عبداللہ سے امان اللہ تک کا سفر/سلیم زمان خان

(انسان کے خدا بننے کی داستان)

“مشہور کامیڈین امان اللہ کی تدفین پر ناخوشگوار واقعہ پر لکھا گیا ایک مضمون”

ان کا نام سید عبداللہ شاہ تھا۔وہ ایک باشرع ، متصوف اور سید مولوی کے گھر پیدا ہوئے۔  ابتدائی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی، پھر عربی اور فارسی میں اس دور کی اعلیٰ  سند لی، قرآن فقہ حدیث کے علوم میں اپنے وقت کے بہترین علما  اور شیخین سے حصول علم کیا۔ علم منطق اور شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کی تعلیم حاصل کی، لیکن جب یہ راز کھلا کہ علوم دل کا تالاب نہیں بھر سکتے ،جب تک دل کے تالاب میں ہی معرفت کا چشمہ نہ پھوٹے۔ وہ ان تمام نالیوں کو سرشار کر سکتا ہے جو باہر سے علم کا پانی لاتی ہیں۔ اس دوران انہوں نے  اپنے علاقے کے پورے ضلع کی ہر مسجد کی دیکھ بھال اور آبادی اپنے ذمہ لیے رکھی  اور جب کیفیت یہ ہوئی کہ علموں بس کر یار۔ ۔۔ اک الف مینوں درکار! تو سر داڑھی اور بھوئیں منڈوا دی ، ان کے خاندان کا پورا علاقہ اس لئے عزت کرتا تھا کہ سادات اور متقی گھرانہ تھا، تو اپنے اس بھرم کو توڑنے کے لئے اپنا حلیہ ملنگوں جیسا کرلیا، ناچنے گانے والوں کے ساتھ رہنے لگے۔ اور اپنے نام سے ہر سابقہ لاحقہ ہٹا کر صرف بلھا یا بلھے شاہ کہلوانا شروع کیا۔۔ کیونکہ اس وقت نچلی ذات کے لوگوں کا نام بگاڑ کر بلایا جاتا تھا۔  ان کی ایسی حرکات کو دیکھتے ہوئے اس دور کے خداؤں نے ان کے مرنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا اور ساتھ   یہ فیصلہ کیا کہ ان کاتعلق چونکہ بھانڈ مراثیوں کے ساتھ تھا لہذا ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔  ان کی جسم مبارک کو کہا گیا کہ کوڑے دان میں ڈال دیا جائے، ان کے چاہنے والوں نے بادل نخواستہ انہیں اسی روڑی پر دفنا دیا۔  آج لوگ پیسے خرچ کر کے اسی جگہ دفن ہونے کی خواہش کرتے ہیں۔

لیکن آسمان نے ان کی وفات کے ڈھائی سو سال کے بعد اکیسویں صدی میں شاید یہی منظر پھر دیکھا ۔ جب ایک مسکین سا شخض جس نے تمام عمر لوگوں کو ہنسایا، اس رزق سے نا جانے کتنے گھروں کا پردہ رکھے رہا، کتنی بیٹیوں کا جہیز خفیہ طور پر دیا اور پردے سے رخصت کیا۔  کتنے سید اور پکے مسلمانوں کو زندگی کے کٹھن معاملات میں اپنے اسی میراثی پن کے پیسوں سے سنبھالا دیا۔۔ جب مرا تو اس کے علاقے کے مولوی اور حاجیوں نے یہ فتویٰ  دیا کہ میراثی ہمارے قبرستان میں دفن نہیں  ہو سکتا۔اس کو اس ملک اور لوگوں کی خدمت کا اجر اُسے بھانڈ میراثی کہہ کر دیا گیا  اور قبر کی کھدائی روک دی گئی۔  حکومتی اہلکار بیچ میں پڑے اور اس کی قبر ہم عزاداروں کے قبرستان میں بن سکی اور وہ منکسر المزاج مسکین میراثی کو آخری آرام گاہ ملی ۔ جی بالکل میں بات کر رہا ہوں ہمارے ملک کا معروف نام کامیڈی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ امان اللہ کی ۔

لاہور اور قصور کے مختصر سفر اور عبداللہ شاہ سے امان اللہ تک کے تین سو سال میں ہم انسان  بنے کے سفر میں یقیناً بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔ ہمیں انسانیت کی تکمیل کا مشن پورا کرنے کے لئے امت وسطی بنایا گیا تھا ۔مگر ہم اپنی حرام کی کمائیوں کی عبادات سے خدا بن کر فیصلے کرنے لگ پڑے ہیں۔

مجھے یقین ہے، امان اللہ کا مزار بھی لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ کیونکہ آسمان میں ان کو خوش آمدید یقیناً بابا بلھے شاہ نے کیا ہو گا۔ اور اللہ کریم نے اس بات پر ضرور غیرت کھائی ہوگی ۔ کہ یہ میرے بنائے بندے گندے کب سے یہ فیصلہ کرنے والے ہو گئے کہ کون اچھا اور کون میراثی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنا ہے وہاں محفل لگتی ہے اور امان اللہ بابا بلھے شاہ کو ناچ کر دکھاتا ہے   اور خوب مزے لوٹ رہا ہے،مرنے کے بعد مسلمانوں کی بستی کی اس عزت افزائی پر اسے وہاں اس کے رحیم رب نے اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لیا ہے ۔
ارے لوگو تمہارا کیا، میں جانوں میرا خدا جانے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply