• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اداروں کا سیاست میں عمل دخل کیسے ختم ہوگا؟/ڈاکٹر ابرار ماجد

اداروں کا سیاست میں عمل دخل کیسے ختم ہوگا؟/ڈاکٹر ابرار ماجد

سیاست میں اداروں کی دخل اندازی ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ پارلیمان کو مضبوط کیا جائے۔ پارلیمان میں ہونے والے تمام فیصلوں کی بنیاد آئین و قانون اور انصاف کے اصولوں پر ہو۔ پارلیمان کے ممبران اپنے آپ کو حقیقی عوامی خدمتگار سمجھیں اور اپنے منصب کو سمجھتے ہوئے اسے عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کریں۔ پارلیمان کی طاقت کو شہریوں کے اندر مساوات اور قومی خزانے سے مستفید ہونے والوں میں امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔

پارلیمان کو عظیم بنانا پڑے گا۔ پارلیمان کے ممبران کے اندر یہ احساس پیدا کرنا پڑے گا کہ وہ عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے اصل سرچشمہ طاقت عوام کو ان کا حقیقی مکام دلوا کر ہی اپنے فرائض منصبی ادا کرسکتے ہیں۔ ان کے ووٹ کے تقدس کی لاج رکھتے ہوئے اسے خالصتاً جمہوریت کی بنیادوں پر قائم نظام کے سپرد کرنا ہوگا جس میں صرف عوام کی رائے کو فوقیت دی جارہی ہو اور ان کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے جس میں اس نمائندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کی شرائط تعلیم، تجربہ، کردار، اخلاص اور قوم و ملک کی دل میں اہمیت اور اس کی املاک سے ملکیت کا احساس ہو نہ کہ تعلقات، مال و دولت اور ظاہری جاہ و جلال۔ جب عوام کی صحیح خدمت کرکے ان کا اعتماد حاصل ہوجائے گا تو پھر سر چشمہ طاقت عوام اپنی پارلیمان کے پیچھے کھڑی ہوگی اور اپنی ریاست اور اس کی املاک کی حفاظت اور اہمیت کا احساس ان کو مجبور کرے گا کہ آئینی عہدوں پر بیٹھوں کا احتساب اپنا قومی فرض سمجھیں۔

پارلیمان کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ مفاداتی سیاست سے دستبردار ہوکر اصولی سیاست کو فروغ دیا جائے۔ سیاست کوئی کاروبار نہیں خدمت کا شعبہ ہے اور خدمت کے لئے جذبہ، شوق اور مقصد سامنے ہونا چاہیے۔ سیاست کوئی پھولوں کی سیج بھی نہیں پاکستان میں اصولی سیاست اور حکومت کے لئے طاقتوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے تب سول بالادستی آتی ہے جس کے لئے ڈر کو اندر سے نکالنا ہوگا۔ جس دن اصولی سیاسست اور جمہوریت اس ملک میں شروع ہوگی تو زبردستی خدمت کے لئے حکومت میں آنے والے بھاگیں گے اور عوام کو حکومت کے لئے پکڑ پکڑ کراچھے کردار کے لوگ لانے پڑیں گے۔

عوام کا شعور وہ ماحول پیدا کردے گا جس سے ریاستی وسائل کو استعمال کرکے من مانی کرنے، اور مفادات کے حصول کی سوچ رکھنے والوں کی ٹانگیں کانپنا شروع کردیا کریں گی۔ پھر اداروں کی سربراہی ایک ذمہ داری سمجھا جایا کرے گی۔

جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا جس کی بنیاد سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو رائج کرکے رکھنی ہوگی تاکہ سیاسی جماعتیں وہ ادارہ بن سکیں جو میرٹ کی بنیاد پر کارکنان کی تربیت کرکے صحیح قیادت دینے کے قابل بن سکیں۔ جس میں سیاسی جماعتوں کو خاندانوں کی اماج گاہ نہیں بلکہ عوامی سرمایہ سمجھا جاتا ہو۔

تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی اختلافات کو بھلا کر معیشت پراکٹھے بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ اخراجات کو کم کرکے عام شہری کی زندگی کو پارلیمان اور سرکاری دفاتر کے اندر رائج کرنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد حاصل ہو جس سے برکت بھی ہوگی اور اللہ کی مدد بھی۔

کسی ذیلی ادارے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی صفوں سے گندے انڈے باہر اٹھا پھینکنا ہونگے۔ جو سیاستدان غیر آئینی حربوں میں استعمال ہوتے ہیں ان کو واقعی قرار سزا دے کر جمہوریت پر سیاسی شب خون مارنے کے جرم کی پاداش میں ایک عبرت ناک مثال بنانا ہوگا تاکہ سب پر یہ عیاں ہوجائے کہ عوام کی خدمت کا جذبہ ہے تو پھر اس کے لئے آئینی راستہ چننا ہوگا نہ کہ ریاست کے وسائل کے غیر آئینی استعمال کے بلبوتے والا راستہ۔

سیاستدانوں کے لئے ان کی بنیادی خصوصیات کو طے کرنا ہوگا کہ کون کون سی صلاحیتوں کا مالک سیاستدان بن سکتا ہے۔ جس کے لئے پارلیمان کے اندر مثالیں قائم کرنا ہونگی۔ پارلیمان اور کیبنٹ کو ایک مثالی ادارہ بنانا ہوگا۔ حکومتی فیصلے صرف اور صرف پارلیمان میں ہونے کو یقینی بنانا ہوگا۔ کابینہ کو سنجیدہ سیاست و حکومت کی روایات کو ڈالنے کے لئے عملی نمونے پیش کرنا ہونگے۔

کسی بھی حکومتی وزیر، مشیر یا نمائندے کو اہم امور پر پہلے کابینہ میں معاملے کو زیر بحث لا کر اس پر متفقہ موقف کو جاننا ہوگا اور پھر اس پر حکومت کا پالیسی بیان پریس کانفرنس یا عوام کے سامنے لانا ہوگا۔ بولنے سے پہلے پارلیمان کے ممبر کے طور پر اپنے اور اپنے ادارے کے تقدس کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ سیاستدانوں کی کردار کشی کی کی روایات کو ختم کرنا ہوگا۔ جب سیاستدان ہی سیاستدان کی عزت نہیں کرے گا تو پھر کسی اور سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔

فیصلوں کے لئے خود مختار تھنک ٹینک بنانا ہوگا جو ملک کی تقدیر کے فیصلے کرے اور سفارشات کی صورت اپنی ذہنی پیداوار کابینہ کے سامنے رکھے تاکہ دانشمندانہ فیصلے سامنے آئیں اور حکومت اس پر بحث کے بعد مناسب سمجھے توعمل درآمد کو یقینی بنائے۔ اداروں کو پتا ہونا چاہیے کہ جمہوری حکومتیں اجتماعی سوچ کے تحت فیصلے کرتی ہیں تاکہ ان کو یہ باور کروایا جاسکے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ ایک پارلیمانی نظام میں ممکن ہی نہیں۔ چہ جائے کہ “عزت کو ووٹ دو” کے نعرے لگتے رہیں اور جب وقت شہادت آئے تو ہتھیار ڈال کر سب کچھ لٹا دیا جائے۔

ہرریاستی ادارہ ایک ذیلی ادارہ ہوتا ہے اور آئین میں اس کے اختیارات اور ذمہ داریاں واضح بیان کی گئی ہیں اور ان پر عمل درآمد کروانے کی حکومت ذمہ دارہے اور اداروں پر ہونے والے حملوں کی صورت میں ان کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ادارے ہی ریاست کے ہاتھ، پاؤں اور طاقت ہوتے ہیں۔ ان کی عزت و تکریم کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے تب ہی حکومت صحیح معنوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے قابل بنتی ہے۔ اگر ادارے آپس میں لڑ رہے ہوں تو پھر ریاستیں ایک قدم آگے رکھتی ہیں تو دو قدم پیچھے جارہی ہوتی ہیں جو کچھ آج کل ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔

احتساب کا خودمختار نظام متعارف کروا کر ایماندار ہاتھوں کو سونپنے کی ضرورت ہے اور اسی طرح کانسٹی ٹیوشنل کورٹ بھی قائم کی جائے اور ان کے ممبران اور سربراہان بھی ججز کی طرز پر مستقل ہوں نہ کہ سیاسی لوگوں کے فیصلوں کے مرہون منت، جس طرح سے ابھی نیب کے سربراہ کا تقرر ہوتا ہے۔

اداروں کی مضبوطی کے لئے تعمیری سوچوں کو پروان چڑھانے کے لئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تاکہ آمرانہ اور مفادانہ سوچ جہاں پروان چڑھتی ہے وہاں اصلاحات کے زریعے سے تبدیلیاں لا کر ان سوچوں کا سدباب کیا جائے اور وہاں تعمیری سوچ کے زریعے سے ریاستی ترقی میں اپنے اپنے کردار کا جذبہ اور شوق پیدا کیا جاسکے۔ قومی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ اداروں کو اچھے لوگ میسر آئیں۔

آزادی اظہار رائے کو مفادات سے بری کرکے آزادانہ آئینی حدود و قیود کے اندر رہ کر ان کو اپنی آواز بلند کرنے میں آزادی دینا ہوگی تاکہ تعمیری تنقید سے بہتری کی راہیں نکل سکیں۔ ماضی میں ہونے والی قومی بے وقوفیوں کو دہرانے سے باز آنا ہوگا اور اصولی اقدامات سے ضائع کئے ہوئے وقت کی کمی کو پورا کرنا ہوگا۔ میڈیا کو بھی کاروباری لوگوں سے آزاد کروا کر پیشہ ورانہ اچھے کردار کے لوگوں کے سپرد کرنا ہوگا۔

فوج کی سیاست میں مداخلت اپنی ایک داستان رکھتی ہے اور اس کو ختم کرنے کا ایک فطری عمل شروع ہوچکا ہے جس میں آج ہر کوئی ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہا ہے اور اس طرح غیر فطری تعلقات اور گٹھ جوڑ امید ہے حوصلہ شکنیوں کی نظر ہوکر اپنی اصل کی طرف لوٹنا شروع ہوجائیں گے۔ جس طرح سے پچھلے سالوں میں مفادات کے دل نشینوں اور سہولت کاریاں مہیا کرنے والوں کے ساتھ ان کے اپنے ہی کرداروں نے سلوک کیا ہے اس سے ان کو کافی حد تک سبق اور دوسروں کے لئے نصیحت کا مواد میسر آیا ہوگا۔

پوری قوم کو میثاق جمہوریت میں فریق بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام کے اندر اس ملک، اداروں اور ملکی املاک کی اہمیت اور ملکیت کے احساس کو اجاگر کرتے ہوئے ان کو سیاست کے مرکزی دہارے میں لانا ہوگا۔ ہماری نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کی ہم نوا ہے کو بھی حقیقی سیاسی تاریخ سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو بھی اس پر فریق بننے کے لئے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بکھری ہوئی سوچیں سمیٹ کر جمہوریت پر مرکوز کرنا ہونگی۔

ہماری ریاست میں طاقت کو توازن پر لانا انتہائی ضروری ہے اس کے بغیر سیاست دان جتنے بھی میثاق جمہوریت کرتے رہیں اس کے مکمل فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ اس کے لئے ہمیں اداروں کو بھی اس میثاق کا فریق بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سب سیاسی جماعتیں اور ادارے، خاص کر عدلیہ اور فوج اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے عملی طور پر آئین کی پاسداری کا عہد کریں کہ ہم نے اپنے ملک میں آئین کی حکمرانی کو فروغ دے کر معاشی تباہی سے باہر نکلنا ہے اس کے بغیر اب کوئی حل نہیں رہا، کیونکہ جب تک ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اس وقت تک کوئی عالمی برادری میں سے دوست بھی ہمارے اس معاشی گھیر گھمٹ سے نکالنے میں ہماری مدد نہیں کرسکتا۔

اداروں کو بھی اس نازک نقطے کوسمجھنا ہوگا۔ سوشل میڈیا کے زریعے سے، جانے یا ان جانے میں، ہماری سوچوں، نفسیات اور تہذیب و تمدن میں جوآگ لگا دی گئی ہے اسے سب کو مل کر بجھانا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں یا کتنی ہی مادی وسائل تک دسترس حاصل کرلیں ہماری اصلی امن گاہ یہ دھرتی ہی ہے جسے ایک نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ جو ہماری پہچان ہے اور ہم چاہیں بھی تو اس پہچان کو بدل نہیں سکتے۔ اگر ہماری پہچان اور ہماری امن گاہ شر کا شکار ہوگئی تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ اپنا گھر اجاڑ کر پناہ تلاش کرنے والوں پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماضی کی غلطیوں کا راستہ بند کرنے کے لئے سب کو ملکر ٹروتھ اینڈ ری کونسلیشن کمیشن اور اسی طرح نیشنل ڈیموکریٹک کمیشن بھی بنانا چاہیے تاکہ ہر کوئی اپنی اپنی غلیطوں کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل میں ان کے سدباب کا لائحہ عمل بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply