گلگت بلتستان باسیوں سے چند سوال/محمد ہاشم

کبھی اس بات پہ غور کیا ہے کہ آپ کے ہزاروں بچے پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بہتر تعلیم کے حصول کے لئے جاتے ہیں تو ان کا جو اوسط خرچہ آپ بھیجتے ہیں وہ کم از کم بھی 15 سے 20 ہزار ماہانہ ہے۔ اس کا اگر حساب لگائیں تو کروڑوں روپے آپ ہر ماہ گلگت بلتستان سے باہر منتقل کرتے ہیں۔ راولپنڈی، لاہور اور کراچی کے آدھے سے زیادہ ہاسٹل، پٹھانوں کے کوئٹہ کیفے، سٹوڈنٹ بریانی کی چھوٹی دکانیں، کھوکھے اور ایزی پیسہ کے کاروبار آپ کے بھیجے ہوئے پیسوں سے چلتے ہیں۔ اور بدلے میں آپ کا بچہ گھر اور ماں باپ کی یاد میں میلوں دور پھیکے نوالے نگلتا ہے اور آپ لوگ اپنے لخت جگروں سے دور آنسو  پیتے رہتے ہیں۔

کبھی اپنے ان بچوں کے مہینے کے آخری دن دیکھے ہیں ؟جب وہ ایک سو روپے میں پورا دن کاٹنے کی کوشش میں آدھا پیٹ کھانا کھاتے ہیں۔ کبھی ان بچوں کے کھانے کا ذائقہ اور معیار پوچھا ہے کہ ان ماں کے شہزادوں اور باپ کی لاڈلی بیٹیوں کو کھانے کے نام پہ ہاسٹلوں میں جو شوربہ دیا جاتا ہے اس کا اور گھر کے کھانے کا فرق کیا ہے؟ آپ کا بچہ جو اٹھارہ سال سے کم عمر میں گھر سے نکل کر یکدم ایک بڑے شہر کے نئے اور آزاد معاشرے میں آیا ہے ،اس میں بھٹکنے اور غلط راستے پر چلنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ آپ اپنا پیٹ کاٹ کے جو پیسہ بھیجتے ہیں، آپ کا بچہ وہ پیسہ اپنی تعلیم اور اپنی خوراک پر لگا رہا ہے یا پھر کسی ایسے غلط راستے پر چل نکلا ہے جو بچے کو مقصد اور ہدف سے دور لے کے جا رہا ہے، آپ کو علم ہی نہیں ہوتا۔ آپ کا یہ بچہ آپ کی آنکھوں کے سامنے رہ کر وہ تعلیم حاصل کیوں نہیں کر پارہا اور آپ اپنی جیب اور دل پہ بوجھ رکھ کے اپنے بچے کو اتنی دور کیوں اور کس وجہ سے بھیج رہے ہیں؟

ان دنوں گلگت میں چیف سیکرٹری کے اعلان کردہ خواتین کے سپورٹس گالا کے حوالے سے کچھ حلقے احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے اور ہماری بچیوں کو ایسے مخلوط اور کھلے میدانوں میں کھیل کود کروانا ہماری تہذیب نہیں ہے۔ آپ کا اعتراض بجا لیکن آپ کی تہذیب تو یہ بھی ہے کہ آپ اپنی بہو بیٹیوں کو تنہا گھر سے باہر نہیں جانے دیتے۔ باپ یا بھائی خود سکول کالج چھوڑ کے آتا ہے اور بازار جانا ہو تو لازمی ساتھ جاتے ہیں لیکن کبھی سوچا ہے کہ آپ کی ہزاروں بیٹیاں گھر سے دور بڑے شہروں کے ہاسٹلز میں کیسی زندگی گزار رہی ہیں؟ کالج یونیورسٹی جاتے آتے ان کے ساتھ کون ہوتا ہے؟ کتنی معاشرتی برائیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کس قدر نفسیاتی دباؤ اور مشکلات سے روزانہ گزرنا پڑتا ہے اور کتنی ایسی ہونہار بیٹیاں ہیں جو اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے گھروں سے نکل کر بڑے شہروں کا رخ نہیں کر سکیں اور اپنے شہر میں وہ وسائل اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ  سے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو زنگ لگوا کے عمریں نکال گئی ہیں۔

آپ کو اپنی تہذیب کے تحفظ اور بقاء کے لئے لیڈی ڈاکٹرز چاہئیں، لڑکیوں کو پڑھانے کے لئے لیڈی ٹیچرز، پروفیسرز، لیکچرر چاہئیں لیکن کبھی سوچا ہے کہ یہ لیڈی ڈاکٹرز، پروفیسر لیکچرر آئیں گی کہاں سے؟ کیاں آپ کی بیٹی وہ کچھ نہیں بن سکتی جس کی چاہت اور ضرورت آپ کی تہذیب اور معاشرے کو ہے؟ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ کی بیٹی آپ کے اپنے شہر میں آپ کی نظروں کے سامنے ڈاکٹر وکیل، سائنسدان بنیں؟ آپ کا بچہ صبح اپنی تعلیم کے حصول کے لئے گھر سے ناشتہ کر کے نکلے اور شام واپس اپنے گھر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گزارے؟

تعلیم کے علاؤہ صحت کے شعبے میں جو محرومیاں ہیں ان پر کبھی غور کیا ہے؟ صحت کی سہولیات کا اس قدر فقدان ہے کہ آدھا گلگت بلتستان معمولی بیماری لے کر بھی راولپنڈی اسلام آباد آیا ہوتا ہے اور شام کو راولپنڈی کمیٹی چوک سے گزرنے پر گلگت گھڑی باغ کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ کئی غریب خاندان اپنے مریض لے کر ہوٹلوں میں خوار ہوتے ہیں اور کئی دنوں کی مشقت کے بعد مقروض ہو کر واپس چلے جاتے ہیں۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جو لوگ بڑے شہروں کی طرف جاتے ہیں وہ بھی اپنی جمع پونجی لے کر جاتے ہیں اور ساری وہاں خرچ کر کے آتے ہیں۔ کسی ماہر معاشیات سے حساب لگوائیں کہ صرف تعلیم اور صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے جو پیسے کی ترسیل گلگت بلتستان سے باہر ہوتی ہے اس سے ہمارا کس قدر معاشی نقصان ہوتا ہے، آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔

کبھی سبسڈی والے سستے اور غیر معیاری گندم کا آٹا کھانے سے باہر نکلیں تو ہم سوچیں کہ آزاد کشمیر کی آبادی ہم سے کئی گنا کم ہونے کے باوجود وہاں میڈیکل کالج، یونیورسٹیاں اور معیاری ہسپتال ہیں اور ہمارے پاس کیا ہے،؟

ایک قراقرم یونیورسٹی اور وہاں کا اوسط نظام تعلیم۔

Advertisements
julia rana solicitors

بنیادی اور اصل مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائیں تا کہ آپ کا حال اور مستقبل دونوں سنور جائیں ورنہ جتنی ترقی ان 75 سالوں میں گلگت بلتستان میں ہوئی ہے اس کی مثال یہ ہے کہ ہماری قانون ساز اسمبلی اور ہمارے نمائندوں کے عہدوں کے نام ہی بدلتے رہے  ہیں، اختیارات نہیں۔ اور ترقی کی رفتار یہی رہی تو ہم دنیا سے دور اور بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply