہوئے بچے جسمانی یعنی ہارڈوئیر کی تبدیلیوں سے گزرتے ہیں۔ جنس و جنسیت سے متعلق علم انکا سافٹ وئیر اپڈیٹ کرتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک ہم آہنگی بہت حساس اور اہم معاملہ ہے۔
میرے بیٹے کی عمر سولہ سال اور بیٹی کی عمر تیرہ سال ہے۔ ہم نے گھر کا ماحول ایسا رکھنے کی کوشش کی کہ انکا بچپن پری میچور ٹی کے بوجھ تلے نہ دب جائے۔ لیکن والدین کے لیے ایک بڑا ٹاسک گھر اور سماج کے مابین اس ضمن میں موجود عدم مطابقت کے مطابق بچوں کی ذہن سازی کرنا ہے۔
انتہائی کرب سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے واقعات بڑھنے لگے تو میں نے اس ضمن میں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پر ایک آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا تو کچھ اہل علم و دانش سے اس سلسلے میں رہنمائی لی۔ ان کے خیال میں بھی عمر کے مطابق علمیت کی فراہمی ایک حساس اور انتہائی توجہ طلب تکنیکی معاملہ ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق والدین اس ذمہ داری کو پورا کرنا تو درکنار بطورِ ذمہ داری اس سے واقف بھی نہیں ۔والدین نے اپنی زمہ داریاں “اسکرین ” کے ذمے لگا چھوڑیں ۔ بچوں کو یہ اسکرین جو چاہے سکھا سکتی ہے۔
سکول میں فلاں میرا کرش ہے اور فلاں میری کرش ہے سنا تو دونوں بچوں نے باری باری گھر آکر ہم والدین سے بات کی۔
مذکورہ مہم کے دوران بچوں کو میں مختلف اوقات میں یہ باور کروا چکا تھا کہ یقینی طور علم و آگہی کی ایک دنیا ابھی آپ سے پوشیدہ ہے۔ اور خدا کا شکر کہ میں انہیں اس بات پر شعوری طور پہ قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ وقت سے پہلے تجسس کے مارے اپنے معصوم ذہنوں پر علمیت کا وہ بوجھ نہ اٹھا لیں جسکی انکا ذہن استطاعت نہیں رکھتا۔
اس مقصد کے لیے میں نے انہیں ایک دن ایک عملی مشق سے گزارا کہ دو، پانچ ، سات ، دس اور بیس کلو کے باٹ کی مدد سے۔ انہیں وزن اٹھانے کے لیے کہا۔ نتیجے کے طور پر انہیں بتایا کہ جسطرح بدن کے باقی خلیے اپنی استطاعت کے مطابق بوجھ اٹھا سکتے ہیں اسی طرح ذہن کے خلیے بھی علم کا بوجھ اپنی بساط کے مطابق اٹھا سکتے ہیں اور یہ بساط و استطاعت عمر کے متناسب ہوتی ہے۔ جیسے اگر باقی ماندہ جسم پر زبردستی اضافی بوجھ لاد دیا جائے تو خلیوں کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح ذہن کے خلیوں کے لیے بھی یہ اضافی بار پری میچورٹی کو جنم دیتا ہے جسکے نتیجے میں فرسٹریشن جیسی ذہنی بیماریاں جنم لیتی ہیں یعنی مختصر یہ کہ تعلیم و تربیت کے سافٹ وئیر کی شعوری اپڈیٹ، ہارڈوئیر کے قدرتی اپڈیٹ کا محتاج ہے۔
ایک دن “کرش” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے بچوں کو بحیثیت میاں بیوی اپنے ، انکے چاچا پارٹنر وقار ، بابا ، پھپھو ، ماموں وغیرہ کی مثالوں سے واضح کیا کہ کرش کی عملی زندگی سے کیا مطابقت ہے۔ اس ضمن میں مخالف جنس کی فطری کشش سے محبت اور نکاح تک کے موضوعات پر گفتگو کے دوران انہیں واضح کیا کہ یہ تمام عملی حیات کی چیزیں سیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ دونوں بتدریج انہیں سیکھتے ہوئے اس شعوری سطح پر پہنچیں کہ آپ اپنے اپنے جیون ساتھی خود چننے کا لائق ہوں۔ آپکی آنکھیں ، دل اور دماغ سینکرونائز ہو کر اس ضمن میں بروئے کار آنے کے قابل ہوں۔
ایک دن فیضان نے گفتگو کے انجام پر کہا اسکا مطلب first sight love تو فضول بات ہے۔ ڈاکٹر صداقت صاحب کے لیکچر میں یہ جملہ ایک دن بعد میں سنا تو اپنی کاوش پر ایک نگاہ آسمان پر ڈالی۔
فاطمہ سے سوال کیا کہ بچے سکول میں جب بچیاں کرش ورش کرتی پھرتی ہیں تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں۔ سوال کے ساتھ نگاہیں اور زبان دونوں اسے منتبہ کر رہی تھیں کہ جواب دیانت پر مبنی ہو ناکہ محض مجھے خوش کرنے کے لیے۔ اس نے کہا کیونکہ میں جانتی ہوں کہ “This is far before time , they look frustrated
یہ امر قابلِ اطمینان اور باعثِ تشکر تھا کہ بچے سکول سے جو کوئی بھی نئی بات کوئی مخصوص “اصطلاح” سنتے اسکے بارے میں گھر آکر ضرور بات کرتے اور میں جس قدر ہو سکتا اس پر بات کرتا اور باقی وقت پر چھوڑنے پر شعوری طور پر قائل کرتا۔
اور پھر فیضان کی حد تک وہ سماں آگیا۔ دسویں کی کتاب میں ایک قرآنی آیت کا ترجمہ پڑھتے ہوئے فیضان ایک “خاص” آیت پر تھوڑا توقف کرگیا تو میرے ذہن میں نقشہ واضح ہو گیا۔ اس سے قبل وہ مختلف اوقات میں جنس و جنسیت کے موضوع پر “معروف اصطلاحات” کے بارے میں مجھ سے پوچھ چکا تھا۔ اس کا مطلب نقاط سافٹ وئیر میں موجود تھے اور ہارڈ وئیر اپنا وقت پورا کر چکا تھا اب بس ان نقاط کو ملانے کی ضرورت تھی کہ فیضان کالج داخل ہو چکا تھا۔
گاڑی راولپنڈی کی طرف رواں دواں تھی میں اور فیضان ہی موجود تھے میں نے ان نقاط کو ملانا شروع کیا اور اس ضمن میں تقریباً تمام ہی معلومات اسکو فراہم کر دیں۔ بیچ بیچ میں ، میں اسے مختلف اوقات میں اسکی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتا رہا۔
ارتقاء کی منزل کیا ہوتی ہے میں نے جانا۔ ایک مضمون میں لکھا تھا کہ میں اپنے بیٹے کو وہاں وہاں نظر آیا جہاں جہاں اپنے عظیم والد صاحب کو دیکھنا چاہتا تھا وہاں وہاں سنائی دیا جہاں جہاں انہیں سننا چاہتا تھا۔ سو گاڑی میں میری جگہ بابا بیٹھے تھے فیض جانی کی جگہ میں۔ میں تمام والدین کو اس ارتقاء کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ مجھے میرے بچے “بوجوہ” اجازت نہیں دیتے ورنہ ایک ایک والدین سے جاکر ملوں اور انہیں بتاؤں کہ خدا کی سکیم تخلیق پر ختم نہیں ہوتی تخلیق سے شروع ہوتی ہے۔
فیض جانی کو پنڈی پہنچ کر گلے لگایا پیار کیا مبارک باد دی کہ اس نے اپنا بچپن اور معصومیت اب تلک قائم رکھا اور شکریہ ادا کیا کہ اس نے آج سے کوئی پانچ برس پہلے کہے گئے اس جملے کو پانی دیا کہ بیٹا میں آپکا بہترین دوست بننا چاہتا ہوں میرا خواب ہے کہ اس ضمن میں آپکو وقت آنے پر تمام معلومات میں خود دوں۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے خواب پورا کیا۔
فیضان کا بچپن دور جاتے پیچھے پیچھے دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ منظر نامہ پھر گڈ مڈ پھر ایک دوجے میں مدغم۔ حال سے ماضی ، ماضی سے حال ۔ پہلے بتا چکا کہ اہلِ دل کا ہارڈوئیر حال میں سافٹ وئیر ماضی میں اپڈیٹ ہوتا رہتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply