میری سات سالہ بیٹی کے معصوم سوال اکثر مجھے لاجواب کر دیتے ہیں کہ بہت سوچ بچار کے بعد بھی میرے دماغ کے کسی گوشے سے کوئی ایسا جواب نہیں مل پاتا جو اس کی متجسس سوچ کو مطمئن کر سکے۔
آج صبح یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھتے ہوئے وہ رُکی اور اپنے مخصوص انداز میں میرے پاس آ کر بولی :-
ماما، سِکھ بُرے ہوتے ہیں؟
نہیں بیٹا۔۔ سِکھ بُرے نہیں ہوتے۔
جیوز ؟
نہیں۔۔ ہرگز نہیں
کرسچنز ؟
نہیں بیٹا جانی، سب ربّ کے بندے ہیں. سب اچھے ہوتے ہیں.
تو مم جان، پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا؟
اس سوال نے مجھے ششدر کر دیا۔۔ اس ننھے دماغ کے ایک بڑے سوال کا جواب اپنی دانست میں دے تو دیا مگر بیٹی کی آنکھوں میں بے یقینی کی سی کیفیت مجھے بے چین کئے ہوئے ہے۔
ہمیں ہمیشہ یہی بتایا، سمجھایا اور پڑھایا گیا ہے کہ غیر مذاہب کے لوگ ہمارے دشمن ہیں جو ہمارے خلاف سازشوں کے جال بُنتے رہتے ہیں ۔ آخرت میں جنت صرف ہمارے لئے ہے کہ ہم سب سے ارفع و اعلیٰ ہیں اور باقی رہ گئے کفّار، تو وہ جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے ۔
بیٹی کا یہ سوال سن کر مجھے چند برس قبل ایک غیر مسلم دوست کے ساتھ اپنی گفتگو یاد آنے لگی۔
موضوع یہی کہ مغربی اقوام کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں..
میرے اضطراب کو دیکھتے ہوئے جب اس نے مختلف حوالوں سے بتایا کہ ہماری تاریخ کیا ہے تو میرے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔
غزوہ احد میں اپنی جگہ کس نے چھوڑی ؟ تین خلفاء راشدین کی شہادت کا سبب کیا تھا؟ جنگ جمل میں متحارب فریق کون تھے ؟ کربلا میں نواسۂ رسول کی شہادت کا ذمہ دار کون تھا ؟؟ حجاج بن یوسف نے مکہ پر حملہ کیوں کیا ؟ شریف مکہ عثمانی سلطنت کے خلاف کیوں برسرِ پیکار رہے ؟ مسجد الحرام پر قبضہ کرکے سینکڑوں افراد کو گولیوں سے بھوننے والے کون لوگ تھے ؟؟ موجودہ دور میں پاکستان، افغانستان، لیبیا، شام عراق اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے کوئی غیر مسلم ہیں ؟ کیا وہ آپ ہی طرح کے کلمہ گو مسلمان نہیں تھے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو پھر غیر مسلموں سے شکوہ کیسا ؟؟ تب بھی میرے پاس سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں تھا۔
وقت کا پہیہ تیزی سے چلتا ہے۔ ہفتے ، مہینے، سال، دہائیاں اور صدیاں۔۔ وہ جنہیں ہم کمتر اور ادنیٰ گردانتے چلے آ رہے ہیں ،ان کا شمار اب مہذب اور ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا ہے۔ مگر ہم وہیں نقطۂ آغاز پر کھڑے حیرت سے ان لوگوں کو خود سے کہیں آگے بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔
ہمارا دین جو ہمیں روشن خیالی اور برداشت کا درس دیتا ہے اس کی تعلیمات کا عکس ہمارے اعمال اور معاملات میں کیوں نہیں دکھائی دیتا؟؟
علاقائی ثقافت، اپنے بزرگوں کے اعتقادات اور کہیں صرف رسوم و عبادات کو ہی مکمل دین سمجھ کر انسان کے آپسی معاملات کو مکمل نظر انداز کیے ہوئے ہیں، اپنی تنگ نظری کو پورے یقین کے ساتھ دوسروں پر مسلط کرنے کو ہی مذہب کی خدمت سمجھتے ہیں، نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس یقین پر بھی قائم ہیں کہ اس سب کا اَجر ہمیں روز آخر اس خیالی جنّت کی شکل میں ملے گا جس میں داخلے کی اولین شرط مرنا ہے۔ یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اس کارگاہِ عمل میں پستی اور ناکامی ہمارا ہی مقدر کیوں ؟؟
حدیث قدسی ہے کہ بہترین مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (ترمذی ۲۶۲۷)
میں کم علم بڑے حوالوں سے تحریر کو بوجھل نہیں بنانا چاہتی مگر کیا میں بذاتِ خود مسلمان کی اس بنیادی تعریف پر پوری اترتی ہوں ؟
بیٹی کا سوال اَب بھی میرے دماغ میں گونج رہا ہے۔ اگر نواسۂِ رسول صلعم کو شہید کرنے والے نام نہاد مسلمان تھے تو ہم ماتھوں پر محراب سجائے، ، حُبِ رسول (صلعم) کے دعوے میں ہمہ وقت مرنے اور مارنے کیلئے تیار، شعارِ اسلام کی حرمت پر فدا ہونے کو تیار مگر عملاً اپنے معاملات میں انتہا کے بددیانت، قول میں جھوٹے، غیبت، بہتان تراشی، دھوکے بازی میں طاق، الغرض کونسی سماجی برائی ہے جو بدرجہ اتم موجود نہیں۔
ہم آخر ہیں کون ؟
Facebook Comments