ادبی ڈنکی روٹ/ اقتدار جاوید

ادبی ڈنکی روٹ
اقتدار جاوید

Advertisements
julia rana solicitors london

پنجاب، پنجابی زبان اور پنجابی ادب لازم و ملزوم ہیں۔اقوام ِ متحدہ نے بہت ساری زبانوں کا اس صدی میں ختم ہونے کا بتا رکھا ہے.ہمارے ملک میں ستتر زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اڑسٹھ مقامی اور آٹھ غیرملکی ہیں۔حیرت ہے کہ ہم بدیسی زبانوں کے مقابلے میں اپنی زمین سے اٹھنے والی زبانوں کو درخور ِاعتنا ہی نہیں سمجھتے۔پنجابی کو لیجیے کہ اس کے بولنے والوں نے ہی اس کی دشمنی کا حق ادا کیا ہے۔اقوام متحدہ نے پرائمری لیول کی تعلیم ماں بولی میں دینے کا کہا ہوا ہے۔مگر برا ہو اس سسٹم کا جس میں ہماری دھرتی کے بچوں کو ماں بولی میں تعلیم نہ دے کر ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے دل میں اس ماں بولی سے محبت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے۔یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور کئی حیلوں بہانوں سے ملک دشمنی بھی کی جا رہی ہے۔
ملک کی اڑھتالیس فیصد آبادی کی ماں بولی پنجابی ہے مگر اس سے دشمنی بھی اسی تناسب سے کی جاتی ہے۔
پنجابی زبان کے ذریعے ہی پنجابیوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔اس کے لیے غیرملکی فنڈڈ پروگرام چلائے جاتے ہیں۔
ایک تو ادب کے نام پر قائم ادارے کچھ کام کر رہے ہیں کام کم کر رہے ہیں کھا زیادہ کھا رہے ہیں مگر کچھ لوگ اور کچھ تنظیمیں ہیں جو ادب کے نام پر پیسے بٹورنے کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ان کا یہی رول ہے اور یہی ان کی ادبی خلاقیت ہے۔ڈنکی روٹ وہ غیر قانونی راستہ ہے جس کے ذریعے ایجنٹس اور آلہ کار لوگوں کو مختلف جھانسوں میں پھنسا کر مغربی ممالک کے ساحلوں پر ان بے روزگاروں کو بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔اب یہ سلسلہ ایران اور ترکی کو چھوڑ کر اب براہ راست یورپ پہنچانے کا طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔اب ایک اور مافیا بھی سرگرم عمل ہو گیا ہے۔یہ گروہ ادب کے نام پر سب کچھ کر رہا ہے۔
ڈنکی روٹ گجرات اور اس کے ملحقہ ضلعوں کی پہچان ہے یہاں سے غیرقانونی طریقوں سے نوجوان بیروزگاروں کو یورپ پہنچایا جاتا ہے۔اس انسانی سمگلنگ میں ملوث بھی وہیں کے اور موت کے راستے پر مرنے والے بھی وہیں کے۔اب یہ سلسلہ پنجابی زبان کے نام پر بھی جاری ہے۔
ادب کے نام پر ادب کے پردے میں گھس بیٹھیے اپنی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ ایسا خبث ِ باطن سے بھرا دشمن دنیا میں شاید ہی کہیں موجود ہو۔پچھلے پچھتر سال سے اس ملک نے نہ صرف ہم تین جنگیں مسلط کیں بلکہ سقوط ِ مشرقی پاکستان میں عالمی قوتوں کا آلہ کار بن کر ذمہ دار بھی ہے۔بھائی کو بھائی سے لڑا کر اس نے وہ مقصد حاصل کیا جو قائد اعظم کی پیغمبرانہ فراست کے سامنے نہ کر سکا تھا۔قائد اعظم نے آج سے ایک صدی قبل اس ملک کی اصلیت کو جان لیا تھا۔میثاق ِلکھنو 1916 میں ہوا تھا۔یہی وہ آغاز تھا جب مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے حق کو پہلے تسلیم کر کے اس سے روگردانی کی۔اسی معاہدے کو ہندو نے پس ِ پشت ڈالا اور تحریک ِخلافت اور پہلی جنگ عظیم کے بعد اس نے مسلمانوں کو انگریز کے سامنے لا کھڑا دیا۔ اب اس کو میثاق ِلکھنو یا مسلمانوں کی ضرورت نہ تھی سو انہوں نے اس معاہدے کو ختم کر دیا۔وہ دن اور آج کا دن وہ ہر طریقے سے اس مملکت ِخداداد کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔وہ کبھی امن کی آشا کے نام پر اور کبھی مغربی ممالک میں کانفرنسوں کے ذریعے یہاں سے گماشتوں کو خریدتا ہے اور مملکت ِخداداد کی اساس پر حملے کرتا ہے۔اس سلسلے میں مختلف پاکستان دشمن تنظیمیں سرگرم ِعمل ہیں اور ہر ممکن اپنی کاروائیاں جاری رکھے ہوئی ہیں۔یہاں انہیں اپنی پسند کے لوگوں کی خدمات حاصل ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی مذموم مقاصد کو پورا کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔یہ وہ ادبی ڈنکی روٹ کے ایجنٹ جو پیسے کے نام پر ادبی سیاست کرتے ہیں اور نامعلوم اور خفیہ مقاصد کی تکمیل میں ملک دشمنوں کا ساتھ دینے سے بھی نہیں کتراتے۔دہلی میں اسی قسم کی ایک کانفرنس میں ایک پاکستانی کو سر ِ عام ڈالروں کا تحفہ دیا گیا۔اس ادیب نما صحافی نے وہاں بھارت میں جا کر کہا تھا کہ پاکستان کو مشرقی پاکستان کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔اس کو بھارت میں جا کر یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ اس کا مربی ملک کشمیر میں کیا ظلم ڈھا رہا ہے اسے اپنے ملک کی بدخوئی کرنا تو یاد تھا بھارت کے کشمیر میں ظلم کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے اب بھارت میں جانا بند ہوا ہے تو یورپ میں کھاؤ پیئو پروگرام کا ڈول ڈالا گیا ہے۔اسی انسانی سمگلنگ کی وجہ سے بدنام علاقوں سے ایجنٹ یا سہولت کار چنے جاتے ہیں۔ان کو ایک ایک ماہ تک وہاں غیر ملکی خرچے پر رکھا جاتا ہے اور اپنے خفیہ مقاصد کو پورا کیا جاتا ہے۔
ان میں ایک تنظیم کینیڈا کے شہر میں کانفرنسوں کے نام پر گھٹیا اور ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔اس میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ محب وطن اور مملکت خداداد کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ ادیبوں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔حکومت ِ پاکستان کو اس نام نہاد ادبی کانفرنس کے ایجنٹوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا چاہیے۔کسی کو بھی خواہ وہ سیاست کا میدان ہو کھیل کا میدان ہو یا ادب اور ثقافت کا سب سے پہلے پاکستان ہے۔جو ہمارے ملک کے خلاف کسی قسم کا ایجنڈا رکھتا ہے ان کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے ہوں گے تا کہ اس فتنے کا قلع قمع کیا جا سکے اور مملکت ِخداداد کی نظریاتی سرحدیں محفوظ ہوں۔پنجابی زبان کے لکھاریوں کو کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے یہاں کے نونہالوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔یہ کام صوبہ سندھ میں بخیروخوبی انجام پا سکتا ہے تو ملک کے دوسرے حصوں کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔اگر یہ انتظام نہ ہو سکا تو غیر ملکی پیسہ کو از خود یہاں اپنے آلہ کار ڈھونڈنے میں کھلی چھٹی ہو گی۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply