دکھی زندگی گزارنے کے سات گُر۔۔وہاراامباکر

خوش کیسے رہنا ہے؟ بہت سے لوگ اس بارے میں مشورے دیتے ہیں۔ اس پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ “خوشی کیا ہے؟” خود اس کا کوئی اچھا جواب نہیں۔ شاید اسی وجہ سے خوش رہنے کی کتابیں اور مشورے اکثر کام نہیں کرتے۔ لیکن دوسری طرف ۔۔۔ اس کے متضاد کے ساتھ ایسا نہیں۔ ناخوش ہونے کی پہچان بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ “اداس زندگی کیسے گزاریں؟” کے موضوع پر کتاب لکھنا اور اس پر عمل کرنا بہت آسان ہے۔ اگر آپ دنیا کے اداس ترین شخص بننا چاہتے ہیں تو یہ مضمون آپ کی راہنمائی کے لئے ہے۔

دکھ کے سمندروں پر تیرتا دکھی ترین انسان آخر کیسے بنا جائے؟ تسلی رکھئے۔ یہ خوش رہنے کی موٹی موٹی کتابوں پر عمل کرنے کی نسبت بہت آسان ہے اور شاید، ان میں سے چند ایک ہدایات پر آپ اس وقت بھی بہترین طریقے سے عمل پیرا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہلنے جلنے سے ممکنہ حد تک اجتناب کریں
جس قدر ممکن ہو، گھر کے اندر رہیں اور گھر میں کوشش کریں کہ ایک ہی کمرے میں۔ اس کے لئے آپ کپڑوں کے ڈھیر سے راہنمائی لے سکتے ہیں جو ایک ہی جگہ پر آرام سے پڑا رہتا ہے۔ آپ کو ہلنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ بہتر یہ ہے کہ کھڑکی کھول کر روشن دن کا نظارہ بھی نہ کریں۔ ہر قسم کی ورزش سے بالکل پرہیز کریں۔ اس سے انعامی کیمیکل بھی دماغ سے دور رہیں گے جو نہ صرف ناخوشی میں کمی لا سکتے ہیں بلکہ آپ کے مزید ورزش پر اکسا کر ساکن رہنے میں خلل ڈال سکتے ہیں۔

ساکن رہنے کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ اس سے میڈیکل مسائل جنم لے سکتے ہیں اور یہ مسائل آپ کی دکھی زندگی کو مزید دکھی رکھنے میں مددگار ہوں گے۔

تو یاد رکھیں، اپنی زندگی کو کم سے کم قطر کے دائرے میں گزاریں۔ حرکت کم سے کم کریں۔ کپڑوں کے ڈھیر کو اپنا آئیڈیل بنا لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیند کے لئے کسی شیڈول کی پابندی نہ کریں
نیند پوری نہ ہونے کا قہر دکھ کے سمندروں میں آپ کا ساتھی ہو گا۔ نہ صرف یہ زندگی کو براہِ راست ناخوشگوار بنائے گا بلکہ دماغ کے کام کرنے والے حصے کو بھی قابو کر کے رکھے گا۔ دماغ کا یہ حصہ اس سمندر کے افق میں نظر آتے خوشی کے جزیروں کی طرف لے جا سکتا ہے۔ نیند کا باقاعدہ سائیکل بنانا ایک نازک چیز ہے اور اس کی بنانے میں کم سے کم تین روز لگتے ہیں۔ اس لئے ہفتے میں کم از کم دو بار سونے میں تاخیر کریں۔ کوشش کریں کہ یہ تاخیر کئی گھنٹوں کی ہو۔ اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ بیدار ہونے میں بھی کسی شیڈول کا خیال نہ رکھیں۔ کسی روز بہت دیر سے سوئیں۔ اور اگلے روز نیند پوری کئے بغیر جلد جاگ جائیں۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے اگلے روز یہ شیڈول الٹا لیں۔ ایسا جتنا زیادہ کریں گے، آپ کے لئے معمول کی نیند لینا مشکل تر ہو جائے گا اور آپ کو پتا بھی نہیں لگے گا کہ آپ کی گرتی صحت اور بڑھتا ہوا چڑچڑا پن آپ کے لئے کتنے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

آپ آزاد پیدا ہوئے تھے۔ اب نیند کے اس شیڈول کی غلامی کیوں کی جائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکرین کو تکنے کے وقت میں اضافہ کریں
ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہم بھلا کوئی غاروں میں رہتے ہیں؟ ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون، ٹیبلٹ۔ یہ سب ہمارے لئے ہی تو ہے۔ زیادہ سے زیادہ وقت اپنی آنکھیں ان کی سکرین پر مرکوز رکھیں۔ (ان کو آن کر کے)۔ ایسا کرنا اس سے پہلے دئے گئے ساکن رہنے والے مشورے میں بھی مدد کرے گا اور نیند خراب کرنے میں بھی۔ کیونکہ سکرین نہ ہو تو آپ بیٹھے بیٹھے بور ہو سکتے ہیں اور بوریت آپ کو حرکت پر مجبور کر سکتی ہے۔ موبائل یا ٹی وی پر آنکھیں جمائی رکھنا اس سے باز رکھے گا۔ آپ کو تفریح فراہم کرے گا۔
اسی طرح تھکن آپ کو سونے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس وقت پر اپنی آنکھیں اس سکرین کے سپرد کر دیں۔ ہاتھ میں موبائل پر دلچسپ چیزیں دیکھتے دیکھتے سوئیں۔ آپ کی نیند بے قاعدہ رہے گی اور اگر درمیان میں آنکھ کھلی تو فوراً دوبارہ سونے کے بجائے چیک کریں کہ کوئی دلچسپ اپ ڈیٹ تو کہیں پر نہیں ہے؟

اور اگر سکرین سے دور ہو گئے تو کہیں خوشی کے جزیرے پر نظر نہ پڑ جائے۔ یہ اچھا نہیں ہو گا۔ اداسی کی لہروں میں بہتے رہیے۔

اور ایسا کرنے میں آپ کے بہت سے ساتھی ہیں۔ دنیا کے بہترین دماغ اس پر کام کر رہے ہیں کہ آپ کو سکرین کے ساتھ کیسے چپکائی رکھا جائے۔ ٹی وی چینل کے پروگرام، سوشل میڈیا اور یوٹیوب کے الگورتھم آپ کے ساتھی ہیں۔ آپ بھی اس میں اپنا بھرپور طریقے سے حصہ ڈالئے۔ اور خاص طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ بہت کچھ شئیر کر کے انہیں بھی اپنے سفر کا ساتھی بنائیں۔ (یہاں پر خاص خیال رکھیں کہ اس میں بے کار ترین مواد کی کثرت ہو۔ کئی بار گہری باتیں پڑھ کر دماغ کام کرنے لگتا ہے اور ہم ایسا بالکل نہیں چاہتے)۔

ٹیکنالوجی کی نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سکرین کو اپنے منفی جذبات بھڑکانے میں استعمال کریں
تاریک پانیوں کے اس سفر میں سکرین سب سے زیادہ فائدہ اس وقت دیتی ہے جب آپ اسے اپنے غصے اور بے چینی میں اضافے کے لئے استعمال کیا جائے۔ خاص طور پر جذباتی مواد ان چیزوں کے بارے میں پڑھیں جن کے بارے میں آپ کا نہ کوئی کنٹرول ہے اور نہ ہی ان پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے بارے میں بہت زیادہ باخبر رہیں اور ساتھ ہی ساتھ عملی طور پر کچھ بھی نہ کریں۔ وہ چیزیں جن کے بارے میں آپ کچھ کر سکتے ہیں اور جن کی آپ کو کچھ پرواہ ہے، وہ آپ کو عمل پر مجبور کر سکتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ عمل ہمیں دکھ اور مایوسی کے گہرے پانیوں سے نکال سکتا ہے۔ اس بارے میں خبردار رہیں۔ ہر چیز کے منفی پہلو کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ اس سے مایوسی بڑھے گی اور غم و غصے میں اضافہ ہو گا۔ مایوسی کے یہ سیاہ بادل دکھ کے گہرے پانیوں کی طرف لے جائیں گی۔

اب ایک مسئلہ آپ کا ایک اور مینوفیکچرنگ فالٹ ہے جو بار بار کچھ کرنے کی طرف اکساتا رہے گا۔ اس کو نظرانداز کرنا مشکل ہے لیکن اس کا حل ہے۔ وہ کام کریں جو بالکل بے معنی ہوں۔ اس کی مثالیں: دنیا میں غربت کا مسئلہ آپ کے لئے تکلیف دہ ہے۔ لوگوں کے ناگفتہ بہ حالات آپ کو آبدیدہ کر دیتے ہیں۔ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اب فیس بک پر اپنی پروفائل پکچر میں لکھ دیں، “غربت نامنظور” اور بینر پر لکھ کر لگا دیں، “غربت ختم کرو” اور پھر جب پھر بھی کچھ نہ بدلے تو مزید دلبرداشتہ ہو جائیں۔

آخر آپ دنیا کو بہتر کرنے میں اپنا کچھ حصہ تو ڈال ہی رہے ہیں نا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی میں مقصد نامی چیز سے دور رہیں
دماغ کا ایک حصہ بغاوت کر رہا ہے۔ ایسی زندگی سے فرار حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ اگر آپ نے احتیاط نہ کی تو یہ والا حصہ کہیں آپ کو بچا نہ لے لیکن ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اس کو دھوکہ دے سکتے ہیں اور اسے بھی اپنے کام کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ مقصد تک پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو واضح ہونا چاہیے۔ ایسا ہونا چاہیے جس کی پیمائش کی جا سکے۔ ایسا ہونا چاہیے جس پر کام کیا جا سکے۔ ایسا ہونا چاہیے جس کے لئے آپ خود ذمہ داری لے سکیں اور ایسا جو خاص وقت میں ہو سکے۔ آپ پہیہ گھما دیں۔ مبہم مقاصد جن تک پہنچا نہ جا سکے جو آپ کے لئے غیرمتعلقہ ہوں اور جنکا کوئی معینہ وقت نہ ہوں۔ ان کو اپنے لئے سیٹ کر لیں۔ اب یہ آپ کے مددگار ہوں گے۔ ٹارگٹ کو بھی غیرواضح رکھیں، راستے کو بھی۔

اور اگر کہیں کام کرنے کا اراردہ ابھرنے لگے تو ٹارگٹ اتنا اونچا رکھیں جس کو حاصل نہ کیا جا سکے تا کہ ناکامی یقینی ہو۔ مثال کے طور پر “میں پورا گھر آج ہی صاف کر کے ایک ایک چیز چمکا دوں گا” ایک بہتر ٹارگٹ ہے بجائے اس کے کہ “میں آج کپڑے صاف کر لوں گا”۔

ایک اور بڑا کارآمد حربہ یہ ہے کہ ابھی سے اس پر پریشان ہونے لگیں کہ ٹارگٹ کے بعد کیا ہو گا۔ مثلاً، اگر ایپ بنانے کا ارادہ کر لیا ہے تو ابھی سے اس سوال کی طرف توجہ دیں کہ اس کی مارکٹنگ کیسے ہو گی۔ اس سے فائدہ یہ بھی ہے کہ بڑا سوال کہ “ایپ بنانی کیسے ہے؟” سے دور رہیں گے۔ رینگنے سے پہلے بھاگنے کی فکر کرنے سے دماغ کا پروڈکٹو حصہ دوسری طرف مبذول ہو کر کام نہیں کرے گا۔

اور کام کا وقت طے کرنے سے بجائے انتظار کریں کہ خود ہی موٹیوشن کہیں سے ٹپک پڑے گی۔ دماغ کا سیلف امپروومنٹ والا حصہ ہر چھوٹے قدم کو حاصل کرنے کے بعد مزید آگے بڑھنے کو اکساتا ہے۔ مبہم، بڑے اور ناقابلِ حصول ٹارگٹ سیٹ کر کے ان میں ناکام ہونا اس کا علاج ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشی کا پیچھا کریں
اگر دماغ کا یہ تنگ کرنے والا حصہ ابھی بھی باز نہیں آیا تو اس کو براہِ راست اس کام پر لگا دیں کہ وہ اس تاریک سمندر سے خوشی کے جزیروں کا سراب تلاش کرے۔ انسانی ذہن ایسا ہے کہ اگر یہ خوشی کا پیچھا کرے تو نتیجہ اس کا برعکس نکلتا ہے۔ تصور کریں کہ خوشی کوئی جگہ ہے جہاں پر خوش لوگ بستے ہیں جو ہر وقت خوش رہتے ہیں۔ اس سے خوشی ایسا ناقابلِ حصول جذبہ بن جائے گا جس تک آپ تو کیا، دنیا میں کبھی کوئی نہیں پہنچ سکا۔

اصل خوشی ایسا پرندہ ہے جو خاموشی سے آپ کی کشتی پر اترتا ہے لیکن اس وقت کبھی نہیں جب آپ مستقل طور پر اس کے لئے نظریں جمائی رکھیں۔ تو اس سے دور رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس سراب کی طرف ٹیلی سکوپ لگا کر دیکھتے رہیں اور اپنی کشتی کی سمت کی پرواہ بالکل نہیں کریں۔

اور پھر، تسلی رکھیں۔ یہ کبھی آپ کی کشتی پر نہیں آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی وقتی خواہشوں کا کہا مانتے رہیں
دکھ کے گہرے پانی کی طرف سفر آسان ہے۔ خواہشوں کا تاریک مقناطیسی فیلڈ آپ کا راہنما ہے جو آپ کو درست سمت میں لے جاتا ہے۔ آپ سست پڑے رہنا چاہتے ہیں۔ دیر تک سوئے رہنا چاہتے ہیں۔ موبائل پر بے معنی چیزیں میں مصروف رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی عملی کام نہیں کرنا چاہتے۔ سطحی تفریح کے خواہشمند ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہی تو آپ کر لینا ہی تو آپ کو مزید دکھی کرتا ہے۔ آپ کا یہ قطب نما آپ کی درست سمت میں ہر وقت راہنمائی کر رہا ہے۔ اس کی پیروی کرتے رہیں۔

اس میں آپ کا دشمن وہ حصہ ہے جو طویل مدت کے قطب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس موذی سے دور رہیں۔

طویل مدت؟ ہاہاہا۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ پتا نہیں، ہو بھی یا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو بس دکھی رہنا اتنا ہی آسان ہے۔ اس سمندر میں اپنی کشتی ڈال دیں اور لہروں کے ساتھ ساتھ خود ہی گہرے پانیوں تک پہنچ جائیں گے۔ یہ بھی کوئی مشکل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور ممکن ہے کہ ان میں سے چند چیزوں کے بارے میں آپ پہلے ہی ٹھیک راہ پر ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply