نفس اور ترغیباتِ نفس۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک نوجوان محمد سلیم کی واٹس ایپ کال تھی، کال کیا تھی، سوالات کا ایک انبار تھا، سوالات سے اندازہ ہوتا تھا کہ افکار و احوال پر نوجوان کی گرفت ہے، مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒ کی تعلیمات کا بے حد دلدادہ ، تعلیم میں اگرچہ کم لیکن تسلیم میں زیادہ، ــ نوجوان پوچھتا ہے کہ نفس پر کنڑول کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے، کہتا ہے ‘ میں نے یہ سوال بہت سے دانشوروں اور مذہبی اسکالرز سے فرداً فرداً بھی پوچھا لیکن تسلی بخش جواب ندارد! فون کال پر طویل بات کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا اور یوں بھی کلینک میں مریضوں کے درمیان میں مریدوں کی کال لیناکارِ آساں نہیں۔ اس سے وعدہ کر لیا کہ اس موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی کوشش کروں گا۔
نفس اور ترغیباتِ نفس کے حوالے سے راقم کچھ احوال رقم کیے دیتا ہے، تاکہ سند رہے اور اس حوالے سے کسی بھی طالب علم کے لیے معاون ہو سکے۔ زما نۂ طالب علمی میں لکھا تھاـــ یوں تو یہ زمانہ کبھی ختم نہیں ہوتا، نہ طلب ختم ہوتی ہے ‘ نہ زمانہ ــــ نفس کی برمودا ٹرائینگل کے تین زاویے ہیں ـــ دولت ، شہرت اور عورت! ایک جمالیاتی ذوق رکھنے والے کے لیے دولت کی کشش بہت جلد ختم ہو جاتی ہے، وہ مقدار کی بجائے معیار کا قائل ہوتا ہے، جیسے جیسے اس کاذوق ترفیع کے اُفق کی جانب ہجرت کرتا ہے‘ وہ مقدار کی دنیا سے نکل جاتا ہے۔وہ دولت کو ایک واجبی سی ضرورت سمجھتا ہےــــ کہ اِس کان سے اپنی ضرورت پوری کی اور آگے نکل گئے۔ شہرت کے باب میں بھی ایسا ہے، معمولی سا روحانی ذوق رکھنے والا بندہ بھی شہرت کی پھندے میں زیادہ دیر تلک گرفتار نہیں رہتا۔ وہ جانتا ہے کہ شہرت دوسروں کے دیکھنے کی چیز ہے، نفس اس سے تسکین ضرور پاتا ہے لیکن نفس کی پہچان کے لیے یہ کبھی بھی معاون ثا بت نہیں ہوئی۔ نفس کی پہچان‘کنجِ تنہائی میں میسر آتی ہے۔ شہرت دوسروں کا منظر ہے‘ اپنا نہیں۔شہرت کی مثال ایک ایسے سائن بورڈ کی طرح ہے‘ جس کی اصل حیثیت ایک بے قیمت پلاسٹک یا زنگ آلود ٹین کی چادر کی سی ہے،عالمِ رنگ و بو میں قدرتِ کاملہ نے کسی حکمت کے تحت اس کے اوپر رنگ و روغن کے برش سے رنگ برنگ چند نشانات کھینچ دیے ہیں تاکہ شاہراہِ حیات میں راہ نوردوں کے لیے وہ بورڈ کسی منزل کی نشاندہی کر سکےـــ بس یہ ہے کل حقیقت ٗاس دنیا کی جسے شہرت کہتے ہیں۔ سنگ میل ہوناکسی سنگ کا ذاتی امتیاز تو نہیں ـــــ سنگ تو بس سنگ ہےـــــ اگر کسی کے سنگ ہوا تو!!
مرغوبات ِ نفس میں صنف ِ نازک کو سب سے زیادہ طاقت ور ترغیب کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ جمالیاتی ذوق سے متصف فنونِ لطیفہ سے منسلک کوئی معتبر شخصیت ہو ْ یا روحانیت کے سنگھاسن پر براجمان کوئی پیرِ فرتوت‘ اس ترغیب کے سامنے سب بے بس نظر آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے‘ اکثر اولیااللہ کے مزاروں پر بھی لکھا ہوتا ہے ’’عورتوں کا داخلہ منع ہے‘‘۔ یہ دخل اندازی اور داخلہ انہوں نے اپنی زندگی میں بھی منع کر رکھا ہوتا ہے۔ معدودے چند ہوتے ہیں ٗ مردانِ قلندرــ جسم کی قید سے یکسر آزاد ، روح کی بے سمت فضاؤں میں پرواز کرنے والےـــ جن کے لیے مرد و عورت کی تخصیص ختم ہو کر رہ جاتی ہے… وہ جسموں سے نہیں ‘ روحوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مرغوباتِ نفس سے بچنے کیلئے اب جتنے کلیے اور نصاب لکھے گئے ہیں‘ وہ سب عمومی فارمولے ہیں، جبکہ نفس اورتحریصِ نفس کے معاملے میں ہر شخص کاکیس جداجدا ہے۔اس لیے اپنے نفس کے عارضے کی تشخیص کے لیے کسی مردِ حاذق ٌ طبیب ِباہنر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اپنے طور پرٗ اگر ہم کسی طور سب کے سب کلیے حفظ بھی کر لیں، تو سب سے آخر میں ایک سوال پھر باقی رہ جاتا ہےـــ کہ ان کلیات پر عمل درآمد کب اور کیسے کرنا ہےــــ یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کس نے باندھنی ہےـــ یہاں آکر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔
نفس اور مرغوبات ِ نفس سے بچنے کی ترغیب جس نظامِ فکر نے دی ہے‘ اسے دین کہتے ہیں، وگرنہ مادی اندازِ فکر سے دیکھا جائے تو روح اور نفس کی کیا حقیقت ہے؟ــــ جو کچھ ہے ‘ سب مایا ہے، مادہ ہےـــ جسم ہے ــــ اور جسمانی جبلتیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ مادّی جبلتوں کی زد میں آکر لوگ ایک دوسرے سے زخم خوردہ نہ ہوں‘ اِس کے تدارک کے لیے ریاست ہے اور ریاست کا قانون ہےـــ اور بس!! یعنی غلطی کی حیثیت جرم ہے، گناہ نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ اس معاملے میں خوب راہنمائی فرمائی کہ جرم اور گناہ میں فرق ہوتاہےــ جرم ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے ، اور گناہ اللہ اور رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کا نام ہے۔ یعنی عین ممکن ہے ٗایک چیز گناہ ہو لیکن کسی ریاست میں جرم نہ ہو، مثلاً بہت سی ریاستوں میں جوا، شراب نوشی اور مرد وعورت کا بغیر نکاح ایک چھت کے نیچے رہنا ، بچے پیدا کرنا وغیرہ جرم نہیں۔ گناہ کی توبہ کر لی جائے تو اُس کی سزا ٹل جاتی ہے، جرم کی توبہ کا کوئی تصور نہیں‘ جرم اگر ثابت ہو جائے تو اس کی سزا اِس وعدے کے ساتھ معاف اور موقوف نہیں کی جاتی کہ آئندہ یہ جرم سرزد نہیں ہوگا۔
ہم نے جب اللہ اور رسولؐ کو تسلیم کیا تو اُن کے حکم کو بھی بلاچون و چراں تسلیم کیا۔ مرشد کا قول ہے کہ وہ شخص اللہ کو نہیں مانتاجو اللہ کاحکم نہیں مانتا۔ نفس ــــ ہمارے باطن میں ایک آزادانہ روش اختیار کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عبارت ہے۔ ہم مان لینے کے بعد جس قوت اور اختیار کے ساتھ حکم کا انکار کرسکتے ہیں ‘ اسی کا نام نفس ہے۔ اس باب میں شیطان کو ملامت کرنا کارِ عبث ہے۔ اگر خارج میں شیطان کا وجود نہ ہوتا تو انسان تب بھی خود سے خود سر ہونے کے لیے کافی تھا۔انسان گمراہ ہونے میں خود کفیل ہے ٗ اسے شیطان کی ضرورت نہیں۔ شیطان گمراہ ہونے والوں کی صرف معاونت کرتا ہے ، اسے انسان پر کوئی غلبہ اور تسلط حاصل نہیں ـــ یعنی سرکش شیطان کو ہمارا خودسر نفس ہی دعوت ِ عام دیتا ہے۔ جنس باہم جنس پرواز!! پہلے نفس آمادہ معصیت ہوتا ہے ‘ ، پھر شیطان اسے چالبازیاں سکھانے کے لیے آ جاتا ہے۔ دل میں حکم عدولی کا خیال پہلے آتا ہے ‘ انسان شیطان کے پیچھے بعد میں چلتا ہے۔نفس پرستی ‘ خدا پرستی کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ اس انداز سے دیکھا جائے تو معصیت ایک بغاوت ہے ـــ سہو ٗ چیزے دگر ہے۔ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اطاعت کے حکم سے نکلنا ایک بغاوت ہی تو ہے۔ نفس کی اطاعت دراصل حکمِ الٰہی سے بغاوت کا حکم رکھتی ہے۔
معصیت ایک مصیبت ہےـــ اور اس مصیبت سے نکلنے کا شافی حل صرف توبہ ہےـــ اور توبہ توفیقِ الٰہی سے میسر آتی ہے۔ توفیق حاصل نہیں کی جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے کہ توبہ کا خیال ایک خوش بختی کی دلیل ہے، کیونکہ جو اپنے گناہ کو گناہ نہ سمجھے ‘وہ بدقسمت ہے۔ کوئی علم و ہنر ، کوئی ریاضت ، ذہانت اور فطانت نفس کے شر سے نہیں بچا سکتی ہے۔ یہاں تعلیم سے زیادہ تسلیم کی ضرورت ہے۔ انسان کی اپنی تدبیر اسے اپنے نفس کے شر سے نہیں بچا سکتی ، کیونکہ نفس اس کی تدبیر ہی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔ کشف المحجوب میں حضرت علی بن عثمان الجلابی المعروف داتا گنج بخش ؒ فرماتے ہیں کہ نفس کی عیاریوں کی کوئی حد نہیں۔ نفس کی رعونت و عیاری سے بچنے کے لیے بیرونِ خانہ ایک کمک کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور اس کمک کو توفیقِ الٰہی کہتے ہیں ـــ بارگاہِ خاص سے یہ کمک فراہم کرنے والے کو سلطان کہتے ہیں، مددگار کہتے ہیں ــــ سلطاناً النصیراً۔ یہ وہ قوت ہے جسے نفس سمجھنے سے قاصر رہ جاتا ہے ، اوریوں خطرہ ٹل جاتا ہے۔توفیقِ الٰہی ہمارا استحقاق ہےٗ نہ استعداد ـــــ بلکہ یہ سراسر منشائے ایزدی پر موقوف ایک رحمت کا ایک باب ہے۔
معصیت ایسی مصیبت سے نکلنے کا واحد راستہ توبہ ہے۔ توبہ نئے سرے سے تسلیم کا نام ہے۔ جب دائرہ تسلیم کے اندر داخل ہو گئے تو باہر نشاطِ رنگ و بو کی کشش ختم ہو گئی۔ نفس کے شر کا مقابلہ نہیں کیا جاتا بلکہ اِس سے بچا جاتا ہے، اس سے پناہ طلب کی جاتی ہے، اور پناہ حاصل کرنے کا طریقہ تعوذ اور توبہ ہے۔ تعوذ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پڑھنے سے پہلے “اعوذ بااللہ من الشیطانِ الرجیم” پڑھنے کا حکم ہے۔ شیطان کو بھی گالی دینے کا حکم نہیں، بلکہ لاحول والا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھنے کا حکم ہےــــیعنی مقابلہ نہیں کرنا بلکہ بچنا ہے ، پناہ طلب کرنی ہےٗ شیطان مردود سےـــــ اللہ کی مضبوط پناہ میں آنا ہے، حصن حصین میں داخل ہونا ہے اور عروۃ الوثقیٰ کا دامن تھامنا ہے!! اپنے اختیار سے دست کش ہونا ہی نفس کی دست و برد سے بچاتا ہے۔ دائروں کی کشش ہو ‘ یا دولت و شہرت کیـــاس سے بچنے کے لیے جس قلعے میں پناہ گزیں ہونا ہوتا ہے ‘ اس کا نام شریعت ہے۔ قلعے سے باہر نکلنے والا سپاہی کسی اندھے تیر کا نشانہ بن جاتا ہے۔
طاعت و تسلیم ایک خوشبو کی وادی ہے ، معصیت بدبو دار جوہڑ ہے!! معصیت سے معصومیت کی جانب سفر بدبو سے خوشبو کا سفر ہے۔ خوشبو کا ذوق رکھنے والا کسی بدذوقی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خوشبو کے مسافروں کو گوناگوں کشش ہائے رنگ و بو سے بچ کر ہی سفر کرنا ہوتا ہے۔ دامِ نفس میں گرفتار‘ نفس کی معرفت نہیں پا سکتاــــاوربغیر معرفت ِ نفس کے کوئی اپنے رب کی معرفت نہیں پا سکتا!
نشاطِ رنگ و بو سے بے نیازِ آرزو ہو کر
ہم اپنے روبرو آئے‘ تمہارے روبرو ہو کر
نشاطِ رنگ و بو کے عین درمیان میں تحریص ِ رنگ و بو سے نکلنے کی تمنا بہرطورایک سعادت ہے۔ مقامِ اسفل سے اعلیٰ کی طرف پلٹنے کی تمناخوش نصیبی کی دلیل ہے۔

Facebook Comments