سیلاب ہی تو ہمارے خواب ہیں ۔۔ظفر اقبال وٹو

موسم کے سارے اشاریے اس سال کے نصف اوّل میں دہائیوں کی بدترین خشک سالی کے باوجود اب ایک غضب ناک مون سون کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ اور ہماری کانپیں ابھی سے ٹانگنا شروع ہو گئی ہیں۔ وزیر موسمیات نے بارش کے، ممکنہ تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر آفتوں سے نمٹنے والے اداروں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ اسے دفاعی حکمت عملی کہتے ہیں یعنی “جاگتے رہنا۔ ساڈے تے نہ رہنا”۔

کسی بھی کھیل کا کھلاڑی جب جیت کے لئے پُرعزم ہو کر میدان میں اُترتا ہے، تو کسی نہ کسی دن جیت اس کا مقدر ضرور بنتی ہے۔ نہ بھی جیتے تو دیکھنے والے ایک اچھے مقابلے کی داد ضرور دیتے ہیں۔ تاہم اگر کوئی کھلاڑی میدان میں ہار سے بچنے کا خوف لے کر اترتا ہے تو وہ میچ سے پہلے ہی آدھا میچ ہار چکا ہوتا ہے۔ چونکہ وزیر موصوفہ ابھی سے بارش کو تباہ کن کہنا شروع ہو گئی ہیں، تو آپ کو ہمارے اداروں میں بیٹھے افراد کی دفاعی حکمت عملی آسانی سے سمجھ آگئی ہو گی۔

پاکستان میں 2010 کے سپر فلڈ کے بعد قومی اور صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز بنائی گئیں۔ جس کے ساتھ ہی واضح ہوگیا کہ ہم نے سیلاب کو تباہی و بربادی پیدا کرنے والی ایک آفت سمجھ کر نمٹنا ہے نہ کہ اسے اک نعمت اور پانی کی لا محدود مقدار کو ذخیرہ کرنے کا موقع  سمجھ کر۔ کاش کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ” فلڈ اپر چیونٹی ہارنسنگ اتھارٹیز ” (سیلابی موقع کے استعمال کے ادارے) بنا لیتے۔

پاکستان میں بڑے سیلاب کچھ سالوں کے وقفے سے آتے رہتے ہیں۔ وفاقی سیلابی ادارے (فیڈرل فلڈ کمیشن) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اب تک بیس سے زیادہ بڑے سیلاب آ چُکے ہیں۔ یعنی ہر تیسرے یا چوتھے سال کے بعد ایک سیلاب۔ سیلاب کو باقاعدہ طور پر ایک آفت 2010 کے سپر فلڈ کے بعد قرار دیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے تک 19 سیلاب آچُکے تھے۔ صرف اس ایک بد ترین سیلاب میں 2 کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوئی اور 20 لاکھ پاکستانی بے گھر ہوئے اور صرف ایک سال میں پاکستانی معیشت کو 10 ارب ڈالر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

اس سیلاب کے بعد ہم دنیا جہان سے قرض لے کر پورے ملک میں دریاؤں کے کنارے سیلابی بند بنانے پر جت گئے جس سے سیلاب کی شدت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ پورا زور مٹی پتھر سے دریاؤں کے سیلابی میدانوں کو بھرنے پر لگا دیا گیا۔ سارا فوکس سیلابی پانی کو پھیلنے سے روکنے پر تھا۔ حالانکہ انہی پیسوں سے اس پانی کو بنجر اور بارانی زمینوں کی طرف موڑ کر پھیلا دینے کا نظام بنا دیا جاتا تو سیلابی بند بنانے کی ضرورت کم ہو جاتی کیونکہ سیلابوں کا زور ٹوٹ جاتا۔

پاکستان میں آنے والے سیلابی پیٹرن کو دیکھا جائے۔ تو اس میں بھی مالک نے عقل والوں کے لئے نشانیاں رکھ دی ہیں۔ لیکن ہم ہیں کہ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہر سیلاب کے بعد ہمیں دوچار سال سوچنے سمجھنے اور کچھ حرکت کرنے کے لئے ملتے ہیں۔ پاکستان میں دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم اور اس پانی کو نہروں میں موڑ کر آب پاشی کے لئے بیراج بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ایک دریا میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے دوسرے دریا سے لنک کینال یا رابطہ نہریں بنائی گئی ہیں۔

تاہم یہ سارا نہری نیٹ ورک دریاؤں میں سیلاب گزرنے کی صورت میں بالکل بند کردیا جاتا ہے، اور بیراجوں کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں۔ ہر بیراج پر کسی طرح اوپر سے آنے والے سیلابی ریلے کو بحفاظت نیچے کی طرف گزارنے کو ہی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مون سون میں آپ محکمہ موسمیات کی طرف سے کالا باغ، چشمہ، تونسہ، گدو، سکھر بیراج وغیرہ سے گزرنے والے سیلابی ریلے کے بارے میں سنتے رہتے ہوں گے۔ چینلز پر اس ریلے کے بارے میں ٹکرز ایسے چل رہے ہوتے ہیں۔ جیسے چنگیز خان کی فوجیں تباہی پھیلاتی آگے بڑھ رہی ہوں۔

ہمارا ملک پانی کی شدید کمی کا شکار دنیا کے چند ایک خاص علاقوں میں شامل ہے اور اتنے زیادہ سیلابی پانی کو بغیر استعمال یا ذخیرہ کئے آبادیوں یا زرعی زمینوں میں تباہی پھیلانے کے لئے کھلا چھوڑ دینا یا سمندر برد کر دینا شرمناک ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ کی تنبیہ کے مطابق 2030ء تک پاکستان میں سالانہ 27لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں، اس وقت ہر سال 7 لاکھ 15 ہزار افراد سیلابی پانی کی بے رحم موجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لئے “سیلابی اری گیشن ” کا نظام صدیوں سے قائم ہے۔ جہاں بپھرے ہوئے ندی نالوں کے راستوں میں چھوٹے بڑے کچے پکے بند لگا کر سیلابی پانی کو ندیوں سے باہر نکال کر بنجر اور بارانی زمینوں پر پھیلا دیا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف سیلابوں کی شدت کم ہوتی ہے۔ بلکہ بنجر زمینیں بھی سیراب ہوتی ہیں اور سیلابی پانی میں موجود مٹی کی تہہ بچھنے سے زمینوں کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اس سیلابی اری گیشن کا بنیادی نکتہ ہی بپھرے ہوئے سیلابی پانی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرکے اسے ناراض کرنے کی بجائے اس کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اس کی مرضی کے روٹ سے نکالنا اور زیادہ سے زیادہ رقبے پر پھیلانا ہوتا ہے۔ یہی طریقہ کار کوہ نمک، کوہ سلیمان اور کیرتھر پہاڑی سلسلے سے آنے والے سیلابی نالوں کے پانی کو استعمال کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ڈیرہ جات میں تو رود کوہی کا پورا نظام آب پاشی رائج ہے۔

تاہم قومی سطح پر سیلابی پانی کو استعمال کرنے کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے۔ اور بڑے دریاؤں کے سیلابی پانی کو اچھوت سمجھ کر اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کو ہی غنیمت سمجھا جاتا ہے، یا اس کی راہ میں رکاوٹیں بنا کر اس کو اور غضب ناک کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے سیلابی پانی سے متاثرہ علاقے کے نقشے کو دیکھا جائے تو خود بخود ہی ان نشیبی علاقوں کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔

جہاں سیلابی پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ جس مقصد کے لئے کو ئی بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت بالکل نہیں ہو گی بلکہ دریا کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ دسیوں ہزاروں کی تعداد میں بغلی تالاب (آف لائن اسٹوریجز) بنائے جاسکتے ہیں۔ جو سیلاب کے دنوں میں قدرتی طور پر بھر جائیں گے۔ یہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ سیلابوں کی شدت کو بھی بہت کم کردیں گے۔

دوسرا آپشن دریاؤں پر موجود بیراجوں کو استعمال کرتے ہوئے سیلابی پانی کو بارانی علاقوں میں پھیلانے کا نظام بنانا ہے۔ جس کے لئے ان موجود بیراجوں سے سیلابی نہریں نکالی جاسکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں ان سیلابی نہروں کی گنجائش اور ضرورت کی جگہیں کچھ اس طرح ہیں۔

1۔ تربیلا ڈیم کے اسپل وے سے خارج ہونے والا پانی غازی بیراج سے روک کر بہت سے سیلابی راستوں کے ذریعے پوٹوھار کے علاقوں خصوصا دریائے سواں اور دریائے سل کے علاقوں میں پہنچایا اور پھیلایا جاسکتا ہے۔ پنڈی گھپ تحصیل اور خصوصا تراپ کے علاقے میں تو تربیلا کے اسپل وے سے بہنے والے سیلابی پانی کا بہت بڑا حصہ ڈیم بنا کر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔

جس سے دریائے سندھ کی سیلابی کیفیت بہت حد تک کم ہو جائے گی۔ تربیلا سے اسپل ہونے والے پانی کو لانے والے یہ سیلابی راستے مون سون کے علاوہ باقی دنوں میں خشک ہوں گے اور انہیں آمدورفت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، یا پھر ان پر ایک بارانی فصل آرام سے لی جا سکتی ہے۔ کیونکہ سیلابی پانی کی نمی ان راستوں میں دیر تک رکے گی۔

2- تربیلا سے نیچے دریائے کابل اور دیگر علاقوں سے دریائے سندھ میں آنے والے سیلابی پانی کو چشمہ بیراج کے بائیں طرف سے سیلابی نہروں کے ذریعے صحرائے تھل کے سارے علاقے میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح منگلا ڈیم سے نکلنے والے سیلابی ریلے کو جھنگ کے قریب تریموں بیراج کے دائیں طرف سےسیلابی نہروں اور راستوں کے ذریعے صحرائے تھل کے اوپر پھیلایا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

3-پنجند بیراج کے بائیں کنارے پر سیلابی نہریں بنا کر سیلابی پانی لوئر چولستان کے صحرا میں پھینکا جا سکتا ہے۔ جب کہ دریائے سندھ کا سیلابی پانی گدو اور سکھر بیراج کے بائیں کنارے پر سیلابی نہریں بنا کر صحرائے تھر میں پہنچایا اور پھیلایا جاسکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply