دہشت گردی کے خلاف نئے بیانیے کی ضروت ہے

دہشت گردی کے خلاف نئے بیانیے کی ضروت ہے
طاہر یاسین طاہر
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
مایوسی نہیں حقائق کی عکس گری ہے۔خواجہ میر درد ایک درویش صفت صوفی شاعر تھے۔ شاعر کو تلمیذ رحمان بھی کہا جاتا ہے۔ ریاضت کیش ہو تو اپنے سے کئی زمانے آگے بھی دیکھ لیتا ہے۔خواجہ نے یہ شعر بے شک اپنے عہد کے عذابوں بارے کہا۔میر درد کے دور میں خود کش حملے نہ ہوتے تھے نہ ہی کالعدم تحریک طالبان یا کالعدم جماعت الاحرارکا کوئی وجود تھا۔کوئی دوسری دہشت گرد تنظیم بھی نہ تھی جو مسلم کشی میں اپنی مثال آپ ہو۔ ہاں البتہ سہولت کار موجود تھے۔ کس کے؟ سامراج کے۔تاریخ کا یہ درد آور باب ہے۔ظالموں کے سہولت کار ہر عہد میں موجود رہے۔کیا یزید کے سہولت کار نہیں تھے؟ کوفہ والے ،شام والے؟بے شک سارے تھے۔
خواجہ کا سدا بہار شعر ہے۔ انفرادی حیثیت میں بھی اور اجتماعی حیات کے حوالے سے بھی۔وہ معاشرے ترقی کی منازل کس طرح طے کریں گے جو اپنی غلطی تسلیم کرنے میں لیت و لعل کا شکار ہو جائیں؟اجتماعی حیات کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے دانشور طبقے،عسکری اداروں اور علما و طلبا کو کام میں لا کر دہشت گردی،انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف نئے ریاستی بیانیے کو ترتیب دیا جائے۔ہماری حیات کی شہ رگ پہ پہلی چوٹ روس کی افغانستان پر چڑھائی کے دنوں پڑی۔امریکی مفادات نے آمر جنرل ضیا الحق کو کام میں لایا۔ سائنسی انداز میں ایسا جہادی بیانیانہ ترتیب دیا گیا کہ اس کے حق میں دنیا جہان سے فتوے آنے لگے۔عرب ممالک سمیت دنیا بھر سے آتش ِزیرِ پا جوان پاکستان جمع ہوتے اور یہاں سے افغانستان بھجوا دیے جاتے۔مذہبی جذبات کو کام میں لانے کے لیے مدارس کا جال بچھایا گیا۔ایسا جال جس میں شکاری نے شکار کو یوں گرفت کیا کہ آج تک وہ آزاد پرواز نہیں کر سکا۔مذہبی جماعتوں نے افغان جہاد میں ڈالروں کے عوض اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ہم اس سے کتنی بھی نظریں چراتے رہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ امریکی ڈالروں،اسلحے اور پھر پاکستان و امریکی سیکیورٹی اداروں کی جنگی پالیسیوں سے ہی روس کو واپس جانا پڑا۔افغان قبائل کے جنگی کمانڈروں میں ڈالرز تقسیم کیے جاتے اور بعض اوقات تو کمانڈر ڈالروں کی تقسیم پر نالاں بھی ہوتے کہ فلاں کو زیادہ اور مجھے کم ملے ہیں۔
ہمیں یاد ہے جگہ جگہ افغان مہاجرین اور مجاہدین کی مالی امداد کے لیے کیمپ لگے ہوتے تھے۔کئی ایک تنظیمیں کئی ناموں سے معرض ِ وجود میں آئیں اور نجی جہاد کا کاروبار خوب پھلنے پھولنے لگا۔ریاستی بیانیے نے معاشرے میں جہادی کلچر کو اس حد تک فروغ دیا کہ ایک نیم پڑھے لکھے اور نیم ملائیت کے امتزاج سے تکفیری رویوں نے بھی تیزی سے فروغ پایا اور سماج اپنی بقا کے بجائے افغانوں اور افغانستان کی فکر میں لگ گیا۔علما،فقہا،دانشوروں، طلبا،شاعروں اور ادیبوں کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے عدم برداشت کے رویے کا جوابی بیانیہ ترتیب نہ دیا۔اس غلطی کا خمیازہ ہمیں آج کم و بیش ایک لاکھ افراد کی جانیں دے کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان،کالعدم جماعت الاحرار،جند اللہ،لشکر جھنگوی العالمی،سپاہ صحابہ،لشکر طیبہ،غازی فورس،کالعدم شریعت محمدی،خان سید سجنا گروپ،ان سب کا تعلق ایک خاص سکول آف تھاٹ،اور مخصوص مدارس سے ہی ہے۔یہ سب داعش کے ساتھ مل کر ایک نام نہاد عالمی خلافت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
ریاستیں اپنے مفادات کو دیکھتی ہیں، ہم نے ہمیشہ امت کے مفاد کا راگ الاپا اور خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ضرب ِعضب کےپہلے فیز میں خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں خاطر خواہ کمی آئی۔دہشت گردوں کی اول درجے کی قیادت یا تو مار دی گئی یا پھر بھاگ کر افغانستان میں پناہ گزین ہو گئی۔فروری کے دوسرے ہفتے میں لیکن مسلسل خود کش حملے اور ایک ہی جماعت کی جانب سے ان کی ذمہ داری کی قبولیت ،ثابت کرتی ہے کہ دہشت گرد زیر زمین چلے گئے تھے، ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے تھے۔
فکری مغالطہ موجود ہے۔ گورنر کے پی کے کہتے ہیں کہ طالبان کی اگر کوئی جائز بات ہے تو اسے تسلیم کر لیا جائے۔یہی بیانیہ ابہام پیدا کرتا ہے اور عام آدمی یہ سوچنے لگتا ہے کہ طالبان ایسے مجاہد ہیں جن کے ساتھ ریاست زیادتی کر رہی ہے۔یہ بات زیادہ دل سوز ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اسلام آباد کے ایک مدرسے سے داعش کے لیے یہ ویڈیو پیغام جاری کیا گیا کہ دین کی سر بلندی کے لیے پاکستان آئیں تو افرادی قوت بھی دی جائے گی؟ مدارس کی رجسٹریشن ہی کافی نہیں، ان کا نصاب اور اساتذہ کی چھان بین بھی ضروری ہے۔یہ بھی لازم قرار دیا جائے کہ ہر مدرسے میں انگریزی ادب ، سماجی ارتقا،انسانی ترقی کے مختلف مدارج کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ سائنس کی دریافتوں و ایجادات پر ماہانہ سیمینارز لازمی کرا ئے جائیں۔ہر مدرسہ میں دوسرے مکاتب اسلامی نیر دیگر ادیان پر بھی لازمی پڑھایا جائے۔اس سب سے بڑھ کر دہشت گردی اور نا م نہاد جہادی رویوں نے جو دین و سماج کو ناقابل تلافی تقصان پہنچایا ہے اس حوالے سے بھی بیانیہ ترتیب دیا جائے۔
بے شک علمائے اسلام اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔کثیر الفکر،لچک دار معاشرے ہی ترقی کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔اس امرمیں کلام نہیں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو ختم کیے بغیر خود کش حملے ختم نہیں ہو سکیں گے۔ سماج میں نفوذ پذیریہ سوچ تبدیل کرنا ہو گی کہ ملا عمر کی حکومت اسلامی خلافت کا احیا تھی جسے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان نے ختم کر دیا۔تعلیمی اداروں میں لازم قرا دیا جائے کہ وہاں بھی ماہانہ انتہا پسندی اور اس کے سماجی و مذہبی نقصانات پر سیمینارز کرائے جائیں۔ بے شک سیکیورٹی فورسز اپنے محاذ پہ یکسوئی سے کام کر رہی ہیں۔ سماج کے دیگر اداروں کو بھی اپنا کام اسی سرعت سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply