صرف میں ہدایت یافتہ ہوں (2)-مرزا مدثر نواز

خود کو ہر معاملے میں حق پر سمجھنا اور دوسرے کو غلط گرداننا اچھی بات نہیں۔ ہم صرف وہ سچ بولنا اور سننا چاہتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے اور ہماری مرضی کے عین مطابق ہو۔ ہر کوئی یہی تصور کرتا ہے کہ فلاں معاملے میں میری تو کوئی غلطی ہے ہی نہیں جبکہ اصل قصور تو دوسرے کا ہے۔ اسی لیے دو لوگوں کے درمیان کسی معاملے میں جب نزاع کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو وہ فیصلے کے لیے کسی تیسرے فریق کو درمیان میں ڈالتے ہیں جو دونوں طرف کے دلائل اور گواہان کو سننے کے بعد اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ اسی لیے کمزور لوگ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تا کہ درست و غلط میں تمیز ہو سکے اور اس پر عدالتی مہر ثبت ہو جائے۔ اگر کسی نزاع کو ختم کرنا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ جو ہوا‘ سو ہوا‘ بات ختم‘ لیکن اگر ایک دوسرے کی غلطی تلاش کرنے لگ جائیں یا خود ہی منصف بن جائیں تو اختلافات کبھی ختم نہیں ہوتے۔
؎ اسی کا شہر‘ وہی مدّعی‘ وہی منصف
ہمیں یقین تھاہمارا قصور نکلے گا (امیر قزلباش)

کہا جاتا ہے کہ جب حق بات سمجھ آ جائے اور دل یہ مان لے کہ یہی حق ہے تو پھر اس کا انکار کرنا حقیقت میں اصل کِبر کہلاتا ہے۔ مکہ کے اکثر چودھریوں کو اس بات کی سمجھ آ چکی تھی کہ  نبی کریم ﷺ جو کہتے ہیں وہی سچ ہے لیکن ضد‘ اَنَا‘ نام نہاد شان و شوکت و وڈیرہ پن و چودھراہٹ نے دل نرم نہ ہونے دیا کہ مکّے کا سردار اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر محمدکی غلامی کر لے‘ یہ نہیں ہو سکتا۔ انسان خطاء کا پتلا ہے اور دن میں نہ جانے کتنی بار جانے انجانے میں غلطی کا مرتکب ہوتا ہے‘ لہٰذا آ پ کے وجود سے اگرکسی کی دل آزاری ہو جائے‘ سخت الفاظ ادا ہو جائیں اور بعد میں دل نادم ہو جائے تو معذرت کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے‘ چاہے ضد‘ انا‘ تکبر‘ میں‘ آپ کو کتنا ہی باز رکھنے کی کوشش کرے۔ غلطی یا گناہ ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس پر اڑ جانا اور اس کو درست ثابت کرنے کے لیے تاویلیں ڈھونڈنا اصل غلطی یا گناہ ہے ”عذر گناہ بد تر از گناہ“۔

تاریخ داں بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں بغداد و عراق علم کا مرکز تھا اور طالبعلم دوردراز سے وہاں کا سفر کرتے تھے۔ مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے علاوہ دوسرے ادیان کے علما  کے ساتھ بھی مناظرے و مباحثے ایک عام سی بات تھی۔ علما  تحصیل علم کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کیا کرتے اور عقیدے و سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قتل کے فتوے دینے کا رواج نہ تھا‘ دوسرے الفاظ میں ایک دوسرے کی تلخ باتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ابھی موجود تھا۔ اسلام کو کسی چیز نے اُن اختلافات سے زیادہ نقصان نہیں پہنچایا‘ جو اختلاف آراء کی بناپر قائم ہو گئے۔ ان اختلافات کی بنیاد اگرچہ خود صحابہ کے زمانہ میں شروع ہو چکی تھی لیکن اس زمانہ تک ان اختلافات پر ہدایت و گمراہی کا مدار نہ تھا‘ جو لوگ مختلف آرا ء  رکھتے تھے‘ ان میں سے کبھی کسی نے کسی پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ امام ابو حنیفہؒ نے خوارج‘ معتزلہ‘ اباضیہ‘ صغریہ‘ حشویہ وغیرہ سے اکثر بحثیں کیں اور ہمیشہ غالب رہے۔ اسلام کی ترقیاں اسی وقت تک رہیں جب شخصیت پرستی غالب نہیں تھی اور لوگ باوجود حسنِ عقیدت کے بزرگوں اور استاذوں کی رائے سے علانیہ مخالفت کرتے تھے اور خیالات کی ترقی محدود نہ تھی۔ شیعہ و سنّی دونوں نے مانا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی معلومات کا بڑا ذخیرہ ان کے استاد امام باقرؒ کا فیض صحبت تھا۔ امام ابو حنیفہ نے ان کے فرزند رشید حضرت جعفر صادقؒ کی فیض صحبت سے بھی بہت کچھ فائدہ اٹھایا جس کا ذکر عموماََ تاریخوں میں پایا جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے ہونہار شاگردوں قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی نے بھی کئی معاملات میں اپنے استاد کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ سید سلیمان ندوی نے کئی موقعوں پر اپنے استاد مولانا شبلی نعمانیؒ سے اتفاق نہیں کیا اور ان کے مقابلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply