فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ؟۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط4

(فلیٹ ارتھرز کے 200 اعتراضات کے جوابات پر مبنی سیریز)
اعتراض42: برطانوی بحری جہاز “Challenger” نےانٹارکٹکا (زمین کے south pole پر موجود برف پر مشتمل براعظم)کا چکر لگایا جو کہ69 ہزار میل نوٹ کیا گیا ، یہ چکر زمین کے circumference25 ہزار میل سے بھی زیادہ ہے ! سو ثابت ہوا کہ زمین سیدھی ہے۔
جواب: ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انٹارکٹکا کے گرد کی جانے والی مہم جوئیوں میں انٹارکٹا کا چکر بالکل اس کی coastline کے ساتھ نہیں لگایا گیا، انٹارکٹکا کی coastline تقریباً 11 ہزار میل ہے ، انٹارکٹکا کے گرد کی جانے والی بیشتر مہم جوئیوں کا نقشہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اس کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ چکر مکمل گول نہیں تھا بلکہ مُہم جُو کبھی انٹارکٹکا کے پاس جاتے تھے کبھی قریب موجود نیوزی لینڈ کے ساحل پر لنگر انداز ہوتے، لہٰذا خود سوچنا چاہیے کہ ایسے سفر کو کیسے بطور دلیل پیش کیا جاسکتا ہے ؟
اعتراض43: چلی سے سڈنی تک پہنچنے کے لئے اگر انٹارکٹکا کے اوپر سے جایا جائے تو سفر انتہائی مختصر ہوجائے گامگر جہاز انٹارکٹکا کے اوپر سے نہیں گزرتے کہ وہاں بہت سردی ہے، یہ سردی صرف بہانہ ہے دراصل زمین سیدھی ہے اور انٹارکٹکا سے آگے لامتناہی سمندر ہے اس وجہ سے جہاز انٹارکٹکا کے اوپر سے نہیں گزرتے!
جواب: چلی سے سڈنی تک کا سب سے کم فاصلہ نیوزی لینڈ سے ہوتا گزرتا ہے، لہٰذا یہ اعتراض جھوٹ پر مبنی ہے۔
اعتراض44: چلی سے سڈنی جانے والی زیادہ تر فلائٹس بجائے جنوبی کُرہ  کی طرف جانے کے شمالی کُرہ کا چکر لگا کر جاتی ہیں جو گول زمین کے لحاظ سے لمبا رستہ ہے لیکن فلیٹ ارتھ نقشے کے  مطابق چھوٹا راستہ ہے۔
جواب: چلی سے اڑنے والی بیشتر فلائٹس دیگر ممالک کی ہوتی ہیں لہٰذا وہ ایسا روٹ استعمال کرتی ہیں کہ راستے میں ان کا ملک بھی آئے ، جس کی وجہ سے دوسرے ممالک جانے والے افراد بھی اس فلائٹ کا حصہ بن جاتے ہیں اورکمپنی کو زیادہ منافع ہوتاہے، لیکن چلی اور آسٹریلیا کی سرکاری یا directفلائٹس جنوبی کُرہ ہی استعمال کرتی ہیں ۔اس میں کوئی بات فلیٹ ارتھ کوثابت نہیں کرتی ۔
اعتراض 45: جوہانسبرگ سے پرتھ جانے والی فلائٹس دبئی کے راستے سے کیوں ہوتی جاتی ہیں جبکہ وہ سیدھی بھی جاسکتی ہیں۔
جواب: کمرشل فلائٹس ہمیشہ وہ رُوٹ اپناتی ہیں جس کے تحت انہیں زیادہ فائدہ ہورہا ہو ، یہ کہنا غلط ہوگا کہ جوہانسبرگ سے پرتھ جانے کے لئے آپ کو دبئی  رُکنا پڑتا ہے، بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جوہانسبرگ سے دُبئی ایک الگ فلائٹ ہے جہاں دُبئی جانے والے مسافروں کو اتارا جاتا ہےاور دُبئی سے پرتھ ایک الگ فلائٹ ہے، اسی طرح مدینہ منورہ جانے والی اکثر فلائٹس اسلام آباد سے مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے 2 یا 3 جگہوں پر سٹے کرتی ہیں ، بہرحال جوہانسبرگ سے پرتھ direct فلائٹس بھی جاتی ہیں لہٰذا کمرشل فلائٹس کے رُوٹس کو دیکھ کر فلیٹ ارتھ کو ثابت کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اعتراض 46: جنوبی امریکہ سے جنوبی افریقہ جانے والی زیادہ تر فلائٹس پہلے شمالی کُرہ میں جاتی ہیں پھر جنوبی افریقہ جاتی ہیں۔
جواب: اعتراض 44 اور 45 میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ کمرشل فلائٹس کو مسافروں کے لحاظ سے جو رُوٹ فائدہ مند لگتا وہی استعمال کیا جاتا، بہرحال جنوبی امریکہ سے جنوبی افریقہ direct فلائٹس بھی جاتی ہیں۔
اعتراض 47: برازیل سے ساؤتھ افریقہ کا راستہ سیدھا سا ہے مگر فلائٹ سیدھے راستے سے ہٹ کر لندن اترتی ہے فیول بھرنے کے لئے، یہ اسی خاطر ہے کیونکہ زمین چپٹی ہے۔
جواب: برازیل سے ساؤتھ افریقہ تک direct فلائٹس جاتی ہیں، اگر کوئی فلائٹ لندن کا رُخ کرتی تو دراصل مسافروں کو اتارنے کےلئے کرتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2010ء میں فیفا ورلڈ کپ ساؤتھ افریقہ میں ہوا تھا اس وقت ساؤتھ افریقہ سے برازیل تک براہ راست پروازیں بہت زیادہ چلائی گئیں کیونکہ جنوبی افریقہ سفر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہےکہ کمرشل ائیرلائنز ایسا رُوٹ ترتیب دیتیں ہیں جو اُس موقع کی مناسبت سے  زیادہ منافع بخش ہو۔
اعتراض48: چلی سے جوہانسبرگ جانے والی فلائٹس کو جنوبی کُرہ استعمال کرنا چاہیے ، لیکن شمالی کُرہ سے ہوتے گزرتی ہیں۔
جواب: شمالی کُرہ میں ممالک بہت زیادہ تعداد میں ہیں اس کے علاوہ شمالی کُرہ میں امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی تعداد بھی جنوبی کُرہ سے بہت زیادہ ہے، لہٰذا شمالی کُرہ کے مسافر بھی زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اعتراض44 سے48 تک کا ایک جائزہ لے لیجئے۔
اعتراض49: اگر واقعی زمین گردش کرتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صحارا (افریقہ) میں شدید گرمی پڑ رہی ہو اور اس سے 4 ہزار میل دُور انٹارکٹکا میں شدید ٹھنڈ پڑرہی ہو۔ سورج انٹارکٹکا کو نظرانداز کیوں کردیتا ہے؟
جواب: انٹارکٹکا زمین کے جنوبی قطب پر واقع ہے ، فلیٹ ارتھرز جب زمین کو چپٹی سمجھ کر تمام جگہوں کو ایک ہی پیراہے میں تولتے ہیں تو ایسی کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ انٹارکٹکا زمین کے کناروں (پولز) پر واقع ہے اور پولز پرسورج کی شعاعیں ترچھی پڑتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے شام کے وقت سورج کی شعاعیں ترچھی پڑ تی ہیں سو سردی ہوجاتی ہے، لہٰذا یہ اعتراض عجیب نوعیت کا ہے جس کا مشاہدہ روزانہ ہونے کے باوجود فلیٹ ارتھرز حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔
اعتراض 50: قطب شمالی و قطب جنوبی  جب دونوں گول زمین کے کناروں پر واقع ہیں تو ان دونوں کے موسموں میں اتنا فرق کیوں ہے؟
جواب: چونکہ ہماری زمین اپنے مدار میں 23.5 ڈگری جھکی ہوئی ہے لہٰذا گردش کے دوران چھ مہینے سورج کے سامنے زمین کا شمالیhemisphereہوتا ہے اور چھ مہینے جنوبی hemisphere،جس کے باعث دونوں پولز (poles) پر یکساں درجہ حرارت نہیں رہ سکتا۔گوگل پر tilt of earth and season لکھ کر سرچ کرنے سے اس متعلق کافی تفصیل باآسانی مل سکتی ہے۔
اعتراض 51: آرکٹک اور انٹارکٹکا دونوں زمین کے پولز پر واقع ہیں پھر آرکٹک میں انٹارکٹکا کی نسبت کم سردی کیوں پڑتی ہے؟
جواب : دونوں کے درجہ حرارت میں فرق کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ہمیں معلوم ہے کہ پانی کی نسبت زمین زیادہ جلدی ٹھنڈی ہوجاتی ہے، انٹارکٹکا خشکی پر واقع ہے جبکہ آرکٹک پانی پر واقع ہے، اسی خاطر سردیوں میں آرکٹک میں منفی 40 ڈگری جبکہ انٹارکٹکا میں منفی 80ڈگری تک درجہ حرارت رہتا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی قطب میں زیادہ ٹھنڈ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انٹارکٹکا میں ہواؤں کی رفتار زیادہ تیز ہوتی ہے جبکہ آرکٹک میں زیادہ تیز ہوائیں نہیں ہوتیں ۔
اعتراض52: شمالی قطب میں مختلف اقسام کی زندگیاں آباد ہیں جبکہ جنوبی قطب بے آباد  ہے اتنا فرق کیوں؟
جواب: ہم نے اعتراض 51 میں سمجھا کہ آرکٹک چونکہ سمندر پر واقع ہے سو یہ انٹارکٹکا کی نسبت کم ٹھنڈا ہے، اسی وجہ سے اس کےآس پاس ممالک میں ٹھنڈ کم ہوتی ہے اور زندگی چلتی رہتی ہےجبکہ انٹارکٹکا خشکی پر مشتمل ہے لہٰذا یہاں زیادہ ٹھنڈ کے باعث اس کے صرف 1 فیصد علاقے میں ہی زندگی آباد ہے۔
اعتراض53: خط استواء سے اوپر اور نیچے ایک جیسے latitude پر موجود علاقوں کا موازنہ کیا جائے تو ان کا سب سے لمبا اور سب سے چھوٹا دن مختلف گھنٹوں کا ہوتا ہے ۔ اگر زمین گول ہوتی تو ایک جیسے latitude پر موجود علاقوں کے بڑے اور چھوٹے دنوں  کی length ایک جیسی ہونی چاہیے تھی۔
جواب: اس اعتراض سے معلوم ہوتا ہےکہ فلیٹ ارتھرز کسی قسم کی تحقیق کرنا پسند نہیں کرتے۔  اگر تھوڑی سی تحقیق کرلی جائے تو معلوم ہوگا کہ 21 دسمبر کو خط استواء کے شمال میں 30 ڈگری پر موجود علاقوں میں دن 10 گھنٹے کا (یعنی سب سے چھوٹا )ہوتاہے جبکہ جنوب میں 30 ڈگری پر موجود علاقوں میں دن 14 گھنٹے کا (یعنی سب سے بڑا) ہوتا ہے، جبکہ 21 جون کو خط استواء کے شمال میں 30 ڈگری پر موجود علاقوں میں دن 14 گھنٹے کا (یعنی سب سے بڑا )ہوتا ہے جبکہ جنوب میں 30 ڈگری پر موجود علاقوں میں دن 10 گھنٹے کا (یعنی سب سے چھوٹا) ہوتا ہےسو ہم خط استواء سے ایک جیسے فاصلے پر موجود علاقوں کے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے دنوں کی lengthکا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ فلیٹ ارتھرز کا یہ اعتراض محض جھوٹ پر مبنی ہے۔
اعتراض54: شمال اور جنوب میں ایک جیسے latitude پر واقع علاقوں میں طلوع و غروب کا فرق کیوں ہوتا ہے؟ اس کے علاوہ شمالی علاقوں  میں سورج کی روشنی زیادہ دیر افق پر رہتی ہے جبکہ جنوبی علاقوں میں جلدی غائب ہوجاتی ہے۔
جواب: فلیٹ ارتھرز کا پہلا دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہےجبکہ دوسرے دعوے میں اگر تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خط استواء کے قریب علاقوں میں افق پر روشنی جلدی غائب ہوجاتی ہے جبکہ خط استواء سے دُور علاقوں میں دیر تک روشنی بہرحال رہتی ہے۔
اعتراض 55: فلیٹ ارتھ ماڈل میں سورج کا جلیبی نما مدار دیکھا جائے تو صاف واضح ہوتا ہےکہ آرکٹک ، انٹارکٹکا کی نسبت کم ٹھنڈا کیوں ہے۔
جواب: فلیٹ ارتھرز بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنے خیالی ماڈل  کو عوام الناس  پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کا جواب ہم نے بخوبی اعتراض 51 میں سمجھ لیا ہے۔
اعتراض 56: آرکٹک میں گرمیوں کے دوران سورج آدھی رات کو بھی نکلا رہتا ہے، کئی بار تین تین دن سورج غروب نہیں ہوتا ، 89 ڈگری عرض بلد (latitude) سے نیچے موجود ممالک میں بھی یہ نظارہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے ، اگر زمین واقعی گلوب کی مانند ہوتی تو یہ نظارہ صرف اور صرف قطب (poles) پر ہی دیکھنے کو ملتا۔
جواب: ہمیں معلوم ہے کہ زمین اپنے محور پر 23.5 ڈگری تک جھُکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس متعلق مزید تحقیق گوگل پر  midnight sun لکھ کر کی جاسکتی ہے۔
اعتراض 57: سائنسدانوں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جیسے آرکٹک میں جون جولائی کے دوران آدھی رات کو سورج دیکھا جاسکتا ہے ویسے ہی دسمبر جنوری کے دوران انٹارکٹکا میں آدھی رات کو سورج دیکھا جاسکتا ہے، لیکن حیران کن بات ہے کہ وہاں کسی بھی سیاح کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تا کہ ان کا جھوٹ بے نقاب نہ ہوجائے۔
جواب: افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ فلیٹ ارتھرز اپنے دعوؤں  کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے جاتے ہیں، یہ دعویٰ بھی جھوٹ پر مبنی ہےکہ انٹارکٹکا میں جب آدھی رات کو سورج نکلا ہوتا ہے اس دوران کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ۔Polar cruises سمیت انٹرنیٹ پر کئی ایسی travel agencies ہیں جو آپ  کو آفر کرتی ہیں اور آپ بکنگ کروا کر یہ نظارہ دیکھنے جاسکتے ہیں۔
اعتراض 58: The Royal Belgian Geographical Society ایک مہم کے دوران خط استواء سے 71 ڈگری تک گئے انہوں نے دیکھا کہ وہاں سورج 17مئی سے 21 جولائی تک غروب رہا اور اُفق سے اوپر نہیں آیا جوکہ گول زمین کے ماڈل کے خلاف ہے۔
جواب: خط استواء کے جنوب میں 17مئی سے 21 جولائی کے دوران 66.5 ڈگری سے لے کر 90 ڈگری  تک کے علاقوں میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، اس کے علاوہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ٹیم 71 ڈگری سے بھی آگے انٹارکٹکا میں پھنسی تھی اس خاطر یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔
اعتراض59: Gabrielle Henriet لکھتے ہیں کہ زمین اگر واقعی گلوب ہوتی تو پورا سال دن اور رات کی length ایک جیسی ہوتی، موسم بھی ایک جیسے رہتے، لہٰذا گلوب ارتھ کے ماننے والوں کو اب فلیٹ ارتھ کا یقین کرلینا چاہیے۔
جواب: یہ بات 3 ہزار سال پہلے ہی انسان معلوم کرچکا ہے کہ دنوں کی length میں تبدیلی، موسموں کا آنا جانا دراصل  زمین کے اپنے محور میں جھکاؤ کے باعث ہے ، لہٰذا یہ اعتراض لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں Brahe’s observation اور Kepler’s law of planetary motion کے ذریعے ہم زمین کے جھکاؤ کو ثابت کرسکتے ہیں۔
جاری ہے!
قسط نمبر 3 میں موجود اعتراضات کے جوابات پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://www.mukaalma.com/20499

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”فلیٹ ارتھ حقیقت یا افسانہ؟۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط4

Leave a Reply