• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فالتو سواریوں کو اتارتے جائیں /ڈاکٹر مختیار ملغانی

فالتو سواریوں کو اتارتے جائیں /ڈاکٹر مختیار ملغانی

ہم میں سے ہر شخص ایک مخصوص ماحول میں زندگی گزار رہا ہے، اردگرد رنگا رنگ کے لوگ اور کئی سماجی و ذاتی معاملات درپیش رہتے ہیں، ان سب کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر فرد خود سے سوال کرے کہ اس کی اندرونی دنیا اعتدال میں ہے کہ نہیں، تو اکثریت جواب نفی میں پائیں گے۔

اردگرد کا ماحول تنگ نظر بھی ہو سکتا ہے اور کشادہ بھی، دوستانہ بھی اور خطرناک بھی، پرآسائش یا پھر غربت زدہ۔۔۔لیکن یہ عوامل تب ثانوی حیثیت میں چلے جاتے ہیں جب اندر سکون اور اطمینان ہو ۔ اور اگر اندر منفیت کوٹ کوٹ کر بھری ہو تو مادی حقیقت اسی رنگ میں ظاہر ہوگی۔

فرد زندگی کی گاڑی کو خوابوں کی منزل طرف دوڑانے کی سعی کرتا ہے، لیکن ہر دو کلومیٹر بعد کچھ سواریاں اس کی منتظر ہوتی ہیں، فطرت تقاضا کرتی ہے کہ گاڑی کو روکے بغیر سفر جاری رکھا جائے کہ ہر شخص کی منزل چونکہ جدا ہے، لہذا ہماری سمتیں مختلف ہیں، اس لئے ان سواریوں کو اٹھانا ضروری نہیں ، دماغ خوف پیدا کرتا ہے کہ راستے میں کہیں کوئی مدد درکار ہو سکتی ہے، بہتر یہی ہے کہ ان سواریوں کو ساتھ لیا جائے، مشکل وقت میں کام آسکتی ہیں، ویسے بھی چہرے شناسا ہیں تو لوٹ مار کا کوئی امکان نہیں۔

پہلے ہی سٹاپ پر کچھ “مومنین” منتظر نظر آتے ہیں، دماغ فورا ً بریک لگانے کا کہتا ہے کہ اگر انہیں ساتھ نہ اٹھایا تو یہ لوگ پیٹھ پیچھے میرے عیب بیان کریں گے، غیبت کریں گے، کہیں میری اصلیت دنیا پہ واضح نہ ہو جائے ، بہتر یہی ہے کہ ان کی مدد کی جائے تاکہ اس احسان کے بدلے یہ میرے عیبوں پہ پردہ ڈالے رکھیں، آپ گاڑی روکتے ہیں، وجیہہ چہرے والے چند پر اعتماد افراد چھلانگ لگا کر گاڑی میں گھس آتے ہیں ، آپ کو پچھلی سیٹ پہ دھکیلتے ہوئے خود فرنٹ پہ بیٹھ جاتے ہیں، آپ ان کی خوشنودی کیلئے بس بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ خوشامد کرتے رہ جاتے ہیں۔۔

کچھ وقفے کے بعد اگلے سٹاپ پر نہایت سنجیدہ اور کرخت چہرے کے ساتھ مزید کچھ افراد آپ کی گاڑی کے منتظر کھڑے ہیں، آپ متذبذب ہیں کہ گاڑی کو روکا جائے یا نہیں، دماغ کی ضد پہ آپ کو ایک دفعہ پھر گاڑی روکنی پڑتی ہے، دماغ بتاتا ہے کہ یہ استاد لوگ ہیں، اپنے کام کے ماہرین، ان کے چہرے کی سنجیدگی اور کرختگی درحقیقت زندگی کے تجربات کی علامت ہے، تم چونکہ ابھی طفلِ مکتب ہو، ایسے لوگوں سے ہمیشہ کچھ سیکھا جا سکتا ، انہیں ساتھ لے جانا ضروری ہے، گاڑی رکتی ہے، مالکوں کی طرح یہ کرخت چہروں والے گاڑی میں داخل ہوتے ہیں اور آپ کو گھسیٹ کر مزید پیچھے دھکیلتے ہیں اور خود وجیہہ چہرے والوں کے عین عقب میں براجمان ہوجاتے ہیں۔

اگلے سٹاپ پر آنکھوں میں حکمت سجائے مزید کچھ سواریاں منتظر ہیں، انہیں ہاتھ کے اشارے کا تردد بھی نہیں کرنا پڑتا، جانتے ہیں کہ ان کے بغیر آپ کہیں جا ہی نہیں سکتے، وہ آنکھ ایسے پروقار طریقے سے جھپکاتے ہیں کہ گویا علم و حکمت کی دیوی ان کی پلکوں پہ سوار ہے، آپ گاڑی روکتے ہیں، وہ دھیمے قدموں آپ کی گاڑی میں سوار ہوتے ہیں، آپ کیلئے بس اب صرف ایک ہاتھ سے لٹکنے جتنی جگہ باقی رہ جاتی ہے۔

جب آپ روانہ ہوئے تو گاڑی کا رخ آپ کے خوابوں کے شہر کی طرف تھا، اب گاڑی کسی بھول بھلیوں میں سے گزرتی نظر آتی ہے کیونکہ آپ کی گاڑی کا کنٹرول اب ان صاحبان کے ہاتھ ہے جنہیں آپ راستے میں اٹھاتے آئے ۔۔ آپ پچھتاتے ہیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟
آپ نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ آپ تین نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں،
سب سے پہلی جو سب سے خطرناک بھی ہے، وہ ہے احساسِ جرم، اسے خود الزامی کہنا زیادہ بہتر ہے۔
آپ ہر ناکامی کا خود پہ الزام دھرتے ہیں، اپنے گناہوں کا رونا روتے ہیں، کیونکہ بچپن ہی سے ہمارے اردگرد ایسے لوگ موجود رہے جو اپنی ذمہ داریوں کی بجائے ہماری خطاؤں کو بنیاد بنا کر ہر بگاڑ کی وجہ ہمیں بتاتے آئے، یہی نفسیات پروان چڑھی، احساسِ جرم پنپتا رہا، اب ہمیں ہر معزز شخص سے سند چاہیے ہوتی ہے کہ ہم بے قصور ہیں، ان معززین کی ہم خوشامد کرتے ہیں ، ان کہ خوشنودی کیلئے اپنی قربانی دینے پہ تیار رہتے ہیں، احساسِ جرم سے بھیانک چیز اور کوئی نہیں، یہ دیمک کی طرح فرد کو اندر سے چاٹتا ہے۔۔ پہلے سٹاپ پہ موجود وجیہہ چہرے والی سواریاں وہی لوگ ہیں جو آپ کی اس کمزوری سے واقف ہوتے ہیں اور ہر موقع پہ اس کا فایدہ اٹھاتے ہیں، آپ بات بات پہ معزرت کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ پھر بھی مطمئن نہیں کہ جب تک پگڑی اتار کے ان کے قدموں پہ نہ ڈالیں گے انہیں سکون نہ ملے گا، آپ ان کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں، ان کے اشارۂ ابرو پہ ناچتے ہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائیں۔

اس نفسیات سے جان چھڑانا ضروری ہے، مگر کیسے؟
اگر کہیں آپ نے واقعی غلطی کی تو تہہ دل سے ایک دفعہ معافی مانگ لینا کافی ہے، اگر ان کیلئے یہ کم ہے تو انہیں ان کے حال پہ چھوڑ کر آگے کو روانہ ہوں، احساسِ جرم کی خوراک مزید احساسِ جرم کا اپنانا ہے، عزت نفس کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند بار خود پہ قابو رکھیں، یہ نفسیات کمزور پڑتی جائے گی، جب آپ کے اپنے اندر یہ بلا ڈھیر ہو جائے گی تو بیرونی محرک، یعنی یہ وجیہہ چہرے والے مشٹندے آپ کو کسی چیز پہ مجبور نہیں کر سکتے، احساسِ جرم کی خوراک بند کریں، اسے بھوک سے ماریں۔

دوسری بڑی بیماری احساسِ کمتری ہے، ہر معاملے میں دوسروں سے اپنا موازنہ کرنا بھیانک مسئلہ ہے، کوئی بھی شخص مکمل نہین، کوئی ایک پہلو سے بہتر ہے تو کوئی دوسرے پہلو سے، خوبیاں اور خامیاں ہر شخص میں موجود ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پوری کائنات میں آپ جیسا دوسرا کوئی نہیں، آپ قدرت کا واحد نگینہ ہیں، اپنی ہستی میں کامل، اپنی حدود میں قابل، اپنے ماحول میں کارگر۔۔۔۔
دوسرے سٹاپ پر جو کرخت چہروں والی سواریاں آن دھمکیں، یہ وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ آپ کو خود پہ اعتماد نہیں، آپ کی اسی کمزوری کا استعمال کرتے ہوئے یہ لوگ آپ کو ہمیشہ پیچھے دھکیلتے ہیں، ایسے لوگ اپنے فائدے کیلئے آپ کا استحصال کرتے ہیں،
احساسِ کمتری سے مگر کیسے نجات پائی جائے؟

احساسِ کمتری کی پہلی بلکہ واحد نشانی یہ ہے کہ آپ اپنی اہمیت جتلانے کی ہر جگہ، ہر وقت اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، کرخت چہروں والے لاشعور طور پر آپ کی کمزوری کو محسوس کر لیتے ہیں اور ان کی گویا عید ہو جاتی ہے کہ بکرا ہاتھ آگیا، آپ نے کبھی بھی اپنی اہمیت منوانے کی کوشش نہیں کرنی، اپنا کام، اپنا تعلق بخوبی نبھائیے اور کسی تعریف کی امید رکھے بغیر آگے کو چل دیجئے، کسی کو کچھ بھی منوانا یا جتلانا سعئ لاحاصل ہے، یہ آپ کی شخصیت کو داغ لگاتا ہے، جب آپ ایسی سعی سے تعلق ترک کرتے ہیں تو کرخت چہرے والوں کو لاشعوری پیغام جاتا ہے کہ بندہ با اعتماد ہے، اس کا استحصال ممکن نہیں۔

تیسری بیماری خوف اور شک کی ہے۔۔ یہ جو تیسرے سٹاپ پر، پُر حکمت آنکھوں والے معززین سوار ہوئے، آپ کے نزدیک یہ علم و حکمت رکھتے ہیں، آپ ان سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے ، اور ایسے افراد بلکہ بقول غالب، ناصح، ہر وہ الٹا مشورہ دیں گے جس کی وجہ سے آپ کو اپنے ارادوں پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے، کیونکہ ان کے محتاط مشورے آپ کی ذات میں شکوک اور خوف پیدا کرتے ہیں، آپ کے خوابوں کو وہ ناممکن قرار دیتے ہیں، بس پھر آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر فضول سیاسی بحثوں سے دل بہلاتے ہیں، لوگوں کے کردار اچھال کر نفس کو تسکین دیتے ہیں، ایسے میں سارے کے سارے خواب دھرے رہ جاتے ہیں، بالوں میں چاندی آجاتی ہے، حوصلے پست پڑتے ہیں اور پھر آخرت کے سفر کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔

یاد رکھیں کہ پُر حکمت آنکھوں والے بعض اوقات آپ کے عظیم خوابوں سے حسد بھی رکھتے ہیں، اپنے بچوں سے بھی آپ کا موازنہ کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ مخلص مشورہ ہی دیں ،، دوسرا یہ کہ ایسے لوگ آپ کی باطنی خصوصیات ، آپ کے ٹیلنٹ، آپ کے جنون کو ٹھیک طرح سے ناپنے کے قابل نہیں ہوتے،، یہ آپ ہی ہیں، صرف آپ جسے اعتماد کے ساتھ فیصلہ لینا ہوتا ہے، کیونکہ آپ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کس فن میں یکتا ہیں، کس سمت رجحان رکھتے ہیں، شوق کی شدت کیا ہے وغیرہ وغیر۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا کامیابی کیلئے ، سکون کیلئے ، کچھ حاصل کرنے کیلئے اور متوازن و خوبصورت زندگی کیلئے ضروری ہے کہ فالتو سواریوں کو راستے میں اتارتے جائیں، انہیں بھوک سے ماریں، انہیں بے رخی سے شہید کریں، انہیں اپنے اعتماد سے قتل کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply