دھیان/اشفاق احمد

یہ وہ واحد لفظ یا قدر ہے جو گویا ہر اچھی یا بری قدر کا اولین عنوان ہے۔ کچھ چیزیں “constant” کی حیثیت رکھتی ہیں کہ چاہے دنیا جتنی بھی بدل جاۓ اور جتنی بھی ترقی کرلے، ایسی قدریں اپنی اہمیت قائم رکھتی ہیں۔ ان قدروں میں سے ایک ” دھیان” ہے۔ کچھ عرصے سے اس ایک توشہ میں جب بھی محسوس ہونے لگتی ہے تو سب چیزیں ایک طرف رکھ کر اس ایک دہلیز کی طرف لوٹ جاتا ہوں تاکہ اپنے بکھرے وجود کے ٹکڑوں کو سمیٹ کر پھر سے تازہ دم ہو جاؤں۔

چلیں آسان لفظوں میں دنیا کو دو حصوں میں بانٹ لیتے ہیں۔ ایک اندر کی کائنات اور ایک باہر کی دنیا۔ ہم لمحہ موجود میں اندر جو ہیں سو وہی ہیں اور باہر ہم ایک ایسی چہل قدمی یا دوڑ میں مگن ہوتے ہیں جس میں یا تو ہم کسی قدر کو چھوڑ کر آ رہے ہوتے ہیں اور یا پھر کسی قدر کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ شروع سے جاری ہے۔ توازن کی حالت میں یہ دوڑ یا چہل قدمی ایک طرح سے محرک “excitation” کا سا کام کرتی ہے اور اسی سے باہر کی دنیا کی تجسیم بھی ہوتی ہے لیکن عدم توازن کی کیفیت میں یہی محرک پھر تحلیل “lysis” بن جاتی ہے اور آج کے ڈیجیٹل دور میں اسی lysis کی شرح بڑھ گئی  ہے۔ اگر ہماری حرکت کے ساتھ ہمارے وجود اور شخصیت کو نفع پہنچ رہا ہے اور باہر کی دنیا کی مثبت تجسیم ہو رہی ہےتو یہ طبعی excitation ہے اور ہماری حرکت (ذہنی یا جسمانی) ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر پگھلا رہی ہے تو یہ تحلیل ہے۔ یہ بھی مرضیاتی کیفیت نہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ اسے جاری رہنا ہے لیکن اگر اس سے باہر کی دنیا میں یا پھر خود ہمارے اندر منفی تجسیم ہو رہی ہے تو آسان لفظوں میں یہی پگھلنے کا عمل ہے اور اس کی سب سے اولین علامت تھکن fatigue ہے چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی۔ یہی fatigue ہی ہمارے تمام دیرینہ عارضوں کی بھی جڑ ہے۔ ہم روبوٹ نہیں ہیں البتہ ہم میں سے کامیاب وہ ہے جو اس تھکن کو چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی، کم سے کم کر سکے یا پھر اس کی سمت موڑ سکے۔ یقین مانیے اگر ہم یہ ایک معرکہ سر کر لیتے ہیں توکمال کر دیں گے۔

دراصل ہم میں سے ہر ایک تین اداؤں میں بٹا ہوا ہے۔ فرد، اداکار اور کردار۔ فرد ہمارا قالب ہے۔ اداکار وہ ہے جو ہم اپنی کسی بھی کیفیت کو ایک طرف رکھ کر باہر کی دنیا کو دکھا رہا ہوتا ہے۔ کردار، جو ہماری اسی اداکاری کے اچھا یا برا یعنی معنی خیز ہونے کا اصل محرک ہوتا ہے۔ کہانی فرد سے شروع ہونی ہے اور کردار میں ڈھلنی ہے اور یہ بہت دلچسپ کہانی ہے۔ اگلی اقساط میں میں ایک ایک کی گرہ کھولنی ہے۔ چاہے طبعی عمل ہو، مزمن بیماری کی صورت میں ہو یا پھر نفسیاتی عوامل ہوں، ان سب میں ایک قانون رو بہ عمل اور ہم خود سے اس کو محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ہر vital tissue کو ایک شخصیت مان لیں تو معلوم ہوگا کہ بہت شروع سے کوئی  ایک ہم میں حاوی ہے اور شخصیت کے اعتبار سے اسی ایک کے اثرات ہم پر حاوی ہوتے ہیں۔ انڈین میڈیسن میں آیوریدا نے اس پر بہت کام کیا ہے بلکہ کئ معروف طریقہ ہاۓ طب مثلا TCM , Greek medicine نے اس پر بہت بات کی ہے۔ ہمارے ان بنیادی tissue میں سے کوئ ایک ہی excited ہے
Nervous tissue
Connective tissue
Muscular tissue
Epithelial tissue.
یہ کسی ایک کی excitation ہی ہوتی ہے جو اگلے تین پر ڈالتی ہے اور وہی اثرات ہی ذہنی اور جسمانی علامات کا سبب بنتے ہیں۔اس پر اگلے آرٹیکلز میں اپنا مشاہدہ بتاتا رہوں گا۔ آپ نے DISC personalities کو پڑھا ہوگا جس پر میں نے بھی طالبعلمانہ کام کیا ہے۔ وہ بھی اسی پر بات کرتی ہے۔

اس ساری بحث کا جو حاصل میں نے نکالا وہ یہ ہے کہ ہم اگر پوری شخصیت کو ایک اکائ مان لیں تو ذہنی امراض کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بہترین قانون اور بگاڑ کا میپ ہاتھ آ سکتا ہے۔
ہم چاہے فرد سے ہوتے اداکار اور پھر کردار تک کا سفر کریں، یا پھر شروع سے ملے کسی کردار کے لیے اداکار اور پھر فرد بننے تک کا سفر اور یا پھر اداکار ہوتے ہم کردار اور فرد کو ساتھ ملاۓ رکھیں تو مزاج کے اعتبار سے طریقے سبھی درست ہیں لیکن کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم کوئ ایسا طریقہ یا مشق خود کے لیے وضع کرلیں کہ ہماری ان تین قدروں میں سے کوئ ایک بھی محروم نہ رہے، تبھی ہم ایک متوازن شخصیت کے ساتھ آگے کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ سب سے آسان طریقہ اپنی پانچ حسیات کا شعوری ادراک کرنا ہے۔

مائینڈ فلنس میڈیٹیشن کے موضوع پر نیٹ میں بہت مواد موجود ہے وہاں سے پڑھ سکتےبیں۔ میں خود بھی اب گاہے گاہے اس کے اثرات اور مشاہدات پر لکھتا رہوں گا۔
آج کے دور کا بڑا سانحہ میری نظر میں یہی ہے کہ ہم اپنی تین قدروں یعنی فرد، اداکار اور کردار میں دو کو چھوڑ کر ایک ہی قدر ساتھ اٹھا لاۓ ہیں۔ اخلاقیات یہاں زیر بحث نہیں میں صرف ذہنی صحت کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم اگر دھیان کو موضوع بنا لیں تو یہ ایسی کمال کی ادا ہے جو اس سفر کو بہت خوبصورت بنا دے گی۔ سوچیے جہاں سرشاری میں لطف آۓ اور اداسی بھی امکان کی مٹھاس سے ،چاہے وہ امکان موہوم سا ہی کیوں نہ ہو، محروم نہ ہو۔ ہم ایسوں کو سردست اور کیا چاہیے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرض تو موضوع بنا ہے لیکن صحت بطور موضوع اپنی جگہ نہیں بنا پایا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply