کرونا اور کتنا خوفزدہ کرے گا؟۔۔مجاہد خٹک

سائنسدان کئی دہائیوں سے دو خطرات کی جانب اشارے کر رہے ہیں۔ ایک تو ماحولیاتی آلودگی ہے جس نے کرہ ارض کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے، دوسرے مختلف قسم کے وائرس ہیں جو بار بار نئی شکلیں اختیار کر کے وبا کی شکل اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ اکیسویں صدی کے دوران اس لڑائی میں انسان فتحیاب ہوا ہے لیکن یہ عارضی غلبہ ہے۔ کسی بھی وقت کوئی وائرس وبا کی صورت اختیار کر کے کروڑوں افراد کو نگل سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی وبائیں طاقتور ریاستوں کو بکھیر دیتی ہیں اور خوشحال معاشروں کو غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیتی ہیں۔

اس وقت کورونا وائرس مختلف ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چین میں تباہی پھیلانے کے بعد اب ایران اس کی لپیٹ میں ہے جہاں سے سوشل میڈیا کے ذریعے خطرناک خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت مسلسل خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ بل گیٹس جیسے افراد اپنی جیب سے بڑی بڑی رقوم وقف کر رہے ہیں لیکن اس کی ویکسین تیار ہونے اور عام آدمی تک اس کے پہنچنے میں ایک ڈیڑھ سال لگ جائے گا۔ کچھ علم نہیں کہ اس دوران کیسے کیسے المیے جنم لے چکے ہوں اور کوئی نیا وائرس تباہی پھیلانے کے لیے تیار ہو رہا ہو۔

اس پورے معاملے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں کسی بھی تہذیب یا معاشرے کی خوشحالی جنگیں جیتنے سے مشروط ہوا کرتی تھی۔ مفتوحہ علاقوں سے مال غنیمت اکٹھا ہوتا تھا جس میں ہیرے جواہرات کے ساتھ ساتھ غلام اور کنیزیں بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔اس رقم سے فوجیوں کو تنخواہیں دی جاتی تھیں، مملکت کا کاروبار چلایا جاتا تھا اور ملک کے اندر تجارتی سرگرمیاں فروغ پاتی تھیں۔

اس جنگ و جدل کا ایک اضافی پہلو یہ تھا کہ اس کی وجہ سے فاتح اور مفتوح، دونوں کے درمیان علوم کا تبادلہ ہو جاتا تھا جس سے نسل انسانی کے اجتماعی علم کو ایک نئی جہت میسر آتی تھی۔ یہ علم کا سست رفتار لیکن تسلسل سے جاری رہنے والا ارتقائی عمل تھا۔

جدید سائنسی دور کی بدولت معاشی برتری کا رشتہ جنگوں کے بجائے علم سے جڑ گیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام عمومی طور پر جنگ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ یہ عفریت فاتح اور مفتوح، دونوں کو معاشی طور پر تباہ کر دیتا ہے جبکہ علم کے ذریعے ہر ملک دولت، آسائشیں اور خوشحالی حاصل کر سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شروع میں جدید ذرائع مواصلات اور بعد میں انٹرنیٹ کی بدولت تبادلہ علم کے پُر امن راستے کھل چکے ہیں۔ اب کسی بھی ترقی یافتہ ملک کا علم دیگر تمام ممالک کی دسترس میں ہے۔ جنگ و جدل کی یہ اضافی افادیت بھی اب ختم ہو چکی ہے جس کے بعد یہ سماجی ادارہ متروک ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لیکن ماضی قریب کی یادیں قوموں کے اجتماعی حافظے میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ انسان یہ تو سمجھ چکا ہے کہ جنگ سے بچنا ضروری ہے لیکن اس مرحلے تک نہیں پہنچ پایا جہاں اسے جنگ کی تیاری بھی مشق فضول لگے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ 700 ارب ڈالر، چین 250 ارب ڈالر، سعودی عرب 67 ارب ڈالر، بھارت 66 ارب ڈالر اور فرانس 64 ارب ڈالر سالانہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر تمام ممالک کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو یہ کھربوں ڈالرز تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ناصرف وسائل کا ضیاع ہے بلکہ انسانی ارتقا کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اگر آج ہم اپنے وسائل کا بڑا حصہ علمی استعداد بڑھانے پر خرچ کرنا شروع کر دیں تو بہت جلد نا صرف موت کو شکست دے سکتے ہیں، بلکہ ہر انسان کو ایسی آسائش بھری زندگی بھی میسر آ سکتی ہے جو ماضی میں بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتی تھی۔

چند صدیاں قبل دلی میں بیٹھے مغل بادشاہوں کے لیے کشمیر سے برف توڑ کر لائی جاتی تھی۔ آج ایک غریب انسان تک کو بھی اس نعمت تک رسائی حاصل ہے۔ اسی طرح گنتے جائیں تو احساس ہو گا کہ انسان اپنے ارتقائی سفر میں کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مرحلے پر مختلف وباؤں کا پھیلنا تاریخی قوتوں کی جانب سے انسان کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہے۔ اگر اس پر کان نہ دھرے گئے تو مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو انسان افراتفری میں اپنے وسائل کا رُخ علم کی جانب موڑے گا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم وقت سے پہلے سنبھل جائیں اور سائنسدان جن خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں ان سے نمٹنے پر اپنی صلاحتیں اور وسائل صرف کر دیں؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply