وہ جو تاریک راہوں میں ماری گئیں/صنوبر ناظر

وہ گہری نیند سے ہڑبڑا کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی اور دونوں ہاتھ اپنے گلے پر ایسے پھیرنے لگی جیسے تسلی کرنا چاہ رہی ہو کہ گردن تن سے جدا تو نہیں۔ نظریں زمین کو بے یقینی سے تکنے لگیں لیکن اب وہاں نہ زمین تھی نہ چار سو پھیلا لہو۔ حد نگاہ تک سفید روئی کے گالے تھے۔ عرش پر بھی فرش پر بھی۔ اس نے اطمینان بھری ایک لمبی سانس لی اور سوچا کہ وہ بہیمانہ واقعہ صرف اس کا ایک خواب تھا۔

لیکن اگر وہ سارا خواب تھا تو یہ کیا ہے؟ اس نے خود سے ہی جھنجھلا کر سوال کیا۔

آنکھیں مسلتے ہوئے اس نے ارد گرد نظریں دوڑائیں  تو اسے سفید کپڑوں میں ملبوس ہزاروں عورتیں اپنے آس پاس نظر آئیں جو فضا میں معلق بادلوں کی مانند محسوس ہو رہی تھیں۔

میں کہاں ہوں؟ اور کون ہیں یہ سب؟ وہ پریشانی اور تجسس کے عالم میں بڑبڑائی۔

ایک جوان خوبصورت عورت جو اسکے  حیرت زدہ چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی فوراً  بولی۔۔

یہ وہ عورتیں ہیں جو تاریک راہوں میں ماری گئی ہیں۔ تم عالم برزخ میں ہو۔

تو کیا میں بھی مر چکی ہوں؟ اسے اپنے وجود میں ایک سناٹا سا غالب آتا محسوس ہوا۔

ہاں تم پچھلے ہفتے ہی یہاں لائی گئی ہو۔ عورت نے اسے یقین دلایا۔

اس نے دوبارہ اپنی صراحی نما گردن پر ہاتھ پھیرا۔

کوئی خراش بھی نہ تھی وہاں۔

لیکن میرے جسم پر تو کہیں کوئی زخم تک نہیں۔ میں کس طرح مر سکتی ہوں؟ ابھی تو مجھے اعلیٰ  تعلیم کے لئے بیرون ملک جانا تھا۔ میرے تو بہت اونچے خواب تھے۔ ابھی تو میں صرف 27 سال کی ہوں۔ صحت مند، خوب صورت، تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میرا تو کوئی دشمن بھی نہیں تھا۔

وہ بے یقینی کے عالم میں مسلسل بولے گئی۔

یہاں موجود تمام عورتیں بھی بے قصور اور ناحق ہی ماری گئی ہیں۔

ہاں وہاں ابھی بھی تمھارے اس بہیمانہ قتل پر اکثریت تمھیں ہی دوشی ٹہرا رہی ہے کہ عورت ہونے کے باوجود تم ایک غیر مرد کے ساتھ کیوں تھی۔ عورت نے عالم برزخ سے زمین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے بتایا۔

تو کیا وہ سب میرے ساتھ حقیقت میں ہو چکا ہے؟ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس عورت کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

ہاں۔۔لیکن تمھاری جیسی لاتعداد عورتیں ہیں۔ آؤ چند ایک سے تمھیں ملواتی ہوں۔۔

تمھیں زینب یاد ہے؟ ہاں وہی سات سالہ بچی جسے اس کے اپنے محلے کے قاری نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کرکے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا تھا۔ وہ دیکھو زینب کو۔۔ خوبصورت عورت نے ہاتھ کے اشارے سے ایک بچی کی جانب اشارہ کیا۔ روئی کے گالے نما بادل کبھی جھولا تو کبھی اڑن کھٹولہ بن کر بچی کو جھولا جھلا رہے تھے اور زینب کھلکھلا کر ہنسے جارہی تھی۔

اور وہ سامنے قندیل بلوچ کھڑی ہے۔ کون نہیں جانتا قندیل کو؟ اسکے اپنے بھائی نے اسکی چلتی سانس کو منہ پر تکیہ رکھ کر روک دیا تھا۔۔ وہی قندیل بلوچ جو ایک مشہور زمانہ ٹک ٹاکر بن کر بھائی اور گھر والوں کو سائبان اور روزگار فراہم کرنے کا باعث بنی تھی۔۔

اس نے دور کھڑی قندیل کی طرف دیکھا جسکی ویران آنکھیں خلا میں کچھ کھوج رہی تھیں۔

اسے بھی ابھی تک یقین نہیں آتا کہ اسکے اپنے چھوٹے بھائی نے اسکی جان لی۔

آؤ چلو میں تمھیں نسیم بی بی سے ملواتی ہوں۔ ابھی یہیں بیٹھی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔

عورت اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے بادلوں میں غوطے لگانے لگی۔ اسے لگا کہ اسکا جسم بھی فضا میں معلق ہے اسے اپنا وجود بے وزن اور ہلکا پھلکا سا محسوس ہو رہا تھا۔

نسیم بی بی کی گود میں ایک ننھا منا بچہ ہمک رہا تھا۔

دیکھ رہی ہو یہ ہے نسیم بی بی جسے اسکے شیر خوار بچے کے سامنے ایک بدبخت نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ماں کے قرب اور بھوک سے بچہ بلبلا رہا تھا۔ لیکن بچے کی فریاد اس مرد کو درندگی میں رخنہ محسوس ہوئی تو بچے کا سر بھاری پتھر سے پٹخ کر اور نسیم کا گلا کاٹ کر قصہ ہی تمام کرڈالا۔

یہ دیکھو اس خوبصورت دوشیزہ کو۔۔ یہ حیدرآباد سندھ کی قرۃ  العین ہے جس کو اس کے شوہر نے بچوں کے سامنے کس بہیمانہ انداز سے تشدد کیا پھر کئی گھنٹے ٹھٹھرتی سردی میں ائرکنڈیشنر کھول کر اسے تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا۔

جائے نماز پر دعا مانگتی یہ لڑکی کوئٹہ کی آمنہ بی بی ہے اس بے چاری بچی کو اسی حالت میں اسکے میاں نے گولی ماری تھی۔ چند ماہ کی حاملہ آمنہ کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا اور ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔

یہ چار خوبصورت نو عمر لڑکیوں کو دیکھ رہی ہو؟

عورت نے اس کی توجہ چار کوہستانی لڑکیوں کی جانب مبذول کروائی۔۔

جانتی ہو ان کا قصور کیا تھا۔۔ ایک شادی کی تقریب میں ان چار لڑکیوں کی تالیوں کی تھاپ پر دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے۔ کسی بد بخت نے ویڈیو بنا کر پوری برادری میں اسے عزت کا معاملہ بنا ڈالا۔

اور پھر غیرت کے نام پر ان چاروں لڑکیوں کو ذبح کرکے قتل کر دیا گیا۔

تم اکیلی نہیں ہو نور مقدم۔۔ عالم برزخ کے اس حصہ میں صرف وہی عورتیں لائیں جاتی ہیں جو کسی نہ کسی کم ظرف مرد کے ہاتھوں ناحق ماری گئی ہیں۔ جب تم یہاں موجود عورتوں کی کہانیاں سنو گی تو تمھیں یقین نہیں آئے گا کہ ہمارے ملک میں عورتوں کے ساتھ اکیسویں صدی میں کیسا بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات تو ہم نے انیسویں صدی میں بھی نہیں دیکھے تھے۔

نور نے غور سے اس خوب صورت عورت کی جانب دیکھا۔۔ لیکن آپ کون ہیں؟

عورت مسکرائی اور بولی تمھاری نسل میرے بارے میں شاذونادر ہی کچھ جانتی ہوگی۔۔ تمھاری نسل سمجھتی ہے کہ نسائی تحریکیں صرف مغرب میں ہی برپا ہوئی ہیں جبکہ ہمارے خطے میں ایسی خواتین گزری ہیں جنھوں نے عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھائی۔۔ میرا نام سیدہ محمدی بیگم ہے۔ میں سرگودھا کے ایک گاؤں میں شاہ پور میں 1878 میں پیدا ہوئی تھی۔ غالبا مجھے پاکستان کی پہلی حقوق نسواں کی علمبردار بھی کہا جاتا ہے۔

نور نے حیرت سے سیدہ بیگم کو دیکھا اور گویا ہوئی۔ تو کیا آپ کو بھی قتل؟

سیدہ بیگم مسکرا کر بولی۔ نہیں نہیں۔۔ میری تیس سال کی عمر میں طبعی موت واقع ہوئی تھی۔ میں نے سینکڑوں تصانیف خواتین کے مسائل پر لکھیں۔

پھر آپ اس حصے میں کیونکر ہیں؟ نور نے حیرانی سے سوال کیا

میں نے ہمیشہ عورتوں کے حقوق پر ہی لکھا۔ عالم برزح کے اس حصے میں ان ساری خواتین کی دل خراش روداد سن کر سوچتی ہوں کہ حالات بہتر ہونے کے بجائے بدتر کیسے اور کیوں ہوئے۔ مجھے اس حصے میں آکر ایک سکون سا محسوس ہوتا ہے۔

جب تمھارے لرزہ خیز قتل کی خبر یہاں پہنچی تو میں تب سے تمھاری ہی راہ دیکھ رہی تھی۔

تم خوش قسمت ہو کہ تم ایک خوشحال گھرانے کی بیٹی تھی۔ تمھارے خاندان دوست احباب اور شہر والے تمھارے لئے انصاف پانے کے لئے بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ ورنہ یہاں اکثریت ان عورتوں کی ہے جن کے بہیمانہ تشدد اور قتل کی کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دی جاتی۔ اگر بات پولیس تک پہنچ بھی جائے تو پدر شاہی سماج مرد کو بچانے کے لئے پورے معاملے کو ہی دفن کر دیتے ہیں۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے مزاحمت کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں عورت مارچ کے دن خواتین کی شمولیت دیکھ کر میں پر امید ہوں کہ ہماری عورت اب جاگ رہی ہے اور عورت مارچ جیسی تحریکیں ہماری ہزاروں لاکھوں عورتوں، بچیوں کا خون ناحق نہیں جانے دیں گی۔ ظلم و جبر کی رات جلد یا بدیر ایک چمکدار صبح کی صورت ضرور اجاگر ہوگی۔

بس مجھے اسی دن کا انتظار ہے۔۔ تمام عورتوں نے ہم آواز ہو کر نعرہ لگایا۔۔ ہمیں دنیا میں بسنے والی ہر عورت کے لئے ایک نئی صبح کا انتظار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ: وی نیوز

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply