بیسویں صدی کی بپتا/رضیہ فصیح احمد

آج میں بہت خوش ہوں۔آج1991 ہے۔

نیلسن منڈیلا ستائیس سال بعد جیل سے نکلے ہیں۔افریقی لوگوں کی خوشی کی انتہا نہیں ہے۔نیلسن منڈیلا بھی بہت خوش ہیں مگر بہت لاغر ہوگئے ہیں۔ایسے لیڈر جسم کے کتنے بھی کمزور ہوجائیں ان کی ہمتیں مضبوط اور امیدیں جوان رہتی ہیں ورنہ وہ اتنے سال اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں کیسے گزاریں جہاں زندگی کے کوئی آثار نہ ہوں۔ ستائیس سال کی کال کوٹھڑی کے بعد اب وہ یقیناً جنوبی افریقہ کے صدر ہوں گے۔

میرا ایک سیاہ فام دوست لوکس ہے ۔ میں نے اس کو بہت دن ہوئے سینڈرا کی کہانی سنائی تھی۔

آج نیلسن منڈیلا کی آزادی کے دن مجھے سینڈرا پھر یاد آئی جس کو اسکول سے اس لئے نکال دیا گیا تھا کہ اس کے والدین سفیدفام تھے مگر وہ خود کالی تھی۔ جو دو سپاہی اسے اسکول سے لینے گئے تھے میں ان میں سے ایک کے گھر میں پلا بڑھا تھا اور اس کو بھائی کہتا تھا۔ اس دن میں باہر بیٹھا ایک غلیل بنا رہا تھا کہ بھائی نے کہا۔ چلو میرے ساتھ تمہیں ایک تماشہ دکھاتے ہیں۔ میرا بھائی پولیس میں تھا۔
کیسا تماشہ ؟میں نے اس سے پوچھا۔
خود چل کر دیکھ لو، اُس نے کہا۔
میں اس کے ساتھ ہولیا۔

تماشہ یہ تھا کہ ایک کالی لڑکی کو جس کا نام سنڈریلا تھا سفید اسکول سے نکال دیا گیا تھا اور میرے بھائی کو فوری طور پر اسے اسکول سے لے کر گھر جانا تھا۔اس لڑکی پر مجھے بہت ترس آیا تھا ۔وہ بے حد پریشان تھی اور بار بار پوچھ رہی تھی کہ مجھے اسکول سے کیوں لے جارہے ہو۔میرے بھائی نے کہا کہ اسے کچھ نہیں معلوم کہ اسے کیوں نکا لا گیاہے وہ صرف حکم مان رہا ہے۔

جب ہم اس کے گھر پہنچے اورمیرے بھائی نے لڑکی کو اس کے والدین کے حوالے کیا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے والد اور والدہ دونوں سفیدفام تھے۔قد کے لانبے، بہت سفید رنگ، سنہری بال، پتلے ہونٹ اور چھوٹے دانت۔کسی طرح بھی وہ لڑکی ان کی بیٹی نہیں لگتی تھی، جس کا رنگ گہرا سیاہ تھا، بال بیحد گھونگریالے، دانت بڑے بڑے اور ہونٹ موٹے۔ مجھے اس لڑکی سے بہت ہمدردی محسوس ہوئی جو بے تحاشا رو رہی تھی اورسمجھ رہی تھی کہ اس کی اپنی کسی حرکت کی وجہ سے اسے اسکول سے نکالا گیا ہے ۔

میں سفید فام اسکول میں پڑھتا تھا۔ اپنی پڑھائی ختم کرنے کے بعد مجھے بھی پولیس میں نوکری مل گئی ۔ اور مجھے کئی مرتبہ وہاں بھیجا گیا جہاں سیاہ فام نسلی بربریت کے خلاف جلسے کرتے تھے۔ وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ سفید فام تعداد میں تھوڑے ہیں ہم ان کو مار بھگائیں گے ،بلکہ وہ کہتے تھے بس ہمیں برابری ملنی چاہیے۔ سفید فام نیشنل پارٹی نے سارے ایسے قانون بنالئے تھے کہ کالے کسی طرح ان کی برابری نہ کرسکیں۔

یہ قانون، کہ کالوں کے علاقے اور ان کے اسکول الگ ہوں اور کالے سفید علاقوں میں صرف شناختی پاس بُک کے ساتھ آسکیں سراسر زیادتی تھی۔یہ بھی ظلم تھا کہ سفید فام اعلیٰ  نسل سے ہیں۔ یہ حضرتِ  نوح کی اولاد میں سے ہیں اور سیاہ فام ان لوگوں کی اولاد ہیں جو نافرمان تھے۔ ان کو غلامی سزا کے طور پر ملی ہے اور ان کو غلام بناکر رکھنا سفید فام لوگوں کا حق ہے ۔

سفید فام آ قاؤں نے سیاہ بچوں کے اسکولوں میں ایسا نصاب رکھا ہے کہ وہ اپنے نچلے مقام سے مطمئن رہیں اور گورے لوگوں کے برابر آنے کی کوشش نہ کریں۔ اسکول الگ اور ان کا انتظام خراب ۔ ان کی بہتری کے لئے کوئی کوشش نہیں۔ میرا دل بھی ان باتوں کو غلط مانتا تھا ۔میرا بھائی میرے گھر میں آتا تو کہتا یہ تُونے اپنے کمرے میں کیسی تصویریں لگا رکھی ہیں۔

کیسی، کیا مطلب؟ میں انجان بن جاتا۔

کوئلے کی کان میں کام کرنے والے کالے لوگوں کی تصویریں۔۔ٹوٹے پھوٹے ٹین اور پھوس کے گھروں کی تصویریں۔

میں کہتا، یہ کا ن کن سونا نکالتے ہیں جس کی وجہ سے ہم امیر ہیں اور یہ ننگے بھوکے ہیں۔ ان ٹوٹے گھروں کی تصویروں میں بھی آرٹ ہے۔ اور میں اس سے کیا کہتا۔

وہ پوچھتا میں ان کالے لیڈروں کی تقریریں سننے کیوں جاتا ہوں تو میں کہہ دیتا اس لئے کہ وہاں سکیورٹی کی وجہ سے میری ڈیوٹی لگائی جاتی ہے مگر جب میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔

کیا ٹھیک کہتے ہیں؟
یہی کہ ہمارے اس ملک میں سونے، ہیرے اور پلیٹینم کے لاکھوں سال پرانے پہاڑ ہیں جو تین ملین سال کی گرمی اور دباؤ سے بنے ہیں۔ ان کے لالچ میں جب یہ ڈچ، فرنچ اور انگریز آئے تو اپنے ترقی یافتہ ہتھیاروں کے بل پر انھوں نے مقامی لوگوں کو مار بھگایا۔ جو رہ گئے ان کو غلام بنا لیا ، ان کے لئے خطرناک کانوں میں یا کھیتوں میں یا گھروں میں کام کریں، اور ایسے قانون بناتے چلے گئے کہ وہ کسی طرح ان کے پنجے سے نہ نکل سکیں۔سفیدلوگ جن کی تعداد کم ہے ابدتک جنوبی افریقہ کے مالک رہیں اور ملک کے اصل باشندے ہمیشہ ہمیشہ غلام رہیں۔بتاؤ یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں؟

ایمان کی بات کہو، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر۔ یہ زمانۂ جاہلیت کی بات نہیں ہے۔؟کالے لوگوں کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں۔ گھر ٹوٹے پھوٹے، اسکول خراب۔ ہر طرح کوشش یہ ہے کہ وہ کسی طرح اُبھر نہ سکیں۔جس کسی نے یہ کوشش کی وہ موت کا لقمہ بنایا گیا یا جیل میں سڑنے کو چھوڑ دیا گیا۔ دیکھو بیسویں صدی کی آخری نصف صدی میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

بھائی ناراض ہوکر کہتا ہے تجھے کیا ہوگیا ہے۔کسی دن تُو بھی مارا جائے گا۔ پتہ ہے سینکڑوں کالے ان ہی باتوں پر مارے جاچکے ہیں اور سینکڑوں جیل میں سڑ رہے ہیں۔
تو تیرا کیا لینا دینا ہے؟میں تو یہ جانتا ہوں کہ تیری سوچ وہ نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔ بھائی کہتاہے!

میں کالوں سے دِلی ہمدردی رکھتا تھا۔میرا دوست لوکس بھی سیاہ فام  تھا جو مجھے بہت عزیز تھا۔وہ میرے ساتھ بہت مخلص تھا۔ وہ میرے کمرے میں لگی تصویریں دیکھ کر نہال بھی ہوتا اور حیران بھی ۔ ایک دن میں نے اس سے کہا۔ تُو اس بات پر حیران نہیں ہوتا کہ سفید ہوتے ہوئے میں نے تجھے دوست بنا رکھا ہے ۔؟

بہت دفعہ حیران ہُوا ہوں پھر یہ سوچ کر نہیں پوچھا کہ کہیں توُ ناراض نہ ہوجائے۔ ویسے یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ تجھے ساری زبانیں کیسے آتی ہیں، انگریزی بھی، افریکانوں بھی ذولو بھی، سوازی بھی، جو ہم غلاموں کی زبان ہے۔

بچپن میں غلاموں ے ساتھ کھیلا کرتا تھا میں۔
تمہارے ماں باپ منع نہیں کرتے تھے۔
نہیں۔
مگر تُو نے یہ زبان والی بات بھی کبھی پوچھی نہیں۔میں نے کہا

یار،  تُو سفید بھی ہے اور پولیس والا بھی۔کسی وقت بھی مجھے جیل میں سڑا سکتا ہے ہمارے لیڈر منڈیلا کی طرح۔

خیر، یہ باتیں ہم سو مرتبہ پہلے بھی کرچکے ہیں اور تو خوب جانتا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں ورنہ تجھے دوست کیوں بناتا، تیرے گھر کیوں آتا جاتا۔
تُو ٹھیک کہتا ہے، میرے والدین یہ دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ایک سفید لڑکا ان کے گھر آتا ہے۔ تم لوگ اسٹیٹس سمبل ہو ہمارے لئے۔ میری بہن بھی تمہیں چھپ چھپ کر دیکھتی ہے۔
اچھا، اس سے کہو سامنے آکر بات کیا کرے۔
یار،تیری ہمدردی دیکھ کر ہی میں کہتا ہوں کہ ایک دن وہ ضرور آئے گا جب یہاں نسلی تعصب ختم ہوجائے گا مجھے اس بات کا پورا یقین ہے۔

بات سن، میں نے کہا۔میں نے تجھ سے اس لڑکی کا ذکر کیا تھا نا جس کے والدین سفید تھے مگر وہ خود کالی تھی، اسے پہلے اسکول سے نکالا اور بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اسے اس کے گھر سے بھی نکال دیا گیا کیونکہ کوئی کالا لڑکا یا لڑکی سفید علاقوں میں نہیں رہ سکتا تھا اور اسے اپنی ملازمہ کے گھر جاکرکالوں کے علاقے میں رہنا پڑا جہاں وہ آج تک رہتی ہے۔ملازمہ کے گھر کا علاقہ اور اس کا گھرظاہر ہے کہ  اس کے والدین کے بنگلے سے بہت مختلف ہے۔جس اسکول میں اس نے جانا شروع کیا وہ بھی اس کے اپنے اسکول سے نچلے درجے کا تھا۔وہ بہت دن تو یہی سمجھتی رہی کہ اسے اسکول سے اپنی کسی حرکت کی وجہ سے نکالا گیا۔ بعد میں اسے اصل صورتِ حال کا پتہ چل گیا۔شروع کے احساسِ جرم نے اور بعد کے حالات نے اسے کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ اپنی زندگی کے بہت سے واقعات اسے یاد نہیں۔ دیکھنے میں وہ چلتی پھرتی، کھاتی پیتی، مگر اصل میں وہ ایک بھٹکی ہوئی روح ہے۔ اب نہ وہ سفید ہے نہ کالی نہ رنگ دار۔لیکن دیکھا جائے تو یہ ہے کہ شکلاً وہ اس   سیاہ محلے اور ماحول میں پوری طرح فٹ ہے وہ اگر سفید فام علاقے میں رہے تو بالکل ہی الگ نظر آئے ۔

اسکی ماں نے نہیں کہا کہ وہ اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے۔؟
بہت کہا، اس کے بابا نے کتنی کوشش کی ،سپریم کورٹ تک گئے کہ یہ ہماری بیٹی ہے یہ سفید فام ہے اگر ہمارے پُرکھوں میں کوئی ایسا ویسا خون رہا ہے تو اس لڑکی کی کیا غلطی ہے، مگر نہیں ماں باپ کی شنوائی نہیں ہوئی۔ جتنی مرتبہ انھوں نے قانون کا سہارا لیا اتنی مرتبہ اس کا رنگ بدلتا رہا۔کبھی سفید کبھی سیاہ اور کبھی اسے رنگدار(colored) قرار دیا گیا۔ سنو،قانون یہ تھا کہ وہ شخص سیاہ فام ہے جس کا رنگ سیاہ ہو اور بظاہر کالا نظر آئے، بالوں میں پینسل پھنسا کر اور اس کا سر جھکا کرتحقیق کی گئی ۔ جب پینسل اس کے گھونگریالے بالوں سے پھسل کرنہیں گری تو وہ یقیناً سیاہ فام ٹھہری۔
یہ اچھی تحقیق ہے ۔ لوکس نے کہا۔

جب طے ہوگیا کہ وہ سیاہ ہے تو وہ سفید فام لوگوں کے گھروں میں کیسے رہ سکتی تھی۔ظاہر ہے کہ ان علاقوں میں کالے لوگ نوکر بن کر رہ سکتے تھے اورصرف ایک خاص پاس بک کے ساتھ داخل ہوسکتے تھے۔وہ خود کہتی تھی کہ بچپن سے اٹھنے والے کیا اور کیوں کے سوالوں نے، ماں باپ اور بھائی سے بچھڑجانے نے جو زخم ڈالے وہ آج بھی گہرے ہیں۔ ان کو بھول جانے کی کوشش میں کتنی ہی اور باتیں بھول گئی ہوں۔ یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے جیسے ذہن میں جالے سے بن گئے ہیں، کتنے ہی سال جیسے اس جالے میں اُلجھ کر  رہ گئے ہیں۔ میں اسے اسکول سے لے کر گیا تھا۔مجھے اس سے ہمدردی ہوگئی تھی اور میں کبھی کبھی اس کے پاس چلاجاتا تھا ۔

تم اب بھی اس کے گھر جاتے ہو؟
ہاں کبھی کبھی، اب وہ بڑی ہوگئی ہے، اس نے ایک ایسے کالے آدمی سے شادی کرلی ہے ، جس کے پہلے تین بچے ہیں۔

اس نے ایک اسٹورکھول لیا ہے میں اس سے کچھ سامان خریدنے کے بہانے چلا جاتا ہوں اور اس سے بات چیت کرتا ہوں مگراس کی حالت اچھی نہیں۔اب وہ مجھ سے بات نہیں کرناچاہتی۔

یار تُونے مجھے بھی اس سے ہمدردی پیدا کروادی۔ کتنا ظلم ہے کہ ماں باپ اسے اپنی بیٹی کہیں اور دنیا کہے نہیں یہ تمہاری بیٹی نہیں ہے یہ تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔

ارے دنیا کا کیا ہے لوگ تو اس کی ماں پر الزام لگاتے ہیں کہ کسی کالے نوکر کے ساتھ یارانہ ہوگا۔ ایک مرتبہ خود اس لڑکی نے مجھ سے کہا کہ اس کا باپ اس سے اچھی طرح بات نہیں کرتا تھا اور راتوں کو والدین کے کمرے سے ان کے لڑنے کی آوازیں آتی تھیں۔ وہ بھی ضرور بیوی سے بدظن ہوگیا تھا۔پتہ ہے ایک اخبارمیں کسی شخص نے خط میں یہ تک لکھ دیا تھا کہ کیوں اس لڑکی کا رنگ بار با  رتبدیل کرتے ہو، بس اس چیز کو حرامی قرار دو اور بات ختم کرو۔
مگر یار یہ بتا ،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ماں باپ گورے ہوں اور لڑکی کالی۔؟

ہوسکتا ہے، کم ہوتا ہے مگر ہوتا ہے۔ملی جلی شادیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ایسے ویسے معاملات بھی چلتے تھے۔ ان ہی میں سے کسی پرکھے کا اثر آجاتا ہے۔
تعجب کی بات ہے۔لوکس سوچ میں ڈوب گیا۔
اتنی تعجب کی بات بھی نہیں ہے۔میں نے کہا۔
تیری تو بڑی معلومات ہیں۔ یار۔۔لوکس نے کہا۔اچھا ،اب کے اس لڑکی سینڈرا سے ملنے جاؤ تو مجھے بھی لیتے جانا۔میں تو اس کا ہم رنگ ہوں مجھ سے تو بات کرلے گی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج نیلسن مینڈیلا کو رہائی ملی تو حسبِ وعدہ میں لوکس کو لے کر سینڈراکے گھر گیا ۔ اس وقت کئی اور لوگ بھی وہاں تھے ۔میڈیا بھی ایسے وقت میں اس کے خیالات جاننے کے لئے موجود تھا۔وہ شروع سے میڈیا کے لئے ایک دلچسپ کہانی رہی تھی۔
لوکس نے اسے بتایا کہ نیلسن منڈیلا جیل سے نکل آئے ہیں اور اب افریقہ کے دن پھرنے والے ہیں تو اس نے کہا۔
وہ کون ہے میں اسے نہیں جانتی۔
کیا، نیلسن مینڈیلا کو نہیں جانتی!کیا کہہ رہی ہے تُو؟میڈیا کا ایک فرد بولا۔
پاگل ہوگئی ہے بیچاری، ورنہ کون ہے جوافریقہ میں اپنے لیڈر، اتنے بڑے محسن کو نہیں جانتا۔لو کس نے کہا۔پھر وہ آگے بڑھا اور بولا ا،رے ، نیلسن منڈیلا وہ شخص ہے جس نے ہم کالوں کو ان کے حقوق دلانے کے کوشش میں ستائیس سال جیل کاٹی اور ۱ب کہیں جاکرآزاد ہُوا ہے۔

تو میں کیا کروں؟
تُو بھی خوشی منا اور کیا کرے گی۔
وہ جھلّا کر بولی۔۔۔کیا اب وہ میرے پچیس سال واپس لادے گا جس سے میں ایک کھاتے پیتے گھر سے اس فارم کے کھنڈر میں پہنچی۔جس کی وجہ سے میں ایسے شادی شدہ شخص کے ساتھ پھنس گئی جس کے پہلے ہی تین بچے تھے اور جومجھے چھوڑ کر بھاگ گیا۔
مگر اب اچھے دن آگئے ہیں،اب ہم آزاد ہیں اور ہمارے وہی حقوق ہیں جو سفید فام لوگوں کے ہیں۔۔باہر میڈیا کے لوگ تمہارا انٹرویو لینے آئے ہیں۔لوکس نے کہا۔
ان سے کہہ دو کہ چلے جائیں، میں کسی کو انٹر ویو نہیں دوں گی۔ان سے کہہ دو کہ پہلے میری ماں کوڈھونڈ کر لائیں جسے میں نے پچیس سال سے نہیں دیکھا۔مجھے میرا گھر اورمیرے پچیس سال واپس دلوائیں۔یہ کہہ کر وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں واپس چلی گئی۔

میڈیا کے لوگ واپس چلے گئے۔اس کے بچے مجھے جانتے تھے میں اس کے بچوں کے ساتھ اس کے بے درو دالان گھر کے اندر چلا آیا۔لوکس بھی ساتھ آگیا۔

و ہ ایک گدڑی میں لپٹی بڑبڑا رہی تھی۔ستائیس سال، ستائیس سال تو جیل میں بند رہا تو میں کھلی جیل میں رہی۔تجھے آزادی ملی تو مجھے کیا ملا۔؟لوکس نے اس سے اور بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
ہم مایوس لوٹ آئے۔

مطلب یہ کہ جب اسے سیاہ فام ملازمہ کے گھر سیاہ علاقے میں بھیج دیا گیا تو اس کے رنگ پر ہی نہیں اس کی قسمت پر بھی آخری مہر لگا دی گئی ۔لوکس نے کہا۔ مگر اب ہم لوگوں کی قسمت بدل جائے گی۔ ہمیں برابری کاحق مل جائے گا۔
میرا خیال ہے ایک دن میں ایسا نہیں ہوگا۔ اب بھی بہت کام کرنا پڑے گا۔میں نے کہا۔
ہاں، بے شک۔مگر شروعات تو ہوجائے گی۔تم سفید لوگوں کے ظلم تو ختم ہوں گے۔
دیکھ تُو نے مجھے پھر سفید ہونے کا طعنہ دیا۔ بات سن ۔۔۔ایک نیک قدم میں بھی اٹھانے والا ہوں۔میں نے کہا۔
وہ کیا؟
میں ایک کالی لڑکی سے شادی کرنے والا ہوں۔
سچ! نہیں، تُو ایسا نہیں کرسکتا۔ ابھی یہ ممکن نہیں ہے۔
میں تجھے کرکے دکھاؤں گا۔ میں نے کہا۔
کون ہے وہ لڑکی؟
تیری بہن نورا۔
نہیں یار۔۔۔ وہ تجھ سے شادی نہیں کرے گی۔اور نہ تُو اس سے کرسکتا ہے۔
اگر میں کہوں کہ وہ راضی ہے۔۔۔اور میں بھی۔
لوکس نے حیران ہوکر میری طرف دیکھا۔تم چھپ چھپ کر ملتے رہے ہو؟
ہاں۔ میں نے کہا۔
تو پھر بھی میں  اس سے  تیری شادی نہیں کرسکتا۔ تیری برادری اور ہماری برادری۔۔۔تیرے والدین کبھی راضی نہیں ہوں گے۔
میرے ماں  باپ راضی ہیں ۔ اب کے جب میں چھٹی پر گیا ہوں تو ان سے ملا تھا وہ بہت خوش ہیں کہ میں ایک کالی لڑکی سے شادی کر رہا ہوں۔
کیا مطلب ؟ جہاں اب تُو رہتا ہے یہ تیرے والدین نہیں ہیں۔؟
نہیں میرے اصلی ماں باپ کالے ہیں۔میں بھی سینڈرا کی طرح ہوں۔ میرے والدین کالے ہیں اور میں سفید،میرے باپ نے شبہے میں میری ماں کو طلاق دے دی۔ماں نے مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہا، مگر جب مجھے اندازہ ہواکہ میں گورا ہوں، اعلیٰ نسل سے ہوں تو میں گھر سے بھاگ گیا۔ جوہانزبرگ سے کیپ ٹاؤن میں آگیایہاں انڈریوز فیملی نے ایک طرح سے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا۔کیپ ٹاؤن مجھے پسند ہے۔ جاہانزبرگ کی طرح اونچی اونچی عمارتیں نہیں ہیں اور ہمارے گھروں کی طرح کی کان کنوں کی خراب اور خستہ بستیاں نہیں ہیں اور ویسے بھی نہ جانے کیوں جہاں پانی ہو وہ جگہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔

جوہانزبرگ کے پاس جو دنیا کی سب سے بڑی سونے کی کان ہے جس کے چکر میں یورپ کے لوگ بھاگے چلے آئے تھے ۔ وہاں میرا باپ کام کرتا ہے۔ تجھے پتہ ہے دو میل زمین کے نیچے جانے کے بعد تو وہ ٹنل شروع ہوتی ہے جومزدووں کو اس جگہ لے کر جاتی ہے جہاں کھدائی ہورہی ہے۔ ہرسال کتنے ہی آدمی اچانک گر نے والے ملبے کے نیچے آ کے مرجاتے ہیں۔ مجھے اپنے باپ پر ترس بھی آتا تھا ۔ کمائی کم ہوتی ہے، بھتوں کا لالچ زیادہ ہوتا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ کام کریں۔میں سوچتا تھامیں تو دوسرے کان کھودنے والے لوگوں کے بچوں کی طرح ہرگز کان میں کام نہیں کروں گا۔
اچھا تو ایسا بھی ہوتا ہے ۔۔۔ تو بھی سینڈرا کی طرح ہے تیرے ماں باپ کالے ہیں!

ہاں۔ مگردیکھا تُو نے گورے کالے کا فرق۔ سینڈرا بے چاری کی ساری زندگی خراب ہوئی اور میں نے اچھے اسکول میں پڑھا، گورے چرچ میں گیا، اچھی نوکری مل گئی ۔پھر بھی میری ہمدردی اپنے لوگوں کے ساتھ رہی اور اب بھی ہے تبھی تو میں نورا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو مجھے یوں بھی بہت اچھا لگتا تھا مگراب اگر تُو میرا بھائی۔۔۔ یہ کہہ کر، جملہ ادھورا چھوڑ،لوکس میرے گلے سے لگ گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply