• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میرا جسم میری مرضی کا علمبردار کرونا وائرس۔۔ارشد غزالی

میرا جسم میری مرضی کا علمبردار کرونا وائرس۔۔ارشد غزالی

میرا جسم میری مرضی کا علمبردار کرونا وائرس۔۔ارشد غزالی/ ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ کسی گاؤں میں باباجی کھیت میں بھینسوں کو جوت کر ہل چلوا رہے تھے اور چھپڑ  میں بیل آرام کر رہے تھے۔ کسی سیانے نے باباجی سے پوچھا یہ کیا تماشا  ہے؟ باباجی نے کہا پچھلے دنوں شہر سے ایک “چٹی گائے” آئی تھی اس نے انھیں ورغلایا کہ ہمیں گھر میں قید رکھا جاتا ہے ہمیں بیل کے برابر حقوق نہیں ملتے اور ہمارا استحصال کیا جاتا ہے، چنانچہ انھوں نے آزادی اور برابری کےحقوق مانگے تو میں نے ان کو ہل چلانے پر لگا دیا ،اب یہ دودھ بھی دیتی ہیں اور ہل بھی چلاتی ہے۔بیلوں کو اب کوئی کام نہیں تو وہ آ رام کرتے ہیں اور انھیں مزید حقوق مانگنے پر اکساتے رہتے ہیں۔ باباجی کی بھینسوں اور آزادیء  حقوقِ  نسواں کی علم بردار “میرا جسم میری مرضی” کے نعرے لگانے والی لبرل آنٹیوں کی تقلید میں ویکسین بنانے والے سائنسدانوں کے استحصال کا شکار کرونا وائرس بھی لبرل ازم کے فلسفے کے تحت اپنی “وائرسی” آزادی کو دنیا کے ہر شخص تک پھیلانے اور مساوات کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ہر شخص کو برابر مستفیذ کرنے میں سرگرداں ہیں ۔ ایسے میں ہمارے ملک میں پائے جانے والے سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے عالی شان دماغ اس کے ہراوّل دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پوری کوشش میں ہیں کہ کرونا وائرس خدانخواستہ پاکستان میں بھی ” انّی مچا دے”۔

پچھلے دنوں اسی سوچ کے حامل ایک صاحب کی طرف سے کرونا وائرس کو لبرل طبقے کی عالمی سازش قرار دئیے جانے کا سن کر حیرت ہوئی۔ موصوف فرما رہے تھے کہ مسلمانوں میں رائج مصافحے اورمعانقے کو ختم کرنے کے لئے یہ سازش ترتیب دی گئی تاکہ مسلمان ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے اجتناب کریں ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں اور نہ   ہی ان میں پیار محبت اور بھائی چارہ بڑھ سکے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے کون سا پاس آکر ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہا رہے ہیں۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے ہم اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ پڑھ چکے ہیں۔ایک دوسرے کا حق مارنے دوسروں کو تکلیف دینے سے لے کر سود, چوری, ملاوٹ, بے حیائی اور رشوت خوری تک ہر معاشرتی اور اخلاقی برائی میں مبتلا ہیں۔ اپنے اصل کو بھول کر ہم مغربی رنگ میں ایسے رنگ چکے ہیں کہ اپنی پہچان اپنا تشخص اپنا دین اپنی روایات تک بھولتے چلے جارہے ہیں۔

محدود دماغی گروتھ کی حامل پاکستانی عوام کی اکثریت سازشی نظریات قبول کرنے اور پھیلانے کی فیکٹری ہے۔اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو کبھی یہودیوں کبھی عالمی طاقتوں اور کبھی ان سرمایہ کاروں کے سر ڈالنا ہمارا شیوہ ہے جن کی کوششوں اور مہربانیوں کی وجہ سے ہی موبائل سے ٹیلی وژن اور کمپیوٹر سے انٹرنیٹ تک ہر ایجاد اور ٹیکنالوجی سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ وقت سے چونکہ کرونا وائرس نے دنیا میں تباہی پھیلائی ہوئی ہے تو اب سازشی نظریات کا حدف کرونا وائرس ٹھہرا۔ کوئی ویکسین لگوانے کے بعد بازو پر بلب لگا کر جلاتا نظر آتا ہے کوئی مقناطیس لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ ویکسین کے نام پر ہمارے جسم میں اصل میں مائیکرو چپ ڈال دی گئی ہے جس کا مقصد ہمارے دماغ کو کنٹرول کرنا اور ہماری مصروفیات کو مانیٹر کرنا ہے۔ بندہ “چھتر” اتار لے اور پوچھے پولیو ویکسین سے لے کر بچوں کو دہائیوں سے لگنے والی دیگر ویکسین کیا کالا شاہ کاکو میں بنتی ہیں اور موبائل پر جب ہم ایپلی کیشنز انسٹال کرتے ہوئے خود انھیں اپنی تمام تر معلومات اور ڈیٹا تک رسائی دیتے ہیں کیا تب ہماری مانیٹرنگ نہیں ہوتی؟ اس وقت دنیا اتنی جدید ہوچکی ہے کہ موبائل کی مدد سے کسی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے سُنا جا سکتا ہے حتی کہ اس کے ذہنی رحجان تک کا پتہ چلا کر میڈیا, پروپیگنڈے, اشتہارات اور دیگر چیزوں کی مدد سے اس کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے تو ایسے میں کیا کرونا ویکسین ہی رہ گئی ہے دماغ کو کنٹرول کرنے اور مصروفیات کو مانیٹر کرنے کے لئے؟

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرونا زحمت ہے وہاں خواتین کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں جو بیک وقت ماسک سے “نقاب” کا کام بھی لیتی ہیں اور اگر جلدی میں میک اپ کے بنا  گھر سے نکلنا پڑ جائے تو لوگوں کے بنِا  میک اپ “ڈر جانے” اور نہ  پہچانے جانے کی ٹینشن سے آزادی نصیب ہوجاتی ہے اس کے علاوہ کراچی کے لوگ تو خاص طور پر کرونا وائرس کے فوائد سے مستفیذ ہو رہے ہیں کہ جو “لونڈے” گٹکا, ماوا اور پان وغیرہ کھا کر لال کالے پیلے دانت اور بدبو کا چلتا پھرتا اشتہار بنے ہوتے ہیں ان سے کم سے کم عام لوگوں کو ظاہری طور پر نجات مل جاتی ہے۔ عوام الناس کو چاہیے کہ لبرلوں کی عالمی سازش کو ناکام کرنے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے ماسک, سماجی فاصلے اور بیماری کی صورت میں قرنطینہ ترک کر کے بھائی چارے, باہمی میل جول اور محبت کو فروغ دیں تاکہ ہمارا شمار بھی بیوقوفوں کے بجائے عقلمندوں میں ہو اور ہم بھی مودی کے بھارت کی طرح کرونا کے خلاف “کامیاب حکمت عملی” پر عمل کر کے خوشحالی و ترقی کے سفر پر زمین سے چھ فٹ نیچے کی طرف گامزن ہوسکیں۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply