میری مرضی تجھے دفن کروں یاتیری قبر میں جا گھسوں۔۔ عفت نوید

عورت اپنی زندگی کے فیصلے مرد سے زیادہ بہتر انداز سے کر سکتی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی جان پرکھیل کر تخلیق کرتی ہے۔ جنم دیتی ہے، رات بھر اس خوف سے سوتی نہیں ،مبادہ اس کا ہاتھ ننھی جان کے جسم پر آپڑے، اور اس کا دم گھٹ جائے۔

اسے پالتی ہے۔۔ بیماری میں اس کی نگہداشت کرتی ہے۔ اس کی سوجھ بوجھ تعلیم کی بھی محتاج نہیں ہوتی، نرس، ڈاکٹر، ٹیچر، منتظم کی بہترین خصوصیات لیے وہ بچے کو عمر کے مختلف مدارج کامیابی سے طے کرواتی ہے۔ اسے تحفظ اور محبت کے حصار میں رکھتی ہے۔

بچہ ذرا بڑا ہوا ،منہ میں زبان، دماغ میں خیالات، آنکھوں میں مشاہدے کی قوت آئی  تو باپ دادا سے عورت کی تحقیر اور اس کی ہستی کی نفی کرتے دیکھا۔ دلیل میں اسے مذہب سے حوالے دیے گئے۔

اب وہی ماں جس کی کوششوں کے باعث اپنے توانا حواسوں کے بل بوتے پر وہ باپ کی زبان بولنے لگا۔

ڈری سہمی، سات پردوں میں بیٹھی فرمانبردار لونڈی کو اگر ان آزاد عورتوں کی زبان مل گئی تو اسلام خطرے میں پڑ جائے گا۔ مذہب کے بچاؤ کی آڑ میں مرد کی من مانی کے غیر محفوظ ہونے کا خطرہ ہے۔

نسل در نسل بر صغیر میں عورت کو ہر رشتے میں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
عورت تخلیق کرتی ہے، اس لیے اپنے جسم، صحت، حالات موڈ اور زندگی پر اس کی ہی مرضی چلے گی۔۔

اب عالم یہ ہے کہ خلیل الرحمن جیسے متکبر، اخلاقی گراوٹ کے شکار اس نعرے کو بے حیائی اور فحاشی سے تعبیر کریں گے۔ اب یہ دن آگئے کہ ان جیسے بھی کہیں گے۔۔

ان جیسے” بھی” کیا ،ان جیسے” ہی” کہیں گے۔
بے شرم عورتیں جسم کہہ کر فحاشی پھیلا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت کا ہر نعرہ مرد کے گھناؤنے عمل کا ردِ عمل ہے۔ مرد کو جو نعرہ سوٹ کرتا ہے وہ ہے۔۔۔
” تیرا جسم میری مرضی” آنکھوں سے تجھے گھورتا رہوں، رش میں تجھے ہاتھ لگاؤں، اپنی مرضی سے تجھے شادی کا پیغام بھیجوں، جو تو انکار کرے تو تجھ پر تیزاب پھینکوں، تیرے ٹکڑے کروں۔
تجھے دفن کروں یاتیری قبر میں جا گھسوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply