• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سرا ء حقوق بِل پر دینی جماعت کا اعلانِ جہاد/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سرا ء حقوق بِل پر دینی جماعت کا اعلانِ جہاد/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل کی بعض شقوں کو اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر شرعی قرار دے کر ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنی ہے۔ سارا کام جماعت اسلامی کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو رہا ہے۔ اسکے باوجود سینیٹر مشتاق صاحب نے جمعہ کے روز ایک ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
“سینیٹر صاحب قوم کو خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے بل کےخلاف شدید ردعمل پر مبارک دیتے ہیں اور قوم کے شدت پسند رویئے کو تاریخی قرار دیتے ہیں۔ سینیٹر صاحب کہتے ہیں کہ قوم کے غم و غصے کی وجہ سے حکومت ٹرانسجینڈر ایکٹ کی کچھ شقوں پر بات کرنے پر تیار ہوگئی ہے۔ بل کو نظرثانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیج دیا ہے جو اس بل کو دوسری مرتبہ غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ چیئرمین سینٹ رولنگ دے چکے ہیں کہ اس بل کی اصلاح کرکے دوہفتوں بعد اسے سینیٹ سے گزارا جائے گا۔ سینیٹر صاحب کہتے ہیں حکومت ہمارے اسلامی نظام کے ساتھ سازش کرنے جارہی ہے۔ بل میں معمولی تبدیلیاں کر دی جائیں گیں۔ لیکن حقیقی خرابی کی جڑ کو رہنے دیا جائے گا۔ سینیٹر صاحب ملک کے تمام علماء اور مشائخ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے ایکٹ پر تقاریر کی جائیں۔ سینیٹر صاحب ساتھ ہی نوجوان نسل سے درخواست کرتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کے بعد مساجد کے باہر اس ایکٹ کے خلاف مظاہرے کیئے جائیں۔ پلے کارڈز اٹھائیں جن میں اس کے خلاف کلمات درج ہوں۔ سینیٹر صاحب نوجوان نسل، کی بورڈ وارئیرز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے مجاہدین سے کہتے ہیں کہ مساجد کے باہر ہونے والے احتجاجوں کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں، اپنے تنقیدی پیغامات بھی اپ لوڈ کریں۔ مجھے جمعہ کے دن دس لاکھ ویڈیوز کی ضرورت ہے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔
ملک کے نامور صحافی، سینیٹر صاحب کے جھوٹ اور نفرت پر مبنی بیانیئے کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں۔ جیو کے مشہور صحافی شاہزیب خانزادہ نے دینی جماعتوں کے حالیہ احتجاجوں پر تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر دینی جماعتوں کے اعتراضات حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ بل کی کوئی شق کسی بھی طرح سے ہم جنس پرستی کے فروغ کا باعث نہیں بن سکتی۔ جنس کی تبدیلی کے حوالے سے جو خواجہ سراء نادرہ سے رجوع کرے گا اسے اپنے والدین یا پھر گرو کے ہمراہ نادرہ کے دفتر جانا ہوگا۔ نادرہ کے ریکارڈ میں موجود گھر والوں یا گرو کی موجودگی میں خواجہ سراء کی جنس تبدیل ہوسکے گی۔ جنس تبدیل کرانے والا خواجہ سراء مرد یا عورت کا شناختی کارڈ لینے کا حق دار ہوگا۔ لیکن یہ کارڈ مکمل مرد اور عورت کے نہیں ہونگے بلکہ انکے ساتھ ایکس لکھا ہوگا۔ ایکس کا مطلب خواجہ سراء ہے۔ شناختی کارڈ کے جنس کے خانے میں مرد خواجہ سراء یا عورت خواجہ سراء کیلیئے جگہ نہیں اسلیئے ایکس کا نشان دیا گیا ہے۔ بل میں مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی کا کہیں ذکر نہیں۔ اٹھائیس ہزار لوگوں کی جنس کی تبدیلی کے حوالے سے نادرہ نے واضاحت دی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ ٹائپنگ کی غلطیاں تھیں جو ٹائپ کرتے وقت ہو جاتی ہیں۔ جن لوگوں کے شناختی کارڈ درست کیئے گئے ہیں ان کی شادیوں کے حوالے سے کیا جانے والا پراپیگنڈا بے بنیاد ہے۔
ملک ایک طرف تاریخ کے بدترین سیلاب کا شکار ہے تو دوسری طرف مہنگائی، بے روگاری اور قرض کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ تیسری طرف خیبر پختون خواہ اور بلوچستان دہشتگری کی لپیٹ میں ہیں۔ ملک کی اقلیتی برادری پر شدت پسند گاہے بگاہے حملے کرتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کا خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر سیاست کرنا افسوناک عمل ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ جماعت اسلامی پراپیگنڈے کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لاچکی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل بھی بل کی چند نکات کو غیر شرعی قرار چکی ہے اور بل پر نظرثانی کیلئے چودہ دن کا وقت دے چکی ہے۔ ان سب کے باوجود سینیٹر مشتاق صاحب نوجوان نسل کے جذبات ابھارنے کیلئے جھوٹی سچی کہانیاں گھڑنے میں مصروف ہیں۔ حکومت کو مغرب کا آلہ کار اور اسلام دشمنی قرار دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ فرض کریں سینیٹر صاحب مذہب کے نام پر سیاسی کھیل کھیلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لوگ ان کی درخواست پر گھروں سے باہر نکل آتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ مذہبی انتہا پسند، سیاست دانوں اور سیاسی کارکنوں کو اسلام کا دشمن سمجھ کر مارنا شروع کر دیں گے۔ خواجہ سراؤں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کریں گے۔ ہر طرف نفرت ہی نفرت اور آگ ہی آگ ہوگی۔
سینیٹر مشتاق صاحب کے مذہب کارڈ اور انسانی حقوق سے دشمنی کے بیانئے کو روکنے کے لیئے پارلیمنٹ، سینیٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ورنہ جھوٹ پر مبنی یہ بیانیہ پورے سسٹم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply