پتر کار، زرا سنبھل کر۔۔۔شاداب مرتضی

صحافی کو خبر سے نوازیوں نے اس لیے نوازا تھا کہ اثاثے رکھنے والوں کی جگ ہنسائی ہو تو اس کا نام کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کے بعد قلمی کلاکاروں کے حلقے سے برآمد ہونے والے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوازنے والے نے غالبا خود اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی ہے. اپنے محسن کو جس نے اس کی مخبری پر بھروسہ کیا اسی کو احسان فراموشی کی بھینٹ چڑھا دیا! اگر مبینہ طور پر اخبار کی چیئروومین, منشاء جی کے بہنوئی اور ملک کی اڑن کھٹولہ سروس کے چیئرمین کی بیگم ہیں, تو واقعی پترکار کو اعتماد کی چھری سے قربانی کا بکرا بنایاگیا ہے.

خفیہ میٹنگ 3 تاریخ کو ہوئی جس کی رپورٹ 7 تاریخ کو شائع ہوئی. میٹنگ میں دو فریق تھے: نوازنے والے اور اثاثوں کے مالکان. ہو سکتا ہے خبر 3 تاریخ کو ہی مل گئی ہو لیکن اسے کراس چیک اور فیکٹ چیک کرنے میں 3 دن لگے ہوں. پترکاری کے معیار کے مطابق خبر کو کراس چیک یا فیکٹ چیک کرنے کے لیے ظاہر ہے دوسرے فریق سے تصدیق بھی ضروری ہے. فریقین کے متضاد بیانات کی صورت میں خبر میں اس فرق کو واضح ہونا چاہیے. خبر کا اسلوب بتاتا ہے کہ خبر اس تیقن کے ساتھ لکھی گئی ہے کہ خبر میں جو بیان کیا گیا میٹنگ میں بالکل وہی ہوا ہے. خبر میں بتایا گیا ہے کہ نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے میٹنگ میں موجود “افراد” نے جو اطلاعات دیں خبر میں انہی کو بیان کیا گیا اور جن افراد کا زکر آیا ان میں سے کسی نے بھی اپنے سے منسوب بیانات کی تصدیق نہیں کی.

وزیرِ اعظم, چیف منسٹر, وزیرِ خارجہ, مشیرِ سلامتی اور ڈائریکٹر اثاثہ جات کے بیانات کو رپورٹ کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا. اب صرف نوازنے والے فریق کے چند ارکان ایسے بچتے ہیں جن کی اطلاعات خبر کی بنیاد بن سکتی ہیں. اگر خبر انہوں نے لیک کی ہے تو بہت دیر میں کی اور اگر خبر کی تصدیق میں اتنا وقت لگا تو یہ کافی زیادہ ہے. اگر خود نوازنے والوں نے پترکار کو قربانی کا بکرا بنایا ہے تو یہ غضبناک دھوکہ اور بہت بڑا قلم کلاکاری رسک ہے. متاثرہ پترکار کے لیے یہ ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے. اس دھوکہ دہی پر نوازنے والے اب اپنی خیر منائیں! اب پتر کار ان کے خلاف پتہ نہیں کیا کیا لیک کرے گا. فی الحال قیاس آرائیاں کرنے والے ٹھنڈے ہو جائیں کہ پترکار کو خبر لیک کر کے اسے خبر چھاپنے پر کنٹرول لسٹ میں ڈال دینا صرف ٹمبکٹو میں ہوتا ہے. کیونکہ, یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے, یہ بڑے نصیب کی بات ہے!

وزارتِ اندرونی معاملات جس نے پترکار کا نام کنٹرول لسٹ میں شامل کیا اس کے وزیرِ باتدبیر کو لشکارے مارتے سیاہ بوٹ کتنے پسند ہیں اور ان بوٹوں کی پالش کی مہکتی خوشبو کی چاہت میں نوازنے والے سے اس کی سرد جنگ کیسی ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے. پھر خبر کے بعد یہ اطلاعات بھی فضا میں مہک رہی ہیں کہ ڈائریکٹر اثاثہ جات کو وقت سے پہلے عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے. ظاہر ہے وزارتِ اثاثہ جات کے وزیر قومی اطلاعات نے اس کی فورا تردید کردی ہے.

حقانیت پر مبنی اثاثوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر گورا صاحب کی برہمی نئی بات نہیں. وہ اثاثہ جات کی مرکزی کونسل پر ڈبل کراسنگ کا الزام بھی لگاتا رہا ہے. سنا ہے چینی گڈا بھی ہمارے اثاثوں کی ویڈیو دکھا کر کہہ رہا ہے کہ جناب ہم 46 ارب اشرفیوں کے بعد اب 5 ارب اشرفیاں مزید دے رہے ہیں اور آپ ہمارے علاقوں میں پٹاخے پھوڑنے والے اثاثے بھیج رہے ہیں! ہم نے باریش اثاثوں پر عالمی ٹھپہ اپنی طاقت سے روک دیا ہے لیکن آپ دانت نہ نکوسیں. ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان باریش اثاثوں کا معاملہ اندرونِ خانہ نمٹائیں.

نوازنے والے کل کی جاتے آج جائیں ہماری بلا سے لیکن ملت کے سیاسی فنکاروں کے تماشوں کو صحافت کا سوپ اوپیرا بنا دینے والے پترکاروں سے التماس ہے کہ اپنے سیریل کی اس اگلی قسط کو بھی مدنظر رکھیں جس میں تحریکِ پاؤ چھٹانک اور ممکنہ طور پر تاجر پادری جس کے پیچھے تحریکِ پاؤ چھٹانک کی اے ٹی ایم مشین بریف کیس لیے گھوم رہی ہے وہ اثاثے والوں کی شہہ پر نوازنے والوں کا دھڑن تختہ کرنے کی ایک “غیر جمہوری” سازش کرنے والے ہیں. ایسا نہ ہو آپ کی یہ قلمی گل کاریاں مرکزی کردار, شریفے, کی حادثاتی ہلاکت میں معاون ثابت ہوں. اثاثہ جاتی مالکوں کے اعمال پر زرا سی آنچ کو بھی پھونکیں مار مار کر بجھا دینے والے قلمی کلاکار اس خبر پر کیوں اتنا لہک اور چہک رہے ہیں!

ارے بھائی! غلط کیا جو کنٹرول لسٹ میں پتر کار کا نام چڑھا دیا. قابلِ مذمت عمل ہے. لیکن خدانخواستہ ہزارہ عورتوں یا شیعہ افراد کی طرح قبر میں یا واحد بلوچ کی طرح گمنام مقام پر تھوڑی پہنچا دیا ہے جو اتنا شوروغوغا ہے. حق بات تو یہ ہے کہ جتنا اور جس گھن گھرج سے نوازنے والی حکومت کے خلاف قلمی گل کاریاں کی ہیں اب زرا اسی قدر اثاثہ جات والوں سے بھی پہنجہ آزمائی ہو جائے تو بات ہے. ہے ہمت؟ قلم کاری کی بے باکی اور زورِ قلم زندہ ہے اور ٹھڈے مونچڑے کھانے سے ڈر نہیں لگتا تو پوچھیے کہ بھئی کیا ماجرا ہے کہ اثاثے ٹھکانے لگانے کی بات ہو رہی ہے؟ یہ ہو کیا رہا ہے؟ دیر و حرم میں ہمیں ذلیل و خوار کرنے والے اور گھر میں خوف و دہشت میں مبتلا کرنے والے آپ ہوتے کون ہیں؟ اپنے اثاثوں کی صفائی ستھرائی کیوں نہیں کرتے؟ ان کی گندگی سے ہزاروں بچوں, بوڑھوں, جوانوں کا دم گھٹ گیا ہے. جمہوریت کو بچہ جمہورا سمجھ کے کوٹنا بہت آسان ہے. ڈنڈے اور لوہے کے سامنے قلم کاری کی کاٹ چلے تو پتہ چلے کہ واقعی دھار باقی ہے یا کند ہوئی.

Advertisements
julia rana solicitors

خیر مدعا یہ تھا کہ پاکستان غربت میں سرفہرست ملکوں میں ٹاپ رینکنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے. 60 فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے ہیں. ہزاروں کی تعداد میں بچے کچرے کے ڈھیروں کی نعمت پر زندہ ہیں اور ہزاروں بیماریوں سے مر رہے ہیں. انفرادی ہلڑ بازیوں سے فرصت نکال کر ان بنیادی مسائل پر قلم کاری کا مشترکہ اتحادِ عمل دکھا دیں. کبھی ان پر بھی یونہی مل بیٹھو.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply