مجھ جیسے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں نہ تو خود چین آتا ہے اور نہ ہی ان کا اپنا ملک انہیں کوئی ایسا موقع دیتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ خود کی مناسب طریقے سے شناخت کروا سکیں اور نہ ہی انہیں اپنے ملک میں اختیار کی جانے والی وہ روش اپنانا آتی ہے جس کے توسط سے وہ اپنے آپ کو منوا سکیں۔ پھر دیکھیے یہ اپنے آپ کو منوانا یا اپنی شناخت پیدا کرنا بذات خود ایک ایسا بکھیڑا ہے جسے آپ، میں اور ہم جیسے بہت سے لوگ نہیں سمجھ پاتے مگر سب کے سب اس بکھیڑے میں ایسے شامل ہوئے ہوتے ہیں جیسے ان کی زندگیوں کا یہی ایک مقصد ہو، دلچسپ بات یہ ہے کہ مانتے بھی نہیں کہ وہ اپنا مقام بنانے، اپنی شناخت کروانے یا اپنے آپ کو منوانے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ یہی کہتے ہیں کہ بس روزی روٹی کمانے اور بچوں کو پالنے پڑھانے کا مسئلہ ہے جس کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں۔
مگر مجھے نہ تو روزی روٹی کمانے کا چسکہ تھا اور نہ بچوں کو پالنے پڑھانے کے کسی تردد سے میرا واسطہ تھا۔ یہ دونوں بلکہ چاروں کام بتدریج میری بیوی نے سنبھال لیے تھے۔ ارے ہاں یاد آیا میری ایک بیوی اور دو بچے بھی تھے۔ بیوی بیوی کیسے بنی، بچوں کی پیدائش اور ان کے اس خاص عمر تک پہنچنے تک آپس کے تعلقات کیسے تھے اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی جانب ان کا رویہ کیسا تھا۔ معاشرے والے انہیں کیسا جانتے تھے وغیر وغیرہ اس کے بارے میں کھوج لگانے کی ہمیں ضرورت نہیں البتہ اتنا بتانا کافی ہوگا کہ میں بیوی سے اور بیوی مجھ سے نہ صرف اکتا چکے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے بیزار ہو چکے تھے۔ توتکار روز کا معمول بن چکا تھا۔ اہلیہ محترمہ منہ پھاڑ کر کئی بار فارغ خطی کا مطالبہ کر چکی تھیں۔ باوجود اس کے کہ میں دنیا کی ریت رواج کو نہ ماننے کا دعویدار تھا, اصل میں خاصی حد تک روایتی شخص تھا اس لیے جان چھڑانے کی شدید خواہش رکھتے ہوئے بھی اپنی بیوی کو طلاق دینے سے ڈرتا تھا۔ سوچتا تھا کہ علیحدگی کا بچوں پر کیا اثر پڑے گا مگر یہ بھول جاتا تھا کہ بچوں پر تو روز روز کے جھگڑوں کا بھی اثر ہو رہا ہے۔
کشیدہ ازدواجی حالات کے دور میں بیرون ملک سے آیا ہوا ایک دوست ملنے آ پہنچا۔ اسے ہمارے ہاں چند روز قیام کرنا تھا۔ اس کے قیام کے دوران بھی میرے اور میری بیوی کے درمیان چند بار جھگڑے ہوئے تھے۔ دوست نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں ایک دوماہ کے لیے اس کے پاس بیرون ملک چلا آؤں۔ اس طرح ایک تو میرے ذہن کو سکون ملے گا دوسرے ممکن ہے محترمہ بھی میری غیر موجودگی میں اپنے رویے درست کرنے بارے سوچنے لگے۔
بات میرے دل کو لگی تھی۔ میں نے بیوی سے اس ارادے کا ذکر کیا تھا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ بیوی نے بھی سوچا ہوگا آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل. اس نے فوراً میرے ارادے کو قبولیت بخش دی تھی۔ پیسہ ٹکا تھا نہیں۔ جھگڑوں کی بنیادی وجہ ہی یہ کاغذ کے ٹکڑے ہوتے ہیں، جن کے بغیر نہ کوئی سہولت میسر آ سکتی ہے اور نہ اپنے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں۔ اتنے پیسے ضرور تھے کہ ویزا لگوا لیا جاتا۔ ان زمانوں میں اس ملک کا ویزا لگنا کوئی اتنا مشکل نہیں تھا۔ دوست نے جا کر اپنی غیر ملکی بیوی کی طرف سے دعوت نامہ بھجوا دیا تھا اور فیس کی ادائیگی کیے جانے کے بعد ویزا آرام سے لگ گیا تھا۔
دیکھیں جب اللہ معاملات کو خود نمٹانا چاہتا ہے تو وسائل بھی خود ہی پیدا کر دیتا ہے۔ میری اپنے ایک بھتیجے سے جو میرا دوست بھی تھا, دس سال سے کسی مسئلے پر الجھاؤ پیدا ہونے کے سبب بول چال نہیں تھی۔ جن دنوں ویزا لگوایا تھا ان ہی دنوں میں میرے ایک بھانجے کی شادی تھی۔ اس شادی کے موقع پر میرا بھتیجا بھی پہنچا ہوا تھا۔ جس طرح ناراضی ہوئی تھی اسی طرح صلح بھی ہو گئی۔
بھتیجے ندیم کے ساتھ دس برسوں کی بچی کھچی باتیں کرتا رہا تھا۔ جب میں نے اسے باہر جانے کے بارے میں بتایا تو یہ بتاتے بتاتے رہ گیا کہ زاد راہ تو ہے ہی نہیں۔ ندیم بنیادی طور پر کاروباری شخص تھا، میری ایک لمحے کو زبان کیا اٹکی کہ وہ تاڑ گیا معاملہ کیا ہے چنانچہ جھٹ سے بولا،” چنتا نہ کر چاچا سب بندوبست ہو جائے گا۔ جب جانا چاہو تو میرے پاس پہنچ جانا۔ فلائٹ تو وہیں سے جاتی ہے ناں”۔ تو یوں کام بن گیا تھا۔
دوہفتے بعد میں کراچی پہنچ گیا جہاں ندیم کا کاروبار تھا۔ چند روز بعد ٹکٹ خرید لیا گیا۔ ندیم نے چاچا کی خوب آؤ بھگت کی۔ ویسے بھی اس شہر میں میرے جاننے والے چند دوست بستے تھے جن کا لکھنے پڑھنے کے ساتھ واسطہ تھا چنانچہ جتنے روز اس شہر میں قیام رہا میرا وقت اچھا کٹا۔ مجھے گھر کی تلخی بھول گئی تھی۔
ندیم نے مجھے سمجھایا،” یار چاچا ایسے ملک جا رہے ہو جہاں کاروبار کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ تم جا تو رہے ہو سیر ویر کرنے کی خاطر لیکن اگر لگے ہاتھوں کاروبار کے مواقع کا بھی مشاہدہ کر لو گے تو ممکن ہے کہ میں ہاتھ بٹا دوں اور تم کاروبار کرنے لگ جاؤ۔ پھر آنا جانا کوئی مسئلہ نہیں رہے گا، دنیا بھی دیکھتے رہنا اور پیسے بھی کماتے رہنا۔ میری تو یہ بس تجویز سمجھو، باقی تم سیانے ہو۔”
میں نے کبھی کاروبار نہیں کیا تھا۔ میرا ایک کلینک تھا جو بس لشتم پشتم چلتا تھا مگر میں قانع تھا۔ مگر میری بیوی قانع نہیں تھی۔ پھر بچے بھی بڑے ہو رہے تھے۔ سکول کی ابتدائی جماعتوں میں تھے۔ اخراجات نے بڑھنا ہی تھا بلکہ روز بروز بڑھ رہے تھے۔ اسے اس بارے میں کوئی خاص علم نہیں تھا۔ ایسی باتیں تو بس میری بیوی مجھے بتایا کرتی۔ میں چپ رہتا تھا کیونکہ اضافی آمدنی کے امکانات نہیں تھے اور ہوتے بھی تو باوجود اس کے کہ وہ کوئی خاص مذہبی شخص نہیں تھا، بدعنوانی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ گھریلو تلخیوں کی اساس یہی ضروریات کا پورا نہ ہونا اور مستقبل کا غیر محفوظ ہونا تھی، اس بات کو تو ظاہر ہے کہ میں سمجھتا تھا۔ اس لیے مجھے ندیم کی بات اچھی لگی تھی۔ میں نے فوراً ہامی بھر لی تھی کہ میں وہاں جا کر امکانات کا مطالعہ ضرور کروں گا۔ ندیم نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔
جس ملک میں مَیں جانے والا تھا وہ کوئی عام ملک نہیں تھا جیسے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات ہیں جہاں کاروبار کے لگے بندھے اصول ہیں بلکہ یہ وہ جسے کہتے ہیں “وکھری ٹیپ” کا ملک تھا۔ یہ نہ تو مغربی ملک تھا اور نہ ہی مشرقی۔ یہ اتنا مغربی تھا جتنا مشرق کے باسی اسے سمجھ سکتے تھے اور اتنا ہی غیر مغربی تھا جتنا اہالیان مغرب کو وہ لگ سکتا تھا۔ مشرقیت تو نام کو نہیں تھی لیکن مشرق سے اس کا تعلق ضرور گہرا تھا۔ آپ سوچتے ہونگے کہ بھئی ملک کا نام بتانے میں کیا حرج ہے، بتا دو تو پڑھنے والے خود ہی طے کر لیں گے کہ یہ کیسا ملک ہے۔ نہیں جناب ایسا نہیں ہے جب تک کوئی اس ملک میں پہنچ کر تب تک نہ رہے جب تک اس کے گھٹنوں میں درد ہونے لگے تو وہ نہیں جان سکتا کہ یہ کیسا ملک ہے۔ اس لیے بغیر نام کے ہی گزارا کیجیے۔
لوگ عموماً غیر ملک کے سفر پر، وہ بھی اگر پہلا سفر ہو، جاتے ہوئے خوش ہوتے ہیں۔ میرا یہ پہلا نہیں بلکہ دوسرا بیرون ملک سفر تھا۔ میں دس برس پیشتر کام ملنے پر ہمسایہ ملک ایران گیا تھا مگر پہلی مدت ملازمت ختم ہوتے ہی وطن لوٹ آیا تھا۔ اگر چاہتا تو مدت ملازمت میں توسیع کروا سکتا تھا مگر مجھے اس ملک میں سیاسی گھٹن اچھی نہیں لگتی تھی اس لیے وہاں سے جلد از جلد بھاگ کر وطن عزیز لوٹ جانے بارے سوچتا رہتا تھا۔
بالآخر وہاں سے وطن روانہ ہونے سے دو روز پہلے جب میں بیوی بچوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں مقیم تھا مجھے خیال آیا تھا کہ اچھے بھلے مشاہرے والی ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہے، شاید غلط کر رہا ہے۔ بیوی سے جب اس کا ذکر کیا تو اس نے تنک کر کہا تھا،” تم نے کبھی کسی کی سنی بھی ہے۔ اپنی مرضی کرتے ہو۔ واپس جا کر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگا تو ہوش ٹھکانے آ جائیں گے”۔
میں بہانہ بنا کر ہوٹل سےنکلا تھا اور سیدھا اس محکمے کے صدر دفتر گیا تھا جس سے میں نے استعفٰی دیا تھا۔ میں نے پھر سے ملازمت پر لیے جانے کی زبانی درخواست کی تھی۔ متعلقہ اہلکار نے انکار نہیں کیا تھا بس اتنا کہا تھا،” ہماری پالیسی تبدیل ہو چکی ہے۔ اب آپ کو پیشہ ورانہ امتحان دینا ہوگا” یہ کہتے ہوئے ساڑھے تین سو نظری سوالوں پر مشتمل کاغذوں کا ایک پلندہ مجھے تھما دیا تھا اور بولا تھا کہ چاہیں تو ساتھ والے خالی کمرے میں بیٹھ کر جواب لکھ لیں۔
میں جانتا تھا کہ عملی طور پر تو میں اپنے پیشے میں طاق ہوں مگر علم حاصل کرنے کے ایک عرصے بعد نظری معلومات اتنی تازہ نہیں رہیں جتنی ایسا امتحان دینے کے لیے عموماً درکار ہوتی ہیں۔ قصہ مختصر میں اس امتحان میں ناکام رہا تھا۔ خاصی دیر بعد لوٹا تھا اس لیے بیوی نے لامحالہ پوچھنا ہی تھا کہ میاں اتنی دیر کہاں لگائی؟ خجل سا ہو کر سچ بتا دیا تھا۔ سچ بولنا میری بیماری ہے اور میں جانتا تھا کہ یہ بیماری تڑپاتی رہتی ہے پر جان نہیں لیتی۔ بیوی کچھ نہیں بولی تھی بس یونہی بلاوجہ بچے پر برس پڑی تھی۔ بچے بیچارے نے رونا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اسی میں عافیت جانی تھی کہ چپ سادھے رہوں۔ دو روز بعد ہم جس طیارہ میں سوار ہوئے تھے فضا میں بلند ہو گیا تھا۔
میں خوش نہیں تھا۔ وہ بیوی بچے، رشتے دار، زبان، ثقافت، شور، گرد، مکھیاں، غلاظت، چھپکلیاں، بقر عید اور اس کے کئی روز بعد تک گلیوں میں پڑی جانوروں کی اپھنی ہوئی، بو دیتی اوجھڑیاں انتڑیاں، بدرووں میں بہتا ہوا انسانوں کا فضلہ، موتیا کے پھول، چنبیلی کی کلیوں کی خوشبو، کوئل کی کوک، فاختاؤں کی گھگو گو، کھلتے گلاب اور ایسی لڑکیاں پیچھے چھوڑے جا رہا تھا جن کے ڈھیلے کپڑوں میں سے ان کے بدن کی کوئی ڈھلان اور کوئی بلندی نمایاں ہونے سے قاصر رہتی ہے، مگر پھر بھی پیاری لگتی ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ میں مسافر نہیں مفرور ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انسانوں کی بھلائی کے جس مقصد کو پانے کی خاطر صَرف کیا تھا وہ تصور بھک سے اڑ گیا تھا۔ اس مقصد کی خاطر تگ و دو کرتے ہوئے میں نہ تو دین کے بارے میں کچھ سوچ سکا تھا اور نہ ہی دنیا کے بارے میں کچھ خیال کر پایا تھا۔ میرا مقصد اب میرے لیے طعنہ بن کر رہ گیا تھا۔ سب سے زیادہ طعنوں کے نشتر میری بیوی چبھویا کرتی تھی۔ چبھوتی بھی کیوں نہ۔ وہ میرے مقصد سے بہت زیادہ اتفاق نہ کرتے ہوئے بھی میرے بیسیوں ساتھیوں کے لیے کھانا پکاتی تھی اور کوشش کرتی تھی کہ ان سب کو ان کے ہاں گھر کا سا سکون ملے۔ مگر جی بھر کر چگنے والے وہ سب پنچھی اپنے اپنے گھونسلوں میں جا چھپے تھے شاید، کچھ بھی تو باقی نہیں رہا تھا۔
” نہیں، نہیں! میں تو استراحت کرنے کی خاطر عازم سفر ہو رہا ہوں۔ دو ایک ماہ بعد واپس آ جاؤں گا” میں خود کو تسلی دیتا تھا مگر مجھے لگتا تھا جیسے خود سے جھوٹ بول رہا ہوں۔ مجھے ایسا کیوں لگتا تھا؟ مجھے اس کی وجہ خود بھی معلوم نہیں تھی۔ شاید مایوسی تھی، اضطراب تھا، بے یقینی تھی یا یونہی بس کچھ بھی نہیں تھا, خواہ مخواہ کی سوچ تھی۔
بالآخر میں نے خود کو ملک کے سب سے بڑے شہر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے لاؤنج میں بیٹھا ہوا پایا تھا۔ میرے سامنے ایک غیر ملکی جوان لڑکی بیٹھی تھی جس کے ہمراہ ایک ملیح شکل والا مسکراتا ہوا نوجوان تھا۔ کیونکہ وہ میں گیٹ کے سامنے بیٹھا تھا جہاں سے مجھے طیارے میں داخل ہونا تھا چنانچہ ظاہر تھا کہ لڑکی اسی ملک سے تھی، میں نے سوچا تھا۔ نوجوان البتہ مقامی تھا۔ میں نے مناسب جانا تھا کہ ان سے راہ و رسم پیدا کر لوں۔
“السلام علیکم! کیا آپ وہاں جا رہے ہیں” میں نے اس شہر کا نام لے کر پوچھا تھا جو انگریزی حروف میں میرے بورڈنگ کارڈ پر درج تھا۔
“جی!” نوجوان نے حسب عادت مسکراتے ہوئے مختصر جواب دیا تھا۔
” میں بھی وہیں جا رہا ہوں، آپ کا نام کیا ہے؟ مجھے مجاہد مرزا کہتے ہیں” اس بار میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
” جی مجھے عباس کہتے ہیں” نوجوان نے بتایا تھا۔
مجھے لگا تھا کہ یہ نوجوان میرےے ایک شناسا شخص کا فرزند ہے جو تعلیم کے سلسلے میں اس ملک میں تھا۔
استفسار پر نوجوان نے اثبات میں جواب دیا تھا۔
اس کی ساتھی لڑکی مسلسل منہ چلا رہی تھی۔ میں نے بے تکلف ہونے کی خاطر بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا، “بھئی تمہاری دوست کھاتی بہت ہے” نوجوان تھوڑا سا ہنسا تھا، جب اس کی ساتھی لڑکی نے اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا تو اس نے اسی طرح مسکراتے ہوئے اپنی زبان میں کچھ کہا تھا، لڑکی کا منہ بن گیا تھا اور اس نے میری جانب خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا۔ مجھے لگا تھا کہ شاید کچھ غلط ہو گیا ہے۔ لڑکی نے کھانے والی چیزوں کے پیکٹ سمیٹ کر اپنے بیگ میں بھر لیے تھے۔ عباس اٹھ کر شاید باتھ روم کی جانب چل پڑا تھا۔ میں نے بھی عباس کے جاتے ہی وہاں سے اٹھ جانا بہتر سمجھا تھا۔ کہیں بہت عرصے بعد جا کر مجھے معلوم ہوا تھا کہ جو کچھ لڑکی کے بارے میں نے کہا تھا وہ میری اس ملک کے حوالے سے پہلی “ثقافتی غلطی” تھی۔ کم از کم کسی خاتون کو اس کے سامنے “موٹی” یا “پیٹو یعنی بسیار خور” نہیں کہنا چاہیے چاہے موصوفہ میں یہ دونوں صفات کیوں نہ ہوں۔ میں نے بعد میں اس ملک جانے والے سبھی لوگوں کی طرح بہت سی غلطیاں اور بھی کی تھیں۔
اس سے پہلے کہ طیارے میں داخل ہوں اور اس کی گہما گہمی اور سفر سے متعلق روداد شروع ہو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس ملک کے ساتھ میرا انسلاک کیا فقط وہاں سے آئے ہوئے دوست کی ترحم آمیز دعوت تک محدود تھا یا اس کی کوئی اور جہت بھی تھی۔ یہ بتانا اس لیے مناسب ہے کیونکہ اس ملک میں چند برس پہلے تک جو سیاسی معاشی نظام رائج تھا اسے میں اور اس ملک سے دور دوسرے ملکوں میں بسنے والے بہت سے مجھ جیسے لوگ بنی نوع انسان کے لیے مثالی نظام تصور کیا کرتے تھے۔ اس ملک کے دوسرے ملکوں میں موجود اپنی ہمدرد سیاسی جماعتوں کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ روابط تھے جسے ان پارٹیوں کی قیادت کھلم کھلا جھٹلایا کرتی تھی۔ ویسے بھی میرے وطن میں ان پارٹیوں کی بنت چند بوڑھوں اور چند چالاک ادھیڑ عمر لوگوں پر مشتمل قیادت اور چند درجن جوان پیروکاروں پر مبنی ہوتی تھی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں